Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بے گھروں کیلئے ہاوسنگ سکیم ………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

حکومت نے نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کے تحت آئندہ چار سالوں کے اندر پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا اعلان پہلے ہی کردیا ہے۔حکومتی اعلان کے مطابق یہ مکانات بے گھر لوگوں کو دیئے جائیں گے۔ہاوسنگ سکیم کے لئے رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ہاوسنگ سکیم سے تعمیراتی سامان تیار کرنے والی چالیس مختلف صنعتوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ اور لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ جن کے بغیر زندگی سکون سے نہیں گزاری جاسکتی، اپنامکان ہونے کی اہمیت وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں جو جھوپٹریوں اور غاروں میں رہتے ہیں یا جو کرائے کے مکانوں میں گذر اوقات کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کا نعرہ بھی روٹی، کپڑا اور مکان رکھا تھا۔ جسے غیر معمولی پذیرائی ملی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجودعوام کو یہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرسکی۔تاہم انہوں نے دوسری جماعتوں کو عوام کی ان بنیادی ضروریات کا احساس دلا دیا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت گذشتہ سال جب اقتدار میں آئی تو انہوں نے بھی عوام سے گھر بناکردینے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں انکشاف کیا کہ پاکستان میں ایک کروڑ مکانات کی کمی ہے۔ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت کے اندر پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرکے بے گھر افراد کو آساں اقساط پر دے گی۔ چاروں صوبوں میں نیاپاکستان ہاوسنگ سکیم کے لئے اراضی کا چناو کیا جارہا ہے۔ نادرا کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 15نومبر تک سولہ لاکھ افراد گھروں کے لئے رجسٹریشن کرچکے ہیں۔ اسی عرصے میں پنجاب ہاوسنگ سکیم کی طرف سے حکومتی مکانات کے اخراجات سے متعلق کچھ اعدادوشمار میڈیا میں شائع ہوچکے ہیں۔ جو خاصے تشویش ناک ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق دو مرلے کے گھر کی مجموعی قیمت 29لاکھ ہے جس میں سے چھ لاکھ روپے پیشگی ادا کرنے ہیں۔جبکہ تین سالوں میں ماہوار قسطوں میں باقی ماندہ رقم جمع کرانی ہے اور ہر مہینے کی قسط 67ہزار روپے بنتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص 67ہزار روپے مکان کی قسط دے سکتا ہے وہ لامحالہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ کماتا ہوگا۔ کیونکہ مکان کی قسط کے علاوہ بچوں کے تعلیمی اخراجات، کھانے پینے اور دیگر گھریلو ضروریات اور غمی خوشی کے لئے بھی وسائل مختص کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو لوگ چھت کی سہولت سے محروم ہیں وہ دیہاڑی دار مزدور، ہاری، کسان، فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کش، دکانوں اور دفاتر میں کام کرنے والے کارندے ہیں جو ایک سو سے پانچ سوروپے تک کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔حکومت نے مزدور کی کم سے کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہوار مقرر کی ہے لیکن اس حکم پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت اس نے کبھی محسوس نہیں کی۔ کارخانوں، گھروں، دکانوں اور دفاتر میں کام کرنے والے غریب مزدور پانچ، آٹھ اور دس ہزار کی تنخواہ پر اپنے اور بچوں کے جسم اور روح کا تعلق برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں وہ نہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرسکتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں میں جاکر اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ گویا حکومت نے مزدور کی کم سے کم اجرت صرف ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے مقرر کی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی نیت اور جذبے پر کوئی شک نہیں کرسکتا، وہ پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، غریب کا معیار زندگی بہتر بنانے کی سوچ رکھتے ہیں لیکن ان کے منصوبہ ساز سارے کئے دھرے پر پانی پھیرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ مروجہ قوانین اور قواعد و ضوابط کی وجہ سے ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہوں۔ کیونکہ اس ملک میں غریب آدمی کے مفاد میں کبھی قانون نہیں بنایا گیا نہ ہی کسی کو غریب کی حالت کا احساس ہے۔ آج روزمرہ ضرورت کی ہر چیز مزدور اور پاکستان کے عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہے۔ اور حکام سٹاک مارکیٹ اور زرمبادلہ کے ذخائربڑھنے یا کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم ہونے کی خوشخبری سنا کر معیشت کے استحکام کے دعوے کرتے ہیں ان ساری باتوں سے غریب کے لئے آٹا سستا ہوگا، نہ پیاز، ٹماٹر، آلو، دال، چاول اور گھی کی قیمتوں میں کوئی کمی ہوگی۔ ہاوسنگ سکیم بلاشبہ کم تنخواہ دار اور غریب لوگوں کو چھت کی سہولت مہیا کرنے کا بہترین منصوبہ ہے۔ لیکن اگر وہ عوام کی دسترس سے باہر ہو تو اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا۔ ظاہر ہے پھر وہی مراعات یافتہ طبقہ ہی 67ہزار کی ماہانہ قسط دے کر غریب کے نام پر بنائے گئے گھر پر قبضہ کرلے گا۔جو پہلے سے درجن بھر گھروں کا مالک ہوگا۔


شیئر کریں: