Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چنے کی دال……..(ایک ہاسٹل زدہ کی روداد) ……تحریر: عاتکہ آفتاب

شیئر کریں:

جب میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو مجھے ایک غیر معمولی تماشہ دیکھنے کوملا میرا ادنیٰ جبڑا اعلیٰ سے جدا ہوا اور آنکھیں باہر آگئیں کمرے میں ایک حشر برپا تھا کوئی رو رہا تھا توکوئی دھو رہا تھا کمرے میں صوتی الودگی کا دور اپنے عروج پر تھا۔ ہر طرف سنسان اور ویران چہرے نظر آرہے تھے ہمارے ہنستے بستے کمرے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی۔ جہاں کبھی کوئل کوکتی تھی وہاں کوّے کائیں کائیں کررہے تھے۔

حالات ایسے تھے کہ جیسے زندگی کی ہریالی پر ٹڈی دل کا حملہ ہوا تھا یا اس مہنگائی کے دور میں کسی نے کھیتوں سے ہمارے قیمتی ٹماٹر چرائے تھے۔ کمرے کی فضا نہایت ہی سوگوار تھی اور اس خلوت خانے کے باشندگان ِ غم انگیز نے اپنے گریہ و زاری سے اس ماحول کو اور وحشت بخشی تھی کوئی نوحہ گری میں مصروف تھی کوِئی غناِ غم کا ریہاس کررہا تھا کوئی اجڑی ہوئی ریاست کی لُٹی ہوئی سلطانہ بنی بیٹھی تھی تو کوئی دنیا و مافیھا سے بے خبر دیوانوں سا حال بنائے بیٹھی تھی۔ کوئی غم کے مارے جگر کو پیٹ رہی تھی تو کوئی خاموشی اور برداشت کو ان سب پر ترجیح دئے دنیا داری کی طرف لوٹ گئی تھی حیرت کا مرکز وہ تھی جس نے ان حالات سے ماوراء ہوکر اپنے جسدِخاکی کو پلنگ پر دراز کررکھی تھی مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ معاملہ بہت گھمبیر ہے کیونکہ کہاں قہقہے اور ہنسی کی گونگ کبھی مدہم نہیں ہوتی تھی وہاں آج چیخ پکار کی پُر سوز صدا بلند تھی۔
.
سب سے پہلے جس پر میری نظر پڑی وہ مہروز تھی۔ بکھرے ہوئے بال، آنسوؤں سے نجس چہرہ اور بار بار اپنے زلفِ پریشاں کو اور بھی پریشاں کرتی چیل جیسے پنجے ،وہ اپنے چہرے کو ایسے نوچ رہی تھی جیسے اس کی چھے میں سے چار مرغیاں لومڑی نے اڑائی ہو، ایک بسترِ مرگ پر پڑی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہو اور ایک نے بھاگ کر کسی اوارہ مرغ کے ساتھ بیاہ رچائی ہو۔ بہر حال وہ اپنا حلیہ بگاڑنے میں مصروف تھی کہ میں نے نظر دوڑانا شروع کی جو تحسین پہ جا کے اٹک گئیں وہ نہایت بے بس پِٹے ہوئے بچے کی طرح سسک رہی تھی جس کو ماں نے جوتی سے خاصی خاطر مدارت کی ہو۔ ایک مخصوص وقفے کے بعد اس کے خستہ وبے حال جسم سے سسکیوں کا تعاقب کرتی ہوئی ایک انتہائی سرد آہ نکلتی تھی جو جگر کے پار ہوکر پھر آر ہوجاتی تھی اس کے دردِ ناسور نے اپنا راستہ اس کی نا اُمید آنکھوں سے بنایا ہوا تھا اس نے اپنی ساحرآنکھیں اٹھائی اور پھر جھکالی۔ ایک لمحے بعد وہ کسی طوفانی گردباد کی طرح اپنے مقام پر گھومنا شروع کیا اور بیٹھ کر ہنسنے لگی اور یک لخت رونا شروع کیا اس کی اس ذہنی کیفیت پر مجھے بہت رنج ہوا یقینا ًاسے بھی کسی شدید غم نے آلیا تھا۔ دوسری طرف کائنات کسی دہقان کی بیوہ کی طرح اپنے سر اور چھاتی کو پیٹ رہی تھی گویا اس کا مجازی خدا جس کے بعد اس کا پیٹ پالنے والا کوئی نہیں تھا اچانک انھیں چھوڑ کر چل بسا تھا ایک لمحے لئے مجھے وہ بنجارن لگی تھی جو راہگیروں سے کچھ پیسے بٹورنے کے لئے اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی جھنجھوڑتی اور مارتی ہے تاکہ ان بے جان اجسام کو دیکھ کسی کا دل پگھل جائے۔ فی الحال میں اس کے دردِ پنہاں کو سمجھنے سے قاصر تھی لیکن ابھی تو اس غارِشورش کو بند کرنے کی خواہاں تھی۔
.
ایک طرف شمائلہ دیوار سے ٹیک لگائے جہاں سے بے خبر مسکراتی تھی اور پھر منہ بناتی تھی ناکام عاشق کی طرح اس کی آنکھوں میں عجب سا سرورِ غم تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے نامراد مسافر کی طرح خفیف سی مسکراہٹ چہرے پر چسپاں کردی کہ جو منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے محروم ہو ۔ اس کے چشمِ نا اُمید اور حالتِ زار پر مجھے غالب کا شعر شدت سے یاد آرہا تھا۔

اپنے پلنگ پر بیٹھی مبشرہ کسی ادھی ادھوری خواہشات کے سکتے میں آئی ہوئی مالکہ شہزادی لگ رہی تھی کہ جس کی خاموشی اس کا درد چیخ چیخ کر بیاں کر رہی تھی۔ وہ مجھے زلیخا باجی کی طرح لگ رہی تھی جنھیں کبھی ان کا محبوب چھوڑ گیس تھا لیکن وہ آج تک اس صدمے سے باہر نہ آسکیں اور ہر روز بن ٹھن کر برقعہ ہاتھ میں تھامے دروازے پر اس کا انتظار کرتی تھی کہ کب وہ آئے اور وہ دونوں اس ظالم سماج سے بھاگ جائیں۔
.
جمیلہ ہمیشہ کی طرح ہُو کے عالم میں کتاب نکالے بیٹھی تھی اسے نہ تو میں نے چیختے چلاتے دیکھا اور نہ ہی اظہارِتجسس کرتے۔ وہ پانی ڈالے ریت کی طرح ایک دم ساکت اور ویران بیٹھی تھی ۔ مجھے ہنسی بھی آئی کہ وہ اس حالت میں بھی توجہ کا مرکز کتابوں کو بنائی تھی۔
.
اچانک میری نظریں اس کے دائیں جانب گئیں دیکھا کہ کوئی لمبی سی چیز شگفتہ کی چارپائی پر ایک دم بے سُدھ پڑی ہوئی ہے۔ ایک لمحے کے لئے مجھے اس پر لاش کا شبہ ہوا اور اب کمرے کی اس حالتِ زار سمجھ گئی تھی اس خیال سے کسی سے نہ پوچھا کہ خدا ناخواستہ میرا شک درست نہ ہو۔ میں خود تسلی کرنے کےلئے کپکپاتی، لرزتی اور سہمی ہوئی آگے بڑھی، دو چار قدم رہ گئے تھے کہ میت نے کسمساتے ہوئے کروٹ بدلی اسی کے ساتھ میرے طوطے، کوّے، چیل اور گدھ سب اُڑ گئے اس لمحہ میں برق رفتاری سے پیچھے کی طرف چھلانگ لگائی اسی وقت اگر الماری بیچ میں نہ آتی تو شائد میں بغیر سواری کے اپنے گھر پہنچ جاتی الماری کے دروازے سے ٹکرانے کے بعد میرے ہوش وحواس بحال ہوگئے دیکھا کہ وہ کوئی لاش نہیں بلکہ اپنی شگفتہ ہی تھی جو ان سب سے بے نیاز خوابِ خرگوش میں مبتلا تھی میرے شور شرابے سے آنکھیں ملتے ہوئے لمبی لمبی جمائیاں لیتی ہوئی کھڑی ہوئی۔ اس کے ساتھ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود یہ ماتم کیوں ہے پوچھنے پر شگفتہ ٹھنڈی آہ بھری اس کے ساتھ باقی بھی کراہنے کے انداز میں آہ بھرنے لگیں شگفتہ پُرنم آنکھوں میں نااُمیدی کے ڈورے دوڑاتے ہوئے کہا کہ ” آج دوپہر کے کھانے میں چنے کی دال ہے” یہ سننا تھا کہ دنیا پر سے میرا اعتبار اُٹھ گیا، ہر چیز بے معنی نظر آنے لگی، میں خود کو اس دنیا میں تنہا، بے بس اور بد قسمت تصور کرنے لگی، پوری فضا ماتم کرنے لگی ، ہر طرف دُکھ، مایوسی اور نا اُمیدی کے بادل چھاگئے قصہ مختصر کہ میں اس سے بری خبر زندگی میں نہیں سنی تھی۔ میں یہ صرف سنا باقی کی باتیں سنائی نہیں دیں صرف شگفتہ کا منہ ہلتا ہوا دکھائی دیا۔ میں آہستہ آہستہ دیوار کے ساتھ گھِستا ہوا الماری سے ٹیک لگائے نیم دراز ہوئی۔ اب کمرے میں سب سے زیادہ وحشت ناک میں لگ رہی تھی۔
پھر کبھی کھانے میں دال کا ذکر مت کرنا
میں ڈر گئی تھی میں مر بھی سکتی تھی

…..
تحریر: عاتکہ آفتاب (آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ)


شیئر کریں: