Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مہجورزیست……………طورطورا…………ازقلم دلشاد پری

شیئر کریں:

غیرت کے نام پہ قتل جسے خیبر پختونخوا میں طور طورا کہا جاتا ہے،حقیقت میں یہ ایک بے غیرتی ہے۔اس کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔عورت کو نچلے درجے کا سمجھنے والے جاہل لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ایک عورت اپنی مرضی سے اپنی پسند کا ہمسفر چن لے۔پسند کی شادی کرنے کا حق دین اسلام نے دیا ہے۔پاکستان کے مختلف صوبوں میں اس کے مختلف مختلف نام ہیں۔پنجاب میں اسےکالا کالی، سندھ میں کاروکاری،کے۔پی۔کے میں طور طورا جبکہ بلوچستان میں اسے سیاہ کاری کہا جا تا ہے۔لوگوں کو بے گناہ قتل کرکے یہ فضول رسم و رواج والے فخر سمجھتے ہیں لیکن ان کو یہ پتا نہی کہ انہوں نے اللہ پاک کے حکم کی نافرمانی کی ہیں۔جس کے بارے میں سورہ نساء کی آیات نمبر۳ ۹ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہِ,,اور جو کوئی کسی مسلمان کو ناحق قصداً قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔اس پر اللہ کا غضب اور اللہ کی لعنت ہے۔اور ان کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے،،۔
.
جب تک ان فرسودہ رسم ہ رواج کو ختم کرنے کے لئے بآقاعدہ کو ئی قانون نہیں بنتا مظلوم طبقہ ان ظالموں کے بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔

حال ہی میں چترال میں رونما ہونے والا اس انسانیت سوز واقعے نے میری تو قوت گویائی ہی سلپ کرکے رکھ دی۔جس کو سوچ کے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔اور اس درندگی کی انتہا پہ انسان کا وحشی روپ صاف نظر آتا ہے۔اس معصوم بچے کا کیا قصور تھا جس کو دنیا میں آکے آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی ابدی نیند سلا دی گئی۔اگر اس عورت نے اپنی پسند کی شادی کی تھی تو کونسا گناہ کیا تھا؟اس کو دین اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ اس قسم کی بربریت کی انتہا کی اجا زت دنیا کی کوئی مذہب نہیں دیتا۔ہمارا دین اسلام تو صلہ رحمی کا درس دیتا ہے۔اس عورت کا جو ایک ماں بننے جا رہی تھی اور اس معصوم بچے کا کیا قصور تھاجس کی اتنی عبرت ناک سزا دی گئی۔ پسند کی شادی ہی تو کی تھی۔
.murdered child chitral
افسوس تو اس بات پہ ہو رہا کہ ایک عورت اپنا سب کچھ چھوڑ کے اپنے مجازی خدا کے ساتھ چترال آجاتی ہے اپنا محفوظ مسکن اور پناہ گاہ سمجھ کے،مگر ان کی لاپرواہی اور غفلت نے ان سے انکی زندگی ہی چھین لی۔اتنی جلدی یہ لوگ بھول گئے تھے کہ عورت کو قربا نی کا جانور سمجھنے والے یہ ظالم لوگ اتنی جلدی ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔کیونکہ ان کو سر اٹھانے کے لئے ان کے بیٹی کا لاش جو چاہئے۔کاش ہم چترال والے اتنے سادہ اور بے و قوف نہ ہوتے۔
۔
سوشل میڈیا میں اس واقعے کا زمہ دار پولیس کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔جب تک کسی چیز کا صحیح پتہ نہ ہو تو الزام لگانا میری نظر میں نا انصافی ہے۔میں یہاں پہ چند سوالات لوگوں سے کرنا چاہتی ہوں۔
.
۱۔کیا ہم چترال والوں کی آزل سے وطیرہ نہیں کہ ہم کسی کام کو سنجیدگی سے نہیں کرتے،لاپرواہی ہماری عادت ہے۔

۲، کچھ زمہ داریاں ہماری اپنی بھی ہوتی ہیں جن کو بھول کے ہم دوسروں پہ الزام ڈالتے ہیں۔

۳۔جب ان کو مسلسل ایک سال سے دھمکیاں مل رہے تھے تو اس کو پولیس کی نوٹس میں کیوں نہیں لایا؟؟

۴۔ایک انجان غیر مقامی شخص جب چترال کے کسی ایسے مقامی علاقے میں اکے گھر کرایے پہ لیتا ہے تو کیا ہماری زمہ داری نہیں بنتا کہ ہم اس کو گھر میں جگہ دینے سے پہلے اس کی اطلاع مقامی پولیس کو دے؟؟ٹی۔آئی۔ایف (ٹینٹ انفارمیشن فارم) ایسے ناخوشگوار واقعات سے تو نمٹنے کے لئے ہی متعارف کرایا گیا ہے۔مگر ہم تھانے جا کر وہ فارم اور کرایہ دار کی اطلاع دینے کو اپنی توہین سمجھیں گے مگر پولیس پر تنقید کرنے کو ہمارے زبان آزاد ہیں۔

۴۔پولیس جب خود پتہ برداری کے لئے ایک دو بار جائے تو الزام لگے گا کہ اس نے چاردیواری پامال کیا۔

۵۔جو لوگ ان درندوں کو کرائے پہ رکھتے ہیں تو تصدیق بھی یہی لوگ خود دیتے ہیں کہ میرا جاننے والا شریف بندہ ہے تو پھر الزام دوسروں کو ہم کیوں دے؟؟
.
معذرت کے ساتھ ہم شریف کم بے و قو ف زیادہ ہیں۔بہت جلد ہم ہر ایرے غیرے پہ اندھا اعتماد کر تے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کیا ایک پٹھان اتنی آسانی سے ہمیں گھر کرایے پہ دے گا۔جب تک وہ ہمارے سات نسلوں کا پتہ نہیں کرتا تب تک وہ کرایہ دار نہیں رکھتا۔
.
ایک غیر مقامی شخص جس پہ ایک ماہ میں اتنا اندھا اعتماد کیا جاتا ہے کہ اس سے اپنے نام تک کی سم خرید کے دیا جاتا ہے،کس کی شناختی کارڈ کی کاپی بناٗء تصدیق کے اپنے پاس مالک مکان رکھتاہے۔ میرے خیال میں ہم سے بڑی بے و قوف کوئی نہیں۔جب تک ان معاملات میں ہم پولیس والوں کے ساتھ تعاوں نہیں کریں گے ان کو بر وقت اطلاع نہیں دیں گے تو میرے خیال میں ہمیں گلہ کرنے کا بھی کو ئی حق نہیں۔ایسے عبرت ناک واقعات سے ہمیں سبق سیکھ کے آئندہ کے لئے محتاط ر ہنی چاہئے۔
.
مجھے اس بات پہ بہت افسوس ہو رہا کہ ایک غیر مقامی علاقے والوں سے دشمنی ہونے کے باوجود بناء سوچے اتنی جلدی اسی علاقے کے شخص کے ساتھ گھریلو تعلق استوار کرنا اپنے موت کو خود دعوت دینا ہے۔۔چترال کو مزید ایسے دل سوز واقعات سے بچانے کے لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی پولیس والوں کے ساتھ تعاون کرے۔کیونکہ چترال میں بہت سے ایسے دلال بھی ہیں جو خود ایسے لوگوں کو مما چچا اور منہ بولے بھائی بنا کے رکھتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو جھانسا دے کے شادیاں بھی کرواتے ہیں جو اکژ دھوکہ نکل آتے ہیں۔۔
.
اس بات کا ذکر کرنا تو بھول ہی گئی تھی کہ جب راستے میں کوئی پولیس والا کسی گاڑی کی چیکنگ کے لئے رکواتا ہے اس وقت تو ہم گالیاں دیتے ہیں،میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے۔کیونکہ اس وقت ان کو جلدی ہوتی ہے،اور جو غیر مقامی بندہ بھی ساتھ بیٹھا ہوتا ہے تو جھوٹ بولتے ہیں کہ سب چترالی ہیں بھائی۔ اور گاڑی کے کراس ہوتے ہی ہم پولیس والوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ دس روپے کے لئے تنگ کر رہا۔جب ہم خود تعاون نہیں کرتے تو پھر منہ پھاڑ کے الزام کس بات کا لگا رہے؟؟جبکہ ہم خود ہی اپنی حفاظت کے لئے تیار نہیں۔
.
معاشرے کی سکون اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنی اپنی زمہ داریاں نبھا ئیں۔۔


شیئر کریں: