Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ٹماٹر سے فرانس تک کا سفر…………تحریر: میرسیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

لطیفوں کی تاریخ میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ گدھے کو لطیفہ بہت دیر سے سمجھ آتا ہے اسلیے وہ سب سے آخر میں ہنستا ہے ۔معذرت کے ساتھ لیکن موجودہ حکومت ایسا ہی لطیفہ ہے جو بہت سو ں کو دیر سے ہی سہی مگر سمجھ آ گئی ہے لیکن ” بہت سوں ” کو سمجھ آنا ابھی بھی باقی ہے۔۔بحر حال پچھلے دنوں وزیر اطلاعات خیبر پختو نخواہ شوکت یوسفزئی کے اس بیان یعنی( ٹماٹر نہیں تو دہی کا استعمال کرلیں ) نے فرانس کی اس ملکہ کی یاد دلادی جس نے روٹی کا نعرہ لگانے والی تنگ دست عوام کو ” کیک ” کھانے کا مشورہ دیا تھا،،انقلاب فرانس پر نظر دوڑائیں تو تار یخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ کنگ لوئیس کے دور حکومت میں فرانس دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا ایک وہ جسکے لیے فرانس جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ جو سونے کے چمچ سے اور چاندی کے پلیٹوں پر کھانا کھاتے تھے ،دو سو ایکڑ کے محلوں میں رہتے تھے عام لوگوں پر ٹیکس لگانے کی انکو آذادی تھی یہاں تک کے دس قتل تک انکو معاف تھے ۔۔۔
.
دوسرا طبقہ وہ جو ضروریات زندگی تک سے محروم تھا،انکو کھانے کے لیے کھانا ، پہننے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے چھت تک میسر نہ تھا،،امراء کے ظلم کا شکار یہ طبقہ تعلیم ، صحت اور برابری کے حقوق سے بالکل محروم تھا۔آخرکار حالات یہاں تک پہنچے کہ ملک میں قحط پڑ گیا عوام بادشاہ کے محل کے سامنے اکھٹے ہوئے اور ”’ روٹی روٹی روٹی ”’ کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوگئے،،بادشاہ کی جوان ملکہ نے بالکونی سے نیچے یہ منظر دیکھا تو انکا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ” اگر انکو روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کھا لیں۔۔۔”یہ طبقہ بھوک پیاس سے بلکتا رہا اور اشرافیہ انکا تمسخر اڑاتا رہا،،اسوقت فرانس کی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ رشوت قانونی صورت اختیار کرچکی تھی حتیَ کہ مُردوں کو بھی رشوت کے بغیر دفنانا نا ممکن تھا،سرکاری نظام بالکل بیٹھ چکا تھا،ایسے حالات میں عوام کے لیے سانس لینا بھی مُحال ہو چکا تھا،ان حالات میں ۱۴ جولائی ۱۷۸۹ کو لوگوں کا ایک گروہ اٹھا ہاتھوں میں ڈنڈے لیے یہ پیرس کی طرف روانہ ہوئے،حکومت نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انکو باغی قرارا دیتے ہوئے فوج کو انھیں کچلنے کا حکم دے دیا،لیکن اس سے پہلے کہ فوج کچھ کر پاتی یہ گروہ خود لاکھوں باغیوں کا فوج بن گیا اس گروہ نے پیرس پہنچ کر ہر اس شخص کی گردناُڑادی جو دن میں ۳ بار کھانا کھاتا تھا جسکے پاس ایک سے ذیادہ جوڑے کپڑے تھے جسکے گھر رات کے وقت روشنی ہوتی تھی اس انقلاب میں فرانس کے محروم طبقے نے بالائی طبقے کے تمام وزیروں مشیروں سفیروں تاجروں حتی کے تما م خوشحال افراد کو ابدی نیند سُلا دیا۔۔
.
اس ہجوم نے بادشاہ کے محل پر حملہ کیا اُسے گھسیٹتے ہوئے سڑکوں پر لاکر سرعام پھانسی دے دی اور اس جوان ملکہ کو ایک انتہائی تنگ مورچے میں قید کردیا،،تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ یہ سزا ” ملکہ ”’ پر اسقدر بھاری گزری اس پر اسقدر ہیبت طاری ہوئی کہ محض ایک ماہ کے اندر ملکہ کے سر کے سارے بال سفید ہو چکے تھے،،،یہ انقلاب ۱۷۹۲ تک جاری رہا اور اسکے بعد فرانس میں بادشاہت کا دور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا،،،جو تاریخ میں انقلاب فرانس یا فرینچ ریولیشن کے نام سے رقم ہے۔۔
.
