Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عام آدمی کس کی سنے؟یا نہ سنے؟……………..رحمت کریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

جس کھیت سے دھقان کو۔۔۔۔۔۔۔عام آدمی کس کی سنے؟یا نہ سنے؟……….. رحمت کریم بیگ
..
ہمارے ملک میں دوسری مارشل لاء کا زمانہ تھا یحی خان اس وقت ایوب خان کی جگہ ملک کو سنبھالنے یا بگاڑنے میں لگے تھے، ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں لگے تھے، جماعت اسلامی اس وقت کافی اچھی پوزیشن میں تھی مولا نا مودودی مرحوم حیات تھے دوسری دینی جماعتوں میں جمیعت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان بھی میدان میں تھیں مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی بائیں بازو کے ایک شعلہ بیان لیڈر تھے اور دوسری دینی جماعتیں ان کو مولانا کی بجائے ماؤ لانا کا طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ چین کے چیرمین ماؤ زے تنگ کے حامی سمجھے جاتے تھے، ادھر مغربی پاکستان میں علمائے اسلام کے غلام غوث ہزاروی جماعت اسلامی پر طرح طرح کے فتاوی جاری کرتے تھے اور ان کے کئے ہوئے نکاح منسوخ اور ان کی اولادوں کو۔۔۔۔۔قرار دے رہے تھے، عام آدمی گو مگو کی حالت میں تھا، ہر ٹھیکہ دار دوسرے پر الزامات لگانے میں کسی طرح کمی کرنے کو تیار نہ تھا، ان حالات میں عوام کو ایک تیسری جماعت نے اپنی طرف متوجہ کیا اور ووٹ کے بعد کئی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے جیتا کوئی اور، عوام کو سبق یہ ملا کہ ملک میں دو سیاسی جماعتوں کی جگہ تیسری جماعت بھی ہونا ضروری ہے تاکہ وہ عوام کو ایک آپشن دیدے،
پارلیمانی نظام میں ملک میں صرف دو پارٹی ہونا اچھا ثابت نہیں ہو رہا ہے برطانیہ میں کئی سال مسز تھیچر اور پھر ٹونی بلیئر کی حکومتوں کے نتیجے میں حالات خراب ہونے لگے تو ایک اور سیاسی جماعت میدان میں اتاری گئی تاکہ وہ کوئی بہتر آپشن اور نئے خیالات پیش کرے اور جن جماعتوں سے لوگ بیزار ہوچکے تھے ان کی جگہ نئے چہرے اور تازہ خون والی نسل قیادت سنبھالے، ایسے پارلیمانی نظام کوئی بہترین نظام نہیں ہوتے کہ اس میں پچاس فیصد سے کم ووٹ لینے والی جماعت ہی حکومت کرتی ہے اور زیادہ ووٹ والی جماعتیں اپنی انفرادی پوزیشن کی وجہ سے حزب اختلاف میں چلی جاتی ہیں مثلا اگر ایک پارٹی نے چالیس فیصد ووٹ لئے دوسری نے پینتیس فیصد ووٹ لئے اور تیسری نے تیس فیصد ووٹ لئے تو چالیس فیصد ووٹ لینے والی جماعت کامیاب قرار پاتی ہے اور حکومت بنانے کا حق رکھتی ہے حالانکہ اس کے مقابلے میں دوسری دو جماعتیں ملاکر پینسٹھ فیصد ووٹ لے چکی ہوتی ہیں مگر ان کو حکومت نہیں کرنے دیجاتی، یہ ایک ناقص نظام ہے، آج کی ٹیکنالوجی کے دور میں اس احمقانہ نظام میں مناسب تبدیلی لاکر صرف اس جماعت کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہئے جس نے اکیاون فیصد ووٹ حاصل کیا ہو تبھی تو اکثریت کی حکومت کہلا سکتی ہے ورنہ یہ ایک ناٹک ہے جس کے کردار اسلام آباد میں جمع ہوکر قوم کو متوجہ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم چند سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وقت ضائع کرتے ہیں اپنا بھی اور دوسروں کا بھی، قوم کا بھی اور دنیا کے سامنے ملک کی بھی توانائی اور وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ قوم کی مستقبل سے کھیلنے کے اس انداز کو بدلنے کے لئے آیئن میں مناسب ترمیم کرکے اکیاون فیصد کی شرط لگائے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔ موجودہ آئین میں بہت سے سقم ہیں جو آپر کلاس کے
حق میں ہیں مگر عوام کے مفادات کے منافی ہیں یعنی اکثریت کے مفادات کے خلاف ہیں ظا ہر ہے جب یہ اکثریت کے مفاد کے خلاف ہے تو عوام کیسے خوش ہوسکتے ہیں اور طویل ناخوشی انقلاب کی راہ ہی ہموار کرتی ہے.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
28372