Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انٹرویوسابق ممبرصوبائی اسمبلی بی بی فوزیہ…محکم الدین اویونی رپورٹرچترال ٹائمز ڈاٹ کام

شیئر کریں:

بی بی فوزیہ 7فروری 1983کو مغلاندہ کے متوسط گھرانے غلام سخی کے ہاں پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مقامی سکول اور گورنمنٹ ڈگری کالج چترال سے حاصل کی۔ اُس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے (Anthropology) علم بشریات میں ماسٹرزکیا، اور بی ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی۔اسی دوران آغا خان رورل سپورٹ پروگرام میں انٹرن شپ کا موقع ملا ۔ پھر سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے پراجیکٹ آر ڈبلیو ایس ایس میں بطور سوشل آرگنائزر کام کیا۔ لیگل ایویرنس پروگرام فار ہیومن رائٹس میں بطور مانٹیرنگ اینڈ ایلیویشن آفیسر ذمہ داریاں انجام دیں۔ اسی دوران ایک سکالرشپ پر آئرلینڈکیلئے رخت سفر باندھ لی۔ اور ڈویلپمنٹ سٹدیز میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ واپسی کے بعد 2010 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ ایل اے پی ایچ کی ملازمت کے دوران ایس آر ایس پی کے ای یو پروگرام میں سیلکشن ہوئی۔اور کچھ عرصے تک وہاں کام کیا۔
.
2013کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اور تقریبا چار سال تک چترال کی نمایندگی کی۔ لیکن بد قسمتی سے 2018 کے سینٹ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پارٹی کے چودہ ممبران پر اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ استعمال نہ کرنے کا الزام لگا۔ اور اُنہیں پارٹی سے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ان میں چترال کی یہ ہونہار بیٹی اور سیاسی خاتون بی بی فوزیہ بھی شامل تھی۔ یہ بی بی فوزیہ کے کئیریر اور زندگی کیلئے انتہائی صدمے کا باعث تھا۔ جسے وہ اپنے خلاف سازش قرار دے رہی ہیں۔ بی بی فوزیہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کا غیر معمولی دورہ کرکے آئی ہیں۔ چترال ٹائمز ڈاٹ کام نے اُن سے تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ جو کہ نظر قارئین ہے۔
.
bibi fouzia mpa chitral
.
چترال ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے الزامات اور پارٹی سے فارغ کئے جانے کے بعد آپ نے گذشتہ جنرل الیکشن میں جماعت اسلامی کی حمایت کی تھی۔ آپ کو کیا لگتا ہے۔ کہ آپ کا یہ فیصلہ صحیح تھا؟
.
بی بی فوزیہ: مجھے اس فیصلے کا اندازہ تھا۔ کہ میں اپنی حامیوں کو لے کر کسی پارٹی کو سپورٹ کروں تو نتائج کیسے آئیں گے۔ میں نے جس پارٹی کی حمایت کی۔ خد ا کے فضل سے وہ کامیاب رہا۔ میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس بات پر خوش ہوں۔ کہ میری حمایت یافتہ امیداواروں کو کامیابی ملی۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ میرا فیصلہ بروقت اور صحیح تھا۔
.
چترال ٹائمز:تحریک انصاف کی موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے؟اگر ناکام ہے تو آپ کی نظر میں وجہ کیا ہے؟
.
بی بی فوزیہ: پاکستان کے عوام پاکستان تحریک انصاف سے جو تواقعات رکھتے تھے۔ اُس میں عوام کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ ابھی تک کوئی بھی ٹھوس کام سامنے نہیں آیا، جو عوام کے مفاد میں کیا گیا ہو۔ بلکہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عوام پر اخراجات اوربے روز گاری کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جن لوگوں سے ریکوری کے روز روز اعلانات کئے جارہے تھے۔ اُس میں خان صاحب بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ایک روپے کی کارکردگی نہ دیکھا سکے۔ انٹر نیشنل لیول پر خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ تو اندرونی طور پر معاشی حالت دیگر گوں ہے۔ یہ بار بار کہتے نہیں تھکتے، کہ کرپشن نہیں ہو رہی۔میں کہتی ہوں جہاں کام نہیں ہوگا تو کرپشن کیسے ہو گی۔لیکن جہاں کام ہو رہے ہیں، وہاں کرپشن بھی ہو رہے ہیں۔ اڈیٹر جنرل نے156ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔ کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ لیکن حکومت اپنی کرپشن پر پردہ ڈال کر اپوزیشن کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
.
چترال ٹائمز:جب آپ گذشتہ صوبائی حکومت میں شامل تھیں، تو کئی ترقیاتی منصوبے آپ نے افتتاح کئے تھے۔ اُن میں سے کتنے مکمل ہوئے، اگر نہیں ہوئے تو آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
.
بی بی فوزیہ: میرے دور میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے اُن میں سے کچھ مکمل بھی ہوئے۔ ایون ڈگری کالج کیلئے زمین کی خریداری کی۔ لیکن بد قسمتی سے میرے بعد اُس پر کام اب تک شروع نہیں ہو ا۔ اسی طرح ایون پُل سمیت کئی پُلوں کاسنگ بنیاد رکھی۔ جو کہ اب تک نامکمل ہیں۔ روڈز بھی اے ڈی پی میں شامل تھے۔ لیکن اُن پر عملی کام نظر نہیں آتا۔ چترال یونیورسٹی کیلئے تیس کروڑ منظور کرایا۔ ریسکیو 1122کا آفس چترال میں قائم کیا۔ تاکہ چترال کے نوجوان باروزگار ہوں۔ منصوبوں کا ادھورا رہنا انتہائی قابل افسوس ہے۔ میں چیرمین ڈیڈک و ایم پی اے وزیر زادہ اور ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن سے گذارش کرتی ہوں۔ کہ اَن گوئینگ سکیموں کو مکمل کرنے پر توجہ دیں،اور اُن کے لئے فنڈ لانے کی حتی المقدور کوشش کریں، یہ بہت افسوس کی بات ہے۔ کہ گذشتہ سال سے ایک نہر بھی چترال میں تعمیر نہیں ہوئی۔ جبکہ خیبر پختونخوا اور وفاق دونوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

bibi fouzia434
چترال ٹائمز: تحریک انصاف نے آپ کو ایک آفس سے اُٹھا کر صوبائی اسمبلی کے سیٹ پر بیٹھایا، جو عوامی قیادت کا اہم منصب ہے۔ لیکن اُس منصب کو چھیننے میں بھی اُن ہی کا کردار ہے، آپ کیا سمجھتی ہیں، کہ آپ کو عوامی قیادت کے اس منصب کو قبول نہیں کرنی چاہیے تھی ؟کہ آپ کو اس اذیت کا سامنا نہ کرنی پڑتی۔
.
بی بی فوزیہ ; میں پاکستان تحریک انصاف میں بائی چانس نہیں آئی۔ بائی چوائس آئی تھی،اور خان صاحب کا جذبہ اور وژن دیکھ کر آئی تھی۔ میں نے 2008سے 2018تک پی ٹی آئی کیلئے کام کیا۔میں سیاست اور قیادت کو پسند کرتی ہوں اور آگے جانا چاہتی ہوں، میں یہ نہیں کہہ سکتی، کہ آفس میرے لئے اچھا تھا۔ زندگی میں مختلف حالات آجاتے ہیں۔ لیکن انسان کو اُن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ میں رُکنی والی نہیں ہوں۔ اور انشااللہ سیاست میں رہوں گی اور بھر پور طریقے سے سیاست کروں گی۔ کیونکہ خواتین جو مجموعی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ اُن کی یہاں کوئی نمایندگی نہیں ہے۔ لہذا مجھے اُن کی بہبود کیلئے سیاست کرنی چاہیے۔

mpa bibi fouzia pti drosh porgram chitral 1
.
چترال ٹائمز: کیا پارٹی کی مقامی قیادت کا آپ کو پارٹی سے الگ کرنے میں کوئی کردار ہے؟ اگر نہیں ہے تو پارٹی کے لوگوں سے تعلق کیساہے؟
.
بی بی فوزیہ:اس حوالے سے میں یہ عرض کروں گی۔ کہ ایک صوبائی گروپ کو پارٹی کے مقامی لوگ سپورٹ کر رہے تھے۔ اُس گروپ نے دانستہ طور پر خان صاحب کو مس گائڈ کیا۔ اور خان صاحب کو باور کرایا۔ کہ ایک کمیٹی سینٹ ووٹ کے بارے میں انکوائری کر رہی ہے۔ میں نے پوری ایمانداری سے اپنا ووٹ پارٹی امیدوار کے حق میں استعمال کیا۔ مگر بعد آزان کمیٹی نے دیگر ممبران اسمبلی کے ساتھ جب مجھ پر بھی الزام لگایا۔ تو مقامی قیادت کے پاس اخلاقی جرات نہیں تھی، کہ میرے پاس آتے، مجھے حوصلہ دیتے۔یا وہ مجھ سے اس ناکردہ کام کے بارے میں پوچھتے، کہ کیا میں نے واقعی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے ،اور چترال کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ مقامی قیادت نے مجھے حوصلہ دینے کی بجائے اپنی نظر انتخابی نشستوں پر رکھی،اور میرے خلاف کام کیا۔پارٹی کے اندر جن بھائیوں نے میرے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پر میری حمایت کی، قیادت نے اُن کو دبانے کی کوشش کی۔ لیکن میں اُن بھائیوں کا مشکور ہوں۔ جنہوں نے اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا اور میری حوصلہ افزائی کی اور ہمت دی۔ چترال کے قائدین صوبائی گروپ کا ہمنوا بن کر میرے خلاف کام کرکے اپنی نشستیں کنفرم کررہے تھے۔ لیکن میرے خلاف اُن کی سازش خود اُنہیں لے ڈوبی۔اور وہ 2018کے الیکشن سونامی میں بھی تحریک انصاف چترال کی سیٹیں نہ جیت سکے۔ یہ جب اس سنہری موقع پر کامیاب نہیں ہو سکے توآیندہ بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ کیونکہ چترال کی قیادت کی نیت میں فتور ہے۔ اگر عمران خان چترال میں الیکشن کیلئے کھڑے ہوں، تووہ الگ بات ہے۔ اُس کے علاوہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا آیندہ چترال میں الیکشن جیت جانا ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
.
چترال ٹائمز: آپ کی طرف سے کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کی بات بھی سامنے نہیں آئی۔ کیا اپنے خلاف الزامات کے باوجود آپ پی ٹی آئی میں کوئی نرم گوشہ پیدا ہونے کا انتظار کررہی ہیں؟ تاکہ آپ کو واپس بلا یا جائے۔
.
بی بی فوزیہ: شوکت یوسفزئی نے چودہ ارکان کے خلاف پریس کانفرنس کرکے پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اوراُن کا موقف تھا۔ کہ جو بھی رکن پارٹی شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دے گا۔ اُس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ خان صاحب کے حکم پر جو کمیٹی بننی چاہیے تھی۔ وہ آج تک نہیں بنی۔ اور نہ میری طرف سے دی گئی شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد پارٹی قیادت کی طرف سے ہاں یا نہیں میں جواب آیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی، کہ پی ٹی آئی میں واپس جانے کی خواہش کی وجہ سے کسی اور پارٹی میں نہیں جانا چاہتی۔ سیاسی فیصلے وقت اور حالات کے مطابق کئے جاتے ہیں اور انشااللہ حالات دیکھ کر کسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کروں گی۔ میں سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتی ہوں۔ سیاست میں حرف آخر کوئی چیز بھی نہیں ہو تی۔ آج کے مخالف کل کے دوست بن جاتے ہیں۔ اورکل کے دشمن آج دوست بننے ہوئے ہیں.

bibi fouzia4
چترال ٹائمز: آپ کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے دورے پر گئی تھیں۔ یہ پروگرام کس نے ترتیب دیا تھا۔ اور اس دورے کے مقاصد کیا تھے؟
.
بی بی فوزیہ:یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ انٹر نیشنل وزیٹرلیڈر پروگرام کے تحت پوری د ُنیا سے لوگوں کو بُلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں نے یو ایس قونصلیٹ میں اپلائی کیا۔ تو میری درخواست قبول کی گئی اور میری سیلکشن کی گئی۔ اس دورے کے گروپ میں میرے علاوہ چار صوبائی اسمبلی کے ارکان، ایک ایم این اے اور دو سنیٹرز شامل تھیں۔ اور یہ وزٹ (ایمپاور ویمن ان پاکستان لجسلیٹیوبرانچ) پروگرام کے تحت کی گئی تھی۔ جس میں تمام خواتین پاکستانی تھیں اور اس وزٹ کا مقصد یو ایس پولیٹکل اینڈ ویمن ایمپاورمنٹ کے تحت پولٹیکل سسٹم کے بارے میں معلومات کا حصول تھا۔ اس کے علاوہ ایکسچینج پروگرام کے تحت سٹرٹیجی پلان بنانے سے متعلق تجربات کا حصول بھی اس پروگرام میں شامل تھا۔ گویا یہ ایک بہترین دورہ تھا۔ ہم نے واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، نیو ہمشائر، ٹولسا اور مینا پولس سٹیٹ کا دورہ کیا، اور ایمپاور خواتین سے ملاقات اور بات چیت کی۔ یہ ایک طے شدہ پروگرام تھا۔ اس وزٹ میں ہمیں یہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ کہ امریکہ اور پاکستان کے ماحول کے مطابق خواتین کو با اختیار بنانا کتنی ضروری ہے۔ اور اس میں کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ خواتین کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو سٹیٹ کی سطح پر حل کئے جانے چاہیئں۔ یعنی قومی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کے تحت سٹیٹ کو خود یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس لئے ہم نے ایک فورم بنائی ہے جس کے ذریعے خواتین کے حقوق کیلئے قانون سازی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یو ایس میں پولیٹکل ایمپاورمنٹ کے حوالے سے ایک ادارہ کام کرتا ہے۔جس میں سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کو تربیت دی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والے ارکان کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے۔ کہ انتخابات سے پہلے یہ ٹریننگ دی جائے۔ امریکہ میں آٹھ سے دس خواتین صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔ جبکہ اس قسم کا ادارہ ہمارے یہاں بھی ہونا چاہیے۔ جہاں تک خواتین کے مسائل کی بات ہے، تو پاکستان اور امریکہ میں خواتین کے مسائل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ 1920میں امریکہ میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ امریکہ میں بھی خواتین گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہیں۔ ورک لوڈ وہاں بھی زیادہ ہے۔ سیاست میں وہاں کی خواتین کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اُن کوٹائم نہیں ملتا۔پاکستان میں ایک انٹر نیشنل معاہدے کے تحت خواتین کو مخصوص سیٹ دیے گئے ہیں۔جس کی وجہ سے کئی خواتین قیادت کی کُرسی پر بیٹھنے کے قابل ہوئیں۔جو کہ قابل تعریف بات ہے۔ امر یکہ میں ہمیں کلچرل سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا، ہمیں نیگرو خواتین سے ملایا گیا۔ اُن کے مسائل پر بحث کا موقع ملا، معروف سیاحتی اور تاریخی مقامات کی سیر کرائی گئی۔

mpa bibi fouzia pti drosh porgram chitral 4
.
چترال ٹائمز:آپ چترال کی پہلی خاتون ہیں،جس نے صوبائی اسمبلی میں چترال کی نمایندگی کی اور عوام کے بہت قریب رہے۔ نمایندگی کے دوران آپ کو کیا مسائل درپیش رہے۔ اور عوام کے ساتھ آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
.
بی بی فوزیہ: عوام کی توقعات اپنے نمایندوں سے بہت زیادہ ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں، کہ ایم پی اے سب کچھ ہے۔ بعض اوقات لوگ یہ توقع رکھتے ہیں،کہ اُن کا کام ہر صورت میں ہونا چاہیے۔ایم پی اے اسمبلی میں آواز اُٹھاسکتی ہے۔لیکن مسئلے کا فوری حل بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا۔ لوگ مجھ سے ملازمت کی امید کرتے تھے۔ یا تبادلہ کرنے کی توقع رکھتے تھے۔ جو کہ میرا منڈیٹ نہیں تھا۔

دوسری طرف اسمبلی میں الیکٹیڈ اور سیلکٹیڈ کی کیٹگری بنائی جاتی ہے۔ اور الیکٹیڈ سیلکٹیڈ کو یہ کہتے نہیں تھکتے۔ کہ تم مخصوص سیٹ پر آئی ہو۔ اس لئے تم پر کسی قسم کا عوامی دباؤ نہیں، جبکہ ہم بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے۔ کہ اسمبلی میں الیکٹیڈ ممبران کو اگر 20کروڑ روپے فنڈ دیے جاتے ہیں، تو خواتین کو دو کروڑ دیے جاتے ہیں، اسی طرح اپوزیشن کو 50لاکھ ملتے ہیں۔اسمبلی کے اندر نئے ممبران کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ کہ کس کام کیلئے کونسے دفتر میں جانا ہے۔ اس لئے شروع میں ہی اسمبلی ممبران کی باقاعدہ ٹریننگ ہونی چاہیے۔ خصوصا قانون سازی اور اسمبلی بزنس کے حوالے سے ممبران اسمبلی کو تربیت فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
.

bibi fouzia mpa chitral inuagurated degree college ayun2
چترال ٹائمز:متوقع بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ہے؟ایسی صورت میں کس پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گی؟
.
بی بی فوزیہ: بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔تاہم اُس وقت حالات کو دیکھ کر کسی کی سپورٹ کرنی پڑے گی۔ فی الحال اعلانیہ طور پر کسی بھی پارٹی میں شمولیت نہیں کرنا چاہتی۔
.
چترال ٹائمز: ایک سیاسی خاتون کی حیثیت سے کیا آپ کو اپنے حق اور دوسری خواتین کے حقوق کیلئے لڑنی چاہیے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ خاموش کیوں ہیں؟
.
بی بی فوزیہ: میں اپنے حقوق کو سمجھتی ہوں۔ چترال کے اندر پولیٹکل ایکٹیو خاتون بطور لیڈر نظر نہیں آرہی ہیں، اور میں سمجھتی ہوں کہ میں نے بہت وقت ضائع کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کیلئے مجھے آواز اُٹھانی ہے۔میرے اندر خواتین کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ موجود ہے، لیکن بعض اوقات انسان سب کچھ کرنے کے جذبے کے باوجود کچھ نہیں سکتا۔ خواتین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانے کیلئے ایک فورم کا قیام ضروری ہے۔ چترال کی خواتین میں خود کُشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس فورم کو استعمال کرکے خواتین میں اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔

fouzia met Cm pervez khatak
.
چترال ٹائمز:وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
.
بی بی فوزیہ: خان صاحب کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر خان صاحب کامیاب ہوں گے تو پاکستان کامیاب ہو گا۔ مگر اب تک کوئی خاص کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک کروڑ ملازمت، پچاس لاکھ گھر، ہیلتھ کارڈ وغیرہ کی باتیں سب کھوکھلے ثابت ہوئے،مہنگائی، بے روزگاری نے لوگوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ میں فی الحال مجموعی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں۔ خدا کرے کہ معاشی استحکام ہو۔ اور ملک اضطرابی کیفیت سے نکل آئے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں۔ کہ بہت سے کام ایسے ہیں۔ جہاں پیسے کی ضرورت نہیں،پنجاب میں کئی ایسے واقعات ہوئے۔ جن کے بارے میں خان صاحب کو اقدام اُٹھانے چاہیے تھے۔ کراچی کچرے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ کوئی تو ہو کہ لوگ یقین کریں۔ کہ یہ کام مہینے دو مہینے کے اندر ہو جائیں گے۔ لوگوں کو قتل کرکے دو تین مہینے بعد قبر کُشائی کی جاتی ہے۔ کیا مدینے کی ریاست اس طرح ہوتی ہے؟قوم دن بدن مقروض ہورہا ہے۔ یو ٹرن نے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

mpa bibi fouzia pti drosh porgram chitral 3
.
چترال ٹائمز:وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے پچھلے مہینے چترال کا دورہ کیا۔ وزیر اعلی کا یہ دورہ آپ کی نظر میں کیسا رہا ؟
.
بی بی فوزیہ:وزیر اعلی جب کسی ضلع کا دورہ کرتا ہے۔ تو لوگوں کے بہت تواقعات ہوتے ہیں۔ وزیر اعلی نے ایک تو چترال کا بہت ہی مختصر دورہ کیا۔ دوسری بات یہ ہے۔ کہ کوئی قابل ذکر اعلان چترال کیلئے نہیں کیا۔ وزیر اعلی چترال کیلئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرتے۔ تو تین چار سال بعد وہ عمل میں آتے۔ اس لئے یہ ایک مایوس کُن دورہ تھا۔ پی ٹی آئی قیادت بھی اُنہیں کوئی پروگرام نہ دے سکا۔ وی سی سیز میں چیک تقسیم کرنا وزیر اعلی کا کام نہیں ہو تا۔ ممبران اسمبلی کا کام بھی غیر تسلی بخش اور منظم نہیں تھا۔ چترال کے اندر سڑکوں کی وجہ سے لوگ کس طرح اذیت میں مبتلاہیں۔ ان کے بارے میں کوئی اعلان کیا جاتا۔ اپر چترال کے نئے ضلع کیلئے سپیشل پیکیج کا اعلان کرتے، تاکہ نوزائیدہ ضلع کی حالت میں کچھ بہتری آتی۔ لیکن صد افسوس وزیر اعلی تو آئے۔ لیکن ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ اس لئے اسے ناکام دورہ نہیں تو کیا کہا جاسکتا ہے؟

bibi fouzia mpa chitral inuagurated degree college ayun
.
چترال ٹائمز: چترال میں جوانسال خواتین خصوصا سکول و کالج، یونیورسٹی کی طالبات میں خود کُشی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے آپ بطور لیڈر کیا کرنا چاہتی ہیں۔ اور خواتین کو کیا پیغام دیں گی؟
.
بی بی فوزیہ: خود کُشی کا عمل بہت افسوسناک ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے۔ کہ ہمارے قوانین پائیدار نہیں ہیں، اور پولیس کے ادارے بھی ٹھیک طریقے سے انکوائری نہیں کرتے، جبکہ متاثرہ خاندان کے لوگ ایسے واقعات اپنے لئے باعث شرمندگی قرار دے کر تعاون نہیں کرتے ۔ وقوعہ کے بارے میں پوچھنے کو بھی اچھا خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لئے اس سلسلے میں ریسرچ کی انتہائی ضرورت ہے۔ یہ امکان بھی موجود ہے۔ کہ بہت سارے خود کُشی قرار دیے جانے والے واقعات قتل بھی ہو سکتے ہیں۔ چترال میں خواتین کیلئے کوئی فورم ہی موجود نہیں ہے۔ جو ادارے اس حوالے سے کام کرتے تھے۔ وہ اب یہ کام چھوڑ کر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ریسرچ میں یونیورسٹی آف چترال بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب وجوہات معلوم ہوں گی۔ تب علاج ممکن ہو سکے گا۔ ضلع میں ماہرین نفسیات کا ہونا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ٹی بی کی طرح کی بیماری ہے۔ ڈپریشن کے مریض کو دوسری جگہ نہیں لے جایا جاسکتا۔ اور یہ ایسی بیماری ہے۔ جس کا مسلسل علاج ہونا چاہیے۔

Rescue Chitral 1122 iftitah fouzia mpa 1

 

 


شیئر کریں: