Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

رحمان مرغ پلاؤ، اسلام آباد کی ڈھلتی رات، محسن نقوی کی شاعری اور ہم…کریمی

Posted on
شیئر کریں:

اب یہ نہیں کہنا کہ اکیلے مرغ پلاؤ کھایا جا رہا ہے۔ شادی کی سالگرہ پر تو بیوی ساتھ ہونی چاہیے۔ لیکن مجال ہے جو ایسا ہو۔ یہ مصروفیت در مصروفیت کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی جو شروع ہوئی ہے لگتا ہے بندہ بس انسان نہیں مشین ہے۔ ایسے میں پورا غصہ پلاؤ پر ہی نکالا جاسکتا ہے۔ خیر اسلام آباد کی ڈھلتی رات ہو، سر میں ہلکا سا درد بھی ہو اور اس سے کہیں زیادہ اپنوں سے دوری کا درد ستائے تو وہاں محسن نقوی کی شاعری کا یاد آنا اچھنبے کی بات نہیں۔ لیجیے آپ بھی پڑھیے اور سر دُھنیے؎

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
.
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
.
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ میرے دل میں رہا کر
.
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
.
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
.
برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر!
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلا کر
.
اے دل تجھے دُشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر!
.
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
.
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
.
اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستۂ زنجیرِ صبا کر
.
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر
.
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
.
شب بخیر!
یکے از تحاریر کریم کریمی
اسلام آباد
بائیس اکتوبر دوہزار اُنیس


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
27799