Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان …….. جبھی تو میری جان مچلتا ہوادل…… محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

میری کلاس کے ایک بچے کا بازو ٹوٹا۔۔۔بتایا گیا کہ سکول سے گھر جاتے ہوئے چلتی گاڑی سے گرا بازو ٹوٹا۔۔میں نے ”اہو“ کہا اور اس کو حاضری رجسٹر میں بیماردیکھایا۔ پھر مہینے تک بچے کا پتہ نہ چلا۔میں نے اس کے گھر پیغام بھیجا تو دوسرے دن سکول آیا۔بچہ ہاتھ اپنے کوٹ کی جیب میں چھپایا ہوا تھا۔میرے پاس آیا سہما ہوا تھا۔میں نے خیریت پوچھی تو نہایت احترام سے سب کچھ بتا دیا۔وہ اپنی کلاس میں گئے میں اور مصروفیات میں مصروف ہوگیا۔چھٹی کیلئے ایک دو پریڈ باقی تھے کہ کلاس مانیٹر نے آکررپورٹ دی کہ اس کابازو درد کررہا ہے بچے کومیرے پاس لایا گیا تو واقعی درداس کے چہرے سے عیان تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اس نے بمشکل ہاتھ اپنی جیب سے باہر نکالا میں نے اس کا دردمحسوس کیااور کہا کہ بازو ٹھیک ہونے تک سکول نہ آئیں۔۔مجبوری انسان کوکسی کا نہیں چھوڑتا۔مجبور انسان کے پاس ایک عدد فریاد اور خاموش آنسو ہوتے ہیں۔وہ آنسو اکثر رائیگان بہتے ہیں۔اور فریاد صدا بہ صحرا ہوتی ہے۔پتھروں کے اس معاشرے میں کسی کا درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس وجہ سے مجبور بے موت مرتا ہے۔حکمران کو رعایا کے درد کا احساس نہ ہو آفیسر کو ماتحت کے درد کا احساس نہ ہو۔دولت مند کوغریب کے درد کا احساس نہ ہو تو اسی معاشرے کوپتھر کا معاشرہ کہتے ہیں۔زندگی جینے اور جینے دینے کانام ہے۔خود جینا اتنا مشکل کام نہیں۔جینے دینا مشکل کام ہے ایثار و قربانی اسلام اور مہذب قوموں کی پہچان ہے دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے دست گیری کی صفت سے متصف ہوا وہ انسانیت کا چمپین بنا۔ دنیا میں اپنا نام باقی رکھ گیا۔ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد سے بے خبر رہتے ہیں۔ہمیں کسی کی سوالیہ آنکھوں میں چھلکتے سوالوں کاادراک نہیں ہوتا۔ہمیں کسی کے کپڑوں کے چیتڑے نظر نہیں آتے۔ہمیں جھونپڑیوں میں جھانکنے کی عادت نہیں۔ہمیں کسی کی ضرورت اور مجبوری کا احساس نہیں ہمارے سینے میں جودل ہیں وہ درد محسوس ہی نہیں کرتے۔وہ دھڑکنا جانتے نہیں۔اگر یہ بچہ کسی ”بڑے“ کا بچہ ہوتا۔۔تو میں بھی پل پل اس کا پوچھتا اس کے ابوکو فون کرتا۔اس کو سکول نہ بلاتا اس کے درد کومحسوس کرتا۔۔۔بچہ سکول کے گیٹ سے باہر گیا۔باہر نکلتے ہوئے پیچھے مڑ کے دیکھا۔اس کی بے بسی آنسووں کے ساتھ اس کی آنکھوں میں اُتر آئی تھی۔۔ایک آہ آرزو بن کے میری سماعت سے ٹکرائی۔۔تم کیسے اُستاد ہو۔۔درد محسوس نہ کرنے والا۔۔میرا بازو ٹھیک نہیں ہوا تھا۔اگر آپ کے بلاوے پہ نہ آتا تو آپ مجھے سکول سے نکالتے۔میرا نام خارج کیا جاتا۔۔میرا پوچھنے والا کوئی نہیں۔جب میرا بازو ٹوٹا تو قصور میرا نہیں تھا۔۔میں سکول سے گھر جاتے ہوئے دوڑ کے ٹیکسی پہ چھڑا تھا کیونکہ سخت بھوک لگی تھی اور ساتھ رات ماں کے سر میں درد ہو رہا تھا۔صبح میں بے غیر چائے پیئے آیا تھا۔دس روپے میری جیب میں تھے۔۔آتے ہوئے میڈیکل سٹور سے دو عدد اوپنیڈال گولی خریدی تھی۔۔سکول میں رہ رہ کے ماں اوراس کا سر درد یاد آتارہا۔۔دل نے چاہا کہ ُاڑ کے گھر پہنچوں گولی ماں کوکھلاؤں۔۔لیکن استاد سے چھٹی لینے کی ہمت نہیں ہوئی اگر چھٹی مانگتا بھی تو استاد یقین کب کرتا۔۔چھٹی نہ ملتی مفت میں شر مندہ ہوتا۔۔چھٹی ہوئی تو جی چاہا کہ دوڑکر پہنچ جاؤں۔راستے میں ٹیکسی ملی چھلانگ لگا کر چڑھا۔مگر کہکشان سے گاڑی کیا گزرے ایک کہڈمیں عضب کا ہچکولا کھائی تو میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا نیچے گرا بازو ٹوٹا۔ہسپتال میں واجبی پٹی کی گئی میرے ابو کویہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ ”ڈاکٹر صاحب کیا ٹوٹی ہوئی ہڈیاں درست طور پرجوڑ گئیں۔۔ڈاکٹر صاحب!یہ میرے لخت جگر کا ”بازو“ ہے۔ اس کے مستقبل کا انحصار اس ”بازو“ پہ ہے۔۔ڈاکٹر ”آفیسر“ہے اس سے بات کرنے کی ابو کو ہمت نہیں ہوئی۔۔استاد تو تو روحانی باپ ہے مجھ سے ملنے آنا چاہیے تھا۔۔استاد میرا بازو ٹھیک نہیں ہوا تھا تو نے مجھے سکول بلایا۔۔استاد میرا زخم پھر ہرا ہوا ۔۔میں درد سے بلبلا اٹھوں گا۔۔تو میری ماں جل کر راکھ ہو جائے گی میرے ابوکی رات کی نیند حرام ہو جائے گی۔میری ٹوٹی ہوئی ہڈیاں۔۔۔استاد محترم!یہ پتھر کا معاشرہ ہے۔۔ہڈیاں پتھروں سے ٹکرا کر ویسے بھی ٹوٹا کرتی ہیں میں ہوش میں آیا تو بچہ کب کا جاچکا تھا۔یہ آوز انسانیت کی تھی جو میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔۔وہ ”انسانیت“ جس سے میں کوسوں دور تھا میں نے اپنی جیب ٹٹولا تو ڈھیر سارے پیسے تھے۔مجھے لگا کہ میری جیب میں بچھو تھا جس نے مجھے کاٹا کیونکہ میرے ابو نے کہا تھا۔۔۔۔۔ بیٹا!۔۔تیری جیب میں جو پیسے ہیں وہ دوسروں کی امانت ہیں یہ ان کو ادا کرنا اللہ ان کی امانت تیرے حوالہ کرتا ہے اور یہ آزمائش ہے بیٹا!مجھے میرے ابو بہت یاد آئے۔۔۔۔۔ البتہ ایک بھولی بسری گیت کے بھول بھی یاد آئے۔۔
جبھی تو میری جان مچلتا ہوا دل تجھے کہہ رہاہے سلا م۔۔۔۔۔سلام محبت۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
29199