اب واپس اپنی ریاست کی طرف آئیں جسکا نام غلطی سے ریاست مدینہ رکھ دیا گیا تھا لیکن اسکا حالیہ منظر انقلاب فرانس سے پہلے کے حالات سے ذرا بھی مختلف نہیں۔نیا پاکستان جہاں ڈالر کی قیمت ۱۵۵ سے اوپر جا چکا ہے،جہاں گرو تھ ریٹ ۵.۸فیصد سے گر کر ۲.۵٪ ،جہاں شرح سود ۱۳،۵۰٪ ۔جہاں بجلی ۲۰۰٪ اور گیس ۲۵٪ مہنگی ہو چکی ہے جہاں مہنگائی کی شرح ۴٪ سے بڑھ کر ۱۳٪ تک پہنچ گئی ہے اور عالمی بنک کے مطابق مزید اضافہ ہوگا،جہاں معشیت تباہ تعلیم اور ہسپتالوں کی حالت پہلے سے بھی بد تر اور بے روزگاری دوگنی ہو چکی ہے۔۔لیکن ان تمام مسائل کی وجہ صرف یہ ہے کہ پچھلی حکومت چور تھی،،کبھی کبھار مجھے خیال آتا ہے کہ ۱۹۴۷ کو جب پاکستان بنا توسٹاک ایکسچینج کی صورت حال کیا تھی؟ صفر،تعلیمی حالت صفر،گروتھ ریٹ صفر،،وہ بھی کسی مائی کے لال تھے جنھوں نے آزادی کا تصور پیش کیا،، ملک کو ازاد کیا اور صفر پوائنٹ سے اس ملک کا آغاز کیا۔۔۔ اس ملک کو چلایا۔۔اگر ماضی کے خسارے کا رونا ہی روتے رہتے تو آج ہم کہاں ہوتے؟/۔۔اگر ہم پارٹی ازم سے نکل کر ایمانداری سے صرف ایک لمحہ سوچیں تو اسوقت پاکستان کی موجودہ حالت فرانس کے اُس دور سے قطعی مختلف نہیں۔۔
.
ٹیکس کا پورا زور عوام پر لاد کر یہ نام نہاد حکمران اپنا بال بھی بیکا نہیں کر رہے ہیں،، اس پہ مستزاد یہ کہ ہر موقع پر یہ غیر سنجیدہ بیانات دے کر غریبوں کا تمسخر اُڑارہے ہیں ، مسئلہ ٹماٹر کا نہیں عوام پچھلی حکومتوں میں بھی کبھی آٹے کے بحران تو کبھی چینی کی بے چینی تو کبھی بد ترین لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل سے نبرد آزما ہوچکی ہے،،،سچ تو یہ ہے کہ غربت بے روزگاری اور مہنگائی اس ملک کا تاریخی ورثہ رہے ہیں۔ مسئلہ اس ڈھٹائی کا ہے جو آئے روذ دیکھنے کو مل رہا ہے،،جاتے جاتے میں اس بیان پر ایک نظر اور ڈالنا چاہتی ہوں جس کے آخری الفاظ کچھ اسطرح تھے کہ ”’ پاکستانی عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے اسکے پیچھے پڑجاتے ہیں ،،اس سے بہتر ہے اسکا استعمال چھوڑدو اس سے جان چھڑاو “‘ وزیر اعلی صا حب کا یہ بیان جتنا مضحکہ خیز ہے اس سے کہیں ذیادہ تلخ ہے ریاست کے اس خلیفہ سے کوئی جاکر پوچھیں کہ اس وقت مارکیٹ میں سستی چیز کیا ہے؟؟ماچس کی ایک ڈبیہ ،،،جس سے اس نظام کو اگ لگایا جاسکے ہاہ۔۔۔ یا غریبوں کے جذبات یا انکے جانیں کیا چیز سستی ہے؟/ آپ تمام مسائل ایک طرف ڈال دیں صرف مہنگائی کو لے لیں ایک عام ادمی کی قوت ِ خرید جواب دے چکی ہے۔۔
.
ایک رپورٹ کے مطابق اسوقت ملک میں ۸ کڑوڑ عوام مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں سہر فرست دماغی امراض ہیں جسکی بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور ڈپریشن کی بنیادی وجہ کچھ شک نہیں کہ غربت بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔۔اور لمحہ فکریہ ہے کہ رواں سال سب سے ذیادہ خود کشیاں رپورٹ ہوئیں،،ریاست کے حالات یہ ہیں اور خلیفاوں کے بیانات دیکھ کر لگتا ہے کہ انکو اٹکھلیاں سوجھی ہیں، موجودہ حالات ہر اُس شخص کے لیے پریشان کن ہیں جو حلال کماتے ہیں جو ان حالات میں بھی پریشان نہیں وہ یا تو حلال نہیں کماتے یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔
.
بحر حال یہ تمام حالات ایک طرف ریاست کے ان خلیفاوں کے ان غیر سنجیدہ اور اُوٹ پٹانگ بیانات نے جہاں ملک کے اندر ابہام پیدا کیا ہے وہی ان بیانات نے انکا اپنا خود غرض ،، غیر سنجیدہ اور سفاک چہرہ عالمی سطح پر واضح کردیا ہے جو کہ خود ان کے لیے باعث شرم مقام ہے۔ آنیوالا وقت ملک کو کس دوراہے پہ کھڑا کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ گھر ہو یا ریاست اسے چلانے کے لیے سربراہ کی صرف قابلیت ہی درکار نہیں ہوتی بلکہ خلوص اور اہلیت ذیادہ اہم ہوتی ہے اور دوسری طرف ان حالات پر دل یہی کہتا ہے کہ ”’ یہ قوم ذیست سے بے ذار ہونے والی ہے ”’


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29184