Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

یہ منہ اور مسور کی دال………………تحریر:اقبال حیات برغوزی

Posted on
شیئر کریں:

ہمارے قومی رہنما جب سرور میں ہوتے ہیں تو ہمیں خودار قوم کے لقب سے نوازتے ہیں۔ حالانکہ بحثیت قومی نمائندہ وہ خود پوری قوم کے لئے آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور ان کے وجود کو کریدنے سے بھی اس لقب کے آثار کہیں نظر نہیں آئینگے۔ خوداری ایک ایسی صفت ہے جس کے حصول کے لئے انکھوں کو اپنی ذات تک مرکوز رکھنا ہوگا۔ اور دوسروں کے سہارے جینے پر موت کو ترجیح دینا ہوگا۔ اسی طرح اوروں کے سامنے جھک کر زندہ رہنے کی بجائے سینہ تان کر پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا ہوگا۔ بدقسمتی سے “ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے”کے الفاظ ہمارے اس عظیم ملک کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں ہر حکمران اس ڈھائی کے ساتھ مسند اقتدار سنبھالتا ہے۔ اور ان کے گلے سے اغیار کے سامنے پھیلائے جانے والے کشکول کا ناطہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ یوں ذہنی غلامی کے اس بندھن سے گلو خلاصی کے آثار نظر نہیں آتے بیساکھیوں کے سہارے جیتے ہوئے خوداری لفظ کا جامہ ذیب تن کرنا انہونی تصور لگتا ہے حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ خوداری کو مسلمان کی آساس کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ مذہب اسلام ایک ذات واحد سے ہی امیدوں کی برآوری پر یقین کامل رکھنے اور دونوں جہانوں کو سنوارنے اور بگاڑنے کی طاقت کے مالک ہونے پر اعتقاد کا درس دیتا ہے۔
خوداری کو جلا بخشنے میں اجتماعی فکر و خیال اور سوچ کی تاثیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر من حیثیت القوم اجتماعی اور قومی سوچ کی بجائے ہم پر انفرادی فکر و خیال کا جنون سوار رہتاہے۔ باہمی محبت اور اخوت کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے قومیت، علاقائیت، زبان مسلک اور دیگر فروغی اختلافات کو ہوا دے کر باہمی منافرت کی فضا پیدا کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں ہم سیاست کو عداوت، دشمنی اور بعض و عناد کا روپ دے رہے ہیں اپنے مذہبی اقدار کی پاسداری کو مغرب کی خود ساختہ تہذیب سے متصادم تصور کر کے شرم محسوس کرتے ہیں۔لوٹ کھسوٹ، رشوت ستانی اور اقربا پروری کی خباثت سے معاشرتی زندگی متعفن ہے۔ قرآن جن کو مسلمانوں کا دشمن قرار دے رہا ہے۔ انکی اشیر باد کو کامیابی کی ضمانت گروانتے ہیں ملک کی ترقی اور استحکام کا را زاسکی مضبوط معیشت میں ہوتی ہے اور دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں معیشت کی ابتری کے سبب ذوال پریز ہوئی ہیں اور انکی عسکری قوت انکی گرتی ہوئی ساکھ کونہ بچا سکی ہیں۔ ناقص پالیسی اور بد عنوانی ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہم مالیاتی اداروں کے قرضوں تلے سسکتے ہوئے معاشی پالیسی بنانے میں ان کے مشوروں کے قید و بند میں پھنس جاتے ہیں ہمارا نظام تعلیم ہماری قومی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم پر ہمہ وقت دوسروں کا خوف سواررہتا ہے اور اغیار کی زندگی کو کامیابی کا ضامن تصور کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ہم من حیثیت القوم دنیا میں جس مقام کے مالک تھے وہ صرف تصورات کی بنیاد پر نہیں تھا۔ بلکہ
.
مٹایا قیصرو کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا زور حیدر، ققر بوزر صدق سلیمانی
اگر ہم اپنے آپ کو ان اوصاف کے رنگ میں رنگیں کریں گے توہم خوداری کا تاج سر پر سجائینگے بصورت دیگر موجودہ حالات کے تناظر میں اس دعوے کو حماقت سے منسوب کرنا بے جانہ ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
28019