Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ……”برداشت کا عالمی دن“….. محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت میں عالمی دن تسلسل سے منائے جاتے ہیں۔اساتذہ کرام مختلف موضوعات پر سکول اسمبلی میں اس مخصوص دن کے حوالے سے لکچر دیتے ہیں بچوں کواس دن کی ا ہمیت سے آگاہ کرتے ہیں یہ بڑا مفید سلسلہ ہے۔۔ ۶۱نومبر ”برداشت کا عالمی دن تھا“ مقر ر سکول کے نوجوان سائنس ٹیچر عبد العزیز تھے۔موضوع اہم اور دلچسپ تھا۔۔عبدالعزیز خان ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں موجودہ دور کے تقاضوں کو احسن طریقے سے نبھانے کا فن جانتے ہیں۔وقت کے تقاضوں سے خوب واقف ہیں۔دوسروں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار یہ نوجوان باصلاحیت ہیں۔انہوں نے مذہب پڑھا ہے۔ سیاست پڑھی ہے۔سماج کے مزاج سے واقف ہے خدمت خلق سے شغف رکھتا ہے اور ممکنہ حد تک سب کے کام آتا ہے۔۔اس کی سوچوں کی پروآز بلند ہے۔وہ”رسک“ لینا جانتا ہے اور دنیا میں وہ لوگ کا میاب ہیں جو چیلنج قبول کرتے ہیں اکثر ناکام لوگوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ”چلنج“ اور مجبوری یعنی ”ناممکنات“ میں فرق نہیں کر سکتے طالب علم پڑھائی کو چلنج تصور نہیں کرتا ”ناممکنات“ کہتا ہے تب اس کے راستے میں غریبی،ناداری اور بے چارگی رکاوٹ بن کے آتی ہیں یہ اس لئے رکاوٹ بنتے ہیں کہ وہ ان سب کو چیلنج کے طور پر قبول نہیں کرتا اور ان سے لڑنا نہیں جاتا۔۔اسی طرح غریب اپنی غریبی کو ”ناممکنات“ میں سے سمجھتا ہے۔بے روزگار اپنی بے روزگاری کو ”ناممکنات“ میں سے سمجھتا ہے ا س لئے دنیا کے سارے ناکام لوگ چیلنج قبول نہیں کرتے اور سارے کامیاب لو گ مستقل مزاجی سے ہر مجبوری کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہیں۔۔عبد العزیز خان ان بلند پروآز جوانوں میں سے ہیں جو چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس نے جب اپنی تعلیم مکمل کی اس وقت سے ہمارے دوسرے نوجوانوں کی طر ح ”جاب“ کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا۔مختلف غیرسرکاری اداروں میں کام کیا۔گورنمنٹ کامرس کالج چترال میں انٹرن شب کیا۔۔فوجی فارٹیلائزر اسلام آباد آفس میں انٹرن شب کیا۔ان سب میں سے اہم کام چترال شہرمیں آفس ہے آپ نے یہ آفس کھول کر آن لائین سسٹم سروس شروع کیا جس سے بہت ساروں کے مسائل منٹوں میں حل ہونے لگے۔امتحانات کے داخلے،رول نمبر کی ترسیل،اہم اشتہارات کے بارے میں معلومات،ملازمت کے اشتہار ات سے آگاہی عرضیکہ آفس بہت سارے لوگوں کے مسائل کے حل کاایک ورکشاپ ہے اور اس آفس نے کئی نوجوانوں کو خود روزگار مہیا کیا ہے۔۔عبدالعزیز خود صابر و شاکر خدمت میں پیش پیش وارستہ یاس بندے ہیں۔کوئی مسئلہ درپیش ہو تویہ نوجوان ہر درد کی دوا ء بن کرآگے آتا ہے۔کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں طلباء کا ایک بے مثال راہنما کا کردار کیا ہے اور ہمیشہ ہراول دستے میں رہا۔آج کل اپنے سکول کے بزم ادب کے انچارج ہیں ان کی رہنمائی اور محنت سے بچے خود مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔”برداشت کے عالمی دن“ کے مقرر آپ خود تھے۔وہ سٹیچ پہ آئے اور چھا گئے۔موضوع بہت اہم تھا اور موجودہ پرآشوب دور میں ”عد م بر داشت“ کے اس طوفان میں ”برداشت“ کی باتیں کرنا،”برداشت“ کی تلقین کرنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مصداق ہے۔۔ آپ نے موتی پرو یا۔۔بہت مدلل اور خوبصورت تقریر کی۔۔۔فرمایا۔۔قرآن عظیم الشان میں اللہ تعالی نے اپنے لئے بھی کئی جگہ رحیم،غفور، رحمان،حلیم جیسے اوصاف بیان کئے اور اپنے حبیب ﷺ کے لئے بھی یہ رؤف،رحمت کے نام استعمال کئے۔ان کو ”رحمت اللعالمین“کا خطاب دیا۔انسانوں میں رہ کرانسانوں کو اعلی کردار اور انسانیت کا درس دینا حبیب خدا ﷺ کا معجزہ ہے۔اُ ﷺ کی زندگی صبرو شکر، برداشت اور استقلال کا شاہکار تھی۔آپ ﷺ اپنے جانی دشمنوں اور حاسد ومنافقین کی جس انداز کی کارستانیاں جس انداز سے برداشت کیا دنیا نہ کبھی اس کی مثال پیش کرسکی ہے نہ کر سکے گی۔۔
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پرکہ جس نے گالیاں سن کردعائیں دیں
انھوں نے عظیم شخصیات اور قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سنا کر صبرو برداشت کی تاریخ دہرا دی۔انہوں نے سادہ مثالوں سے صبرو برداشت کو افراد اور قوموں کے لئے نعمت کہا۔حدیث پاک کی رو سے نفس کے ساتھ جہاد کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔عد م برداشت ماحول کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔یہ افراد سے خاندان تک جاتا ہے۔والدین بچوں کی پرورش میں صبرو برداشت کا دامن نہیں پکڑتے اس وجہ سے یہ عدم برداشت اور بے اعتمادی بچوں میں سرایت کر جاتی ہے۔اور آئے روز عدم برداشت کے شاخسانے خود کشیاں واقع ہو تی ہیں۔۔اگر انسان میں کسی کو قبول کرنے کی صلاحیت ہو گی وہی کامیاب انسان کہلائے گا۔آج دنیا میں افراتفری اس لئے ہے کہ قومیں قوموں کوبرداشت نہیں کرسکتی ہیں۔حکمران حکمران کوبرداشت نہیں کر سکتا۔یہاں تک کہ یہ سقم فرد تک آگئی ہے۔اس لئے دنیا بے امنی اور افراد و تفرید کاشکار ہے مقرر نے نہایت دلنشیں انداز میں برداشت کے کلیے بتائے۔کہا کسی کی غلطی پراس کو نہ ٹوکو۔۔کسی کو غلط نام سے نہ پکارو۔۔کسی کی کمزوری کی نشاندہی سر عام نہ کرو۔۔اپنے دائرہ اختیار میں رہو۔دوسرے کی رائے کو اپنی رائے پہ اہمیت دو۔سب سے مسکرا کے ملو۔۔ہر ایک کو اس کے اصل نام سے پکارو۔برداشت بزدلی نہیں ایک اعلی اخلاقی صفت ہے۔کسی کے تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے کا سب سے بڑا نتیجہ اس کی برداشت ہے۔جس قوم کی تہذیب کا امتحان لینا ہوتو اس کے ا فراد کی قوت برداشت کو تولو۔انہوں نے بچوں پر زور دیا کہ وہ اپنے وجود میں قوت برداشت پیدا کریں کیونکہ جس میں قو ت برداشت ہوگی وہ کبھی ہارتا نہیں۔۔ عبد العزیز خان نے اپنے موضوع کے ساتھ واقعی انصاف کیااور حسن تقریر سے محفل کو زغفران زار کیا۔۔
abdul aziz


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
28936