Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چلتے چلتے ……..مخلوط ڈانس اور ہمارا معاشرہ ……..تحریر: محبت علی قیصرگلگت

شیئر کریں:

آج کل اخبارات ہوں یا سوشل میڈیا ، گلی کوچے ہوں یا بازار کوئی محفل ہو یا بیٹھک سکول ہو یا کالج مدرسہ ہو یا کوئی اور ادارہ مسجد ہو یا میخانہ عدالت ہو یا یاروں کی محفل جھگڑاہویا ہنسی مذاق ہر جگہ ہر وقت یہی بحث ہورہی ہے کہ ناچ گانے اور مخلوط ڈانس یہ کیا ہے؟کیوں ہے؟ کیسے ہوا؟کوئی کہتا ہے کہ جدید زمانہ ہے ایسا ہوتا ہے واویلا کرنے کی ضرورت نہیں کوئی کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسانہیں ہے یہ ایک اسلامی اور مہذب معاشرہ ہے یہاں ایسی چیزوں کی قتعاً اجازت نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیں گے تو یہی تو ہوگا ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بھئی اگر گھر سے دور بچوں کو تعلیم کے بہانے غیروں کے حوالے کریں گے تو اس کا نتیجہ تو یہی ہونا ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں،

مگر ہم یہاں چند حقائق واضع کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اور معاشرہ تذلذلی کی طرف جاتا ہے۔
.
گلگت بلتستان کا معاشرہ بیشک ایک اسلامی اور مہذب معاشرہ تھا اب ہے نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ کہیں بھی کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا گمان بھی نہیں تھا ہر گاؤن اور شہر میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے۔ جہاں بچے اور بچیاں الگ الگ تعلیم حاصل کرتے تھے اور اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ بچوں اور بچیوں کی سکول کی عمارت کافی فاصلے پر ہو تاکہ ان پر برے اثرات نہ پڑیں۔ سب کی ایک ہی وردی ہوتی تھی تاکہ امیر اور غریب کا فرق نہ ہو۔ ایک ہی نصاب پڑھایا جاتا تھا تا کہ تعلیم کی خوبیوں سے سب ایک ہی طرح واقف ہوں کوئی استاد باپ کو ڈیڈی نہیں پڑھاتا تھا۔ باجی کو سسٹر کہنا ہے کہہ کر نہیں سکھاتا تھا۔ اس زمانے میں استاد بڑوں کا احترام خواتین کا احترام سکھاتا تھا۔ اور نماز اور روزے کی پابندی کی تاکید کی جاتی تھی۔

اُس زمانے میں بچے سرکاری سکول سے واپسی آکر کہیں ٹیوشن پڑھنے نہیں جاتے تھے بلکہ گھر آکر کھانا کھایا نماز پڑھا اور سکول کا ہوم ورک کرنے کے بعد سیدے مدرسے جاتے تھے اور وہاں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی۔
.
اس زمانے میں ناچ گانے بھی ہوتے تھے مگر آج کل کی طرح نہیں کہ سب مل کر کنجروں کی طرح ناچیں۔ خواتین بھی کسی خوشی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتی تھیں اور کسی پردے کی جگہ پر جہاں کسی مرد کا سایہ بھی گزرتانہیں تھا، اگر کسی شادی میں کوئی حریپ وغیرہ ہو تو مرد میدان میں اکھٹے ہوتے اور خواتین دور کسی چھت یا کسی ایسی جگہ جہاں مرد کی نظر نہ پڑھے وہاں بیٹھ کر تماشہ دیکھتی تھی۔
.
آج کل کی طرح خواتین غیر مردوں کے ساتھ بازار میں شاپنگ نہیں کرتی تھی بلکہ مرد جو بازار سے لے آتا اسی پر اکتفا کرتی۔ اب کی طرح سوشل میڈیا کا نام دیکر غیر لڑکوں کے ساتھ فرینڈ شپ نہیں کی جاتی تھی اس زمانے میں کسی بھی غیر لڑکی سے بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، ان کی محبت نکاح کے بعد ہی ہوتی تھی۔
.
کہیں اگر مرد اکھٹے بیٹھے ہیں تو وہاں سے خواتین کا گزر نہیں ہوتا تھا اور وہ دوسرا راستہ اختیار کرتی تھی۔ کوئی خوشی ہو یا موت کا گھر وہاں باقاعدہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ جگہ کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ زمانہ کچھ بدل گیا جب کوئی خاتون شہر کی طرف آئے تو اسے گاڑی کی خصوصی سیٹ پر بٹھا کر لایا جاتا اس کے ساتھ کوئی غیر مرد نہیں بیٹھ سکتا تھا۔
.
اس زمانے میں اسلامی تہوار ہو یا کوئی مذہبی کسی بھی ادارے میں یا کسی بھی جگہ منعقد کیا جاتا تھا اور وہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے اسلامہ اقدار بڑتے تھے اور ان شیطانی اعمال کا وہاں گزر نہیں ہوتا تھا۔
.
لوگوں نے جو اپنے اندر کوئی غیرت نام کی چیز نہیں رکھتے ہیں انہوں نے یہاں تک کہا کہ عورت کی بھی زندگی ہے ایسی چیزیں کرے تو ان کو منع نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ زمانہ جدید ہے یہاں ہر ایک کو آزادی ہونی چاہے۔
.
مخلوط ڈانس اور بیراہ روی یہ کیوں ہوا اس کی بس یہی وجہ ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی یہی تربیت دی جانے لگی ہے۔ کیوں کہ ہر گلی کوچے میں پرائیویٹ سکول کھل گئے جہاں نرسری سے لیکر ماسٹر تک بچوں کو مخلوط تعلیم(دی نہیں جاتی) فروخت کی جاتی ہے۔ وہاں کبھی یوم والدین کے نام پر(حالانکہ وہاں والدین کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے) کبھی یوم آزادی کے نام پر (حالانکہ بچوں کو آزادی کے مفہوم کا بھی معلوم نہیں) کبھی رزلٹ کے نام پر ایسے فنکشن کروائے جاتے ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچے اکھٹے ٹیبلو کے نام پر ڈانس پیش کرتے ہیں کوئی اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ چھوڑو بچے چھوٹے ہیں کیا ہوتا ہے۔وہی سے ہی تربیت دی جاتی ہے کہاں گئے وہ تعلیمی ادارے اور مدرسے، اب حالت ایسی ہے کہ مدرسے میں پڑھانے کے لئے مولوی صاحب گلی گلی اور در در پھر کر بچوں کو اکھٹا کرتا ہے اور اتنی محنت کے بعد بھی دس سے بارہ بچے جمع ہوتے ہیں اوروہ بھی بیزار بیزار۔ وہ مولوئی کوئی اجرت بھی نہیں مانگتا کل سو روپے مانگے تو ہمارا جیب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور بھاری فیسیں دیکر ان تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھجتے ہیں جہاں مخلوط ڈانس کی تربیت دی جاتی ہے جہاں اسلامی نہیں انگریزی تعلیم دی جاتی ہے جس سے رشتوں کی تمیز مٹ جاتی ہے وہاں ابا نہیں ڈیڈ اور باجی نہیں سسٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر فیس میں کچھ دیر ہوجائے تو بچوں کو سکول سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور والدین جاکر ٹیچر کے پاؤں پڑتے ہیں کہ فیس جلدی ادا کی جائے گی اور بچے کو نہ نکالنا اس کا سال ضائع ہوگا۔ ادھر مولوئی کوکبھی یہ کہنے کی جراعت نہیں ہوئی کہ اسے مدرسے سے نہ نکالو اس کی آخرت ضائع ہو جائے گی۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں محمد و آل محمد کے ذکر پر پابندی لگے اور وہاں ناچ گانے کو ترجیح دی جائے گی تو معاشرے کی یہی تو حالت ہو گی اور بچے آزادانہ میل ملاپ رکھیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ ناچ گانے کے لئے ہال کے ہال سجائے جائیں اور ذکر آل محمدؐ اور محفل میلاد کے لئے باہر بھی جگہ نہ ہوں تو ایسا ہی ہوگا کیا ہمارا معاشرہ ایسا ہے۔
.
میاں گاڑی کے اندر بچے کو سنبھالے بیٹھا ہے اور بیوی باہر نکل کر دکاندار کے پاس جاتی ہے وہ اس کا کسی بھی طریقے سے کچھ بھی نہیں لگتا ہے اس سے گپ شپ کرتی ہے اور سودا طے کرکے کپڑا لے کر باہر آتی ہے اور میاں کو دکھاتی ہے کہ تمہارے لئے میں نے ایسا کپڑا پسند کیا ہے لے آؤں؟ گھر میں عورت گندے کپڑے پہن کر چڑیل کی طرح رہتی ہے اور جوں ہی مارکیٹ جانے کا وقت آتا ہے تو وہ بن سنور کر نکلتی ہے اور کہتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ارے بھئی تم لوگوں کے لئے سنورتی ہو جس سے تم آگ کا سامان بنا لیتی ہو اور گھر میں گندگی کا ڈھیر بن کر رہتی ہو سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مرد غیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟
.
بازار ہو یا مارکیٹ ہر جگہ خواتین ٹولیوں کی شکل میں گھوم پھرتی ہیں اور ہاتھوں میں شاپر لئے اور مرد یا تو گھر سنبھال کے بیٹھے ہیں یا ان کے پیچھے بچوں کو اٹھائے لٹو کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔ تو پھر مخلوط ڈانس نہیں تو اور کیا ہوگا ہمارا معاشرہ کیسا تھا اور اب ہم نے اسے کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک راحت حسین الحسینی نے اس غیرت کے اہم مسئلے پر آواز اٹھائی تو ہر جگہ سے اس کے خلاف بکواس ہونے لگی اور کیا اس معاشرے میں ایک راحت حسین الحسینی ہے؟کیا کوئی اور نہیں ہے؟ کسی اور کی بھی زمہ داری نہیں بنتی ہے؟ کیا سب کی زبان سلی ہوئی ہے اورتالہ لگا ہوا ہے۔ کوئی اور آواز کیاں نہیں اٹھاتا ہے۔ کیوں کوئی راحت حسین الحسینی کے ساتھ نہیں دیتا ہے کیوں اس کی آواز میں آواز ملانے والا کوئی نہیں ہے کیا سب مردوں کی غیرت مٹ گئی ہے کیا اپنے آباو اجداد کو بھول گئے ہیں؟ کیا خود کو زندہ درگور کیا گیا ہے؟
.
خدا را اب بھی وقت ہے اٹھو اپنے اس معاشرے کی اصلاح کرو اور وہ مہذب پرخلوس اور محبت بھرا معاشرہ واپس لانے کی کوشش کرو اور جدید زمانے کو چھوڑ کر اپنی غیرت اپنی اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ کرنے کے لئے قدم اٹھا لو ایسا نہ ہو کہ یہ معاشرہ معاشرہ کہتے ہوئے ہم مٹ جائیں اور داستان تک نہ ہو داستانوں میں۔ ہر کوئی اپنی روایات ثقافت اور تہذیب سے ہی پہچانا جاتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28819