Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بہتریں طرز حکومت کے اصول………… محمد آمین

Posted on
شیئر کریں:

ریاست کی جامع حکمرانی کے لیے ایک دیانت دار اور قابل حکمران کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ھے تاکہ وہ ریاست میں عدل و انصاف قائم کرسکے اور اس کی کوششون سے ایک خوشحال معاشرہ وجود میں ائیں جہان قانو ن کی بالدستی یعنی سارے رعایا قانون کے سامنے برابر ہو۔اس ضامن میں بہت سے مغربی اور مشرقی مفکرین اور سیاسی دانشوارون نے بہت سارے سیاسی نظریے پیش کیے ہیں جن کو دینا کے سیاسی لیڈرز اپنے اپنے ریاستون میں نافذالعمل کرتے ارھے ھیں۔لیکن آمیروالمومنین جناب علی ابن آبی طالب کی وہ اہم خط جسے اپ نے جناب مالک اشتر کو والی مصر مقرر کرنے پر فرمایا تھا یہ اس عظیم کتاب نہج البلاغہ میں درج ھے۔یہ شاہکار کتاب جناب آمیروالمومنین کی خطبات،خطوط اور نصیحتوں پر مشتمل ھے جس سے دسویں عیسوی میں سید رضیؒ نے تصنیف کیا تھا۔یہ ایک ایسی حکمت سے بھری نصیحت آموز خط ھے جیسے اگر دور جدید کے انتشار سے لبریز دینا کے طرز حکومت میں نافذ کردیا جائے تو اس میں کوئی بھی شبہ نیہں ھوگا کہ اسے ایک مثالی ریاست کا قیام وجود میں ائے گا جس کی بیناد انصاف اور عدل سے تمسک ھے۔ایئے اس اہم خط میں زرا غور کریں جیسے آمیروالمومنین نے تحریر کیاتھا:
یہ وہ فرمان جس پر کاربند ھونے کا حکم دیا ھے خدا کے بندے آمیرالمومنین نے ملک ابن حارث اشتر کو جب مصر کا والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں دشمنوں سے لڑیں رعایا کی فلاحو بہبود اور شہرون کی ابادی کا انتظام کریں انھیں حکم ھے کہ اللہ کا خوف کریں اس کی اطاعت کو مقدم سمجھیں اور جن فرائض و سنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ھے ان کا اتباع کریں اس کی پیروی سے سعادت اور اور انہی کے ٹکرانے سے بد بختی دامن گیر ھوتی ھے ۔اور یہ کہ اپنے دل اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے اللہ کی نصرت میں لگے رھیں کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے زمہ لی ہے کہ جو اس کی نصرت کرے گا وہ اس کی مدد کرے گا۔
اس کے علاوہ انہیں حکم ھے کہ وہ نفسانی خواہشون کے وقت اپنے نفس کو کچلیں کیونکی نفس برائیوں کی طرف لے جانے والا ھے یہ یاد رکھو ک خدا کے نیک بندون کا پتہ چلتاھے اسی نیک نامی سے جو انھیں بندگان الہی میں خدا نے دے رکھی ھے ۔لھذا ھر زخیرے سے پسند تمہیں نیک اعمال کا زخیرہ ہونا چاہئے تم اپنے خواھشون پر قابو پالو اور جو مشاغل تمھارے تمھارے لئے حلال نھیں ھیں ان میں سے صرف کرنے سے ابنے نفس کے ساتھ بخل کرو کیونکہ نفس کے ساتھ بخل کرنا ھی اس کے حق کو ادا کرنا ھے –رعایا کے لیے اپنے دل کے اندر رحم اور لطف و محبت کو جگہ دو رعایا میں دو قسم کے لوگ ھوتے ھیں ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمھارے جیسا مخلوق خدا۔ان سے خطائین بھی ھونگے تم ان سے ایسے عفو درگزار سے کم لینا جسطرح اللہ سے اپنے لیے عفو درگزار کو پسند کرتے ھو۔اس لیے کہ تم ان پر حاکم ھو اور تمھارے اوبر تمھارے امام حاکم ھے اور جس طرح (امام) نے تمھیں والی بنایا ھے اس کے اوپر اللہ ھے اور اس نے تم سے ان سے لوگوں کے معاملات کی انجام دھی چاھی ھے اور ان کے زریعے تمھاری آزمائیش کی ھے ۔
خبردار :کبھی اللہ کے ساتھ اس کی عظمت میں نہ ٹکراؤ کیونکہ اللہ ھر جباروسرکش کو نیچا کردکھاتا ھے اور ھر مغرور کے سر کو جھکا دیتا ھے۔
تمہں سب طریقون سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاھیے جو حق کے اعتبار سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور عایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کس مطابق ھوکیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بے اثر کردیتی ہےاور خاص کی ناراضگی عوام کی ناراضگی کے ھوتے ھوئے نظر انداز کی جاسکتی ھے۔اپنے مشورے میں کسی بخیل کو شریک نہ بنانا کہ وہ تمہں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا اور فقیر و افلاس کا خطرہ دلائے گااور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ تمہاری ہمت پست کردےگا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹوارنے کو تمہاری نظروں میں سج دےگا۔
تمہارے لیے سب سے بدتر وزیر وہ ہوگا کو تم سے پہلے بد کردارون کا وزیر اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ھو۔تمہارے نزدیک ترجیحات ان لوگو ں کا ھونا چاھئے جو حق کی کڑی باتین تم سے کھل کر کہنے والے ہو۔پرہیزگارون اور استبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا اور تمہارے نزدیک نیکوکار اور بدکار برابر نہ ھوں کیونکہ ایسا کرنے سے نیکوں کو بے رغبت اور بدکاروں کو حوصلہ ملے گا۔ہر شخص کو اس کی منزلت پر رکھو جس کا وہ حق دار ہے اور اس بات کو یاد رکھو کہ حاکم کو اپنی رعایا پر پورا اعتماد اس وقت کرنا چاھیے جب کہ وہ ان سے حسن سلوک کرتاھو اور ان پر بوجھ نہ ڈالے اور دیکھو اس اچھے طریقے کو ختم نہ کرنا جس پر اس امت کے بزرگ عمل پیرا ھوئے ھیں جس سے اتحادویک جہتی پیدا اور رغبت کی اصلاح ھوئی ھو اور ایسے طریقے ایجاد نہ کرنا کہ وہ پہلے طریقوں کو ضرر پہنچائے علماء و حکماء کے ساتھ باہمی مشورہ اور بات چیت کرتے رہنا۔
اور تمہیں معلوم ہونا چاھیے کہ رعایا میں کئی طبقے ہوتی ھیں جن کی سود و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ھوتے ھیں اور و ایکدوسرے سے بے نیاز نیہں ہو سکتے ان میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام انے والے فوجیوں کا ھے۔دوسرا طبقہ تحریروں کا کام کرتے ھیں تیسرا انصاف کرنے والا قضاۃ کا ھے چوتھا حکومت کے وہ عمال جن سے امن اور انصاف قائم ھوتا ھے پانچواں مسلمان اور جزیہ دینے والے زمیون کا چھٹا تجارت پیشہ اھل حرفہ کا ساتوان فقراء اور مساکین کا وہ طبقہ ہے کہ جو سب سے پست ھے اور اللہ نے ہر ایک کا حق معیں کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبویؐ میں اس کی حد بندی کردی ھے اور وہ مکمل دستور ہمارے پاس محفوظ ہے۔
حکمرانوں کے لیے سب سے انکھ کی ٹھنڈک اس میں ھے کہ شہروں میں عدل و انصاف برقرار رھیں اور رعایا کی محبت ظاہر ھوتے رھے اور وہ اپنے حکمرانون کے گرد حفاطت کے لیے گھیرا ڈالے رھیں۔جب مشکلین تمہیں پیش ائیں جن کا حل نہ ھو سکے تو ایسے معاملات میں اللہ اور اسکے رسول کا سہارا لے لو۔لوگون کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے ایسے اشخاص کا انتخاب کریں جو تمہارے نزدیک تمہارے رعایا میں سب سے بہتر شخص ھو جو واقعات کی پیچیدگیوں سے خائف نہ ہو سکے اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویے سے غصہ میں اتا ھو نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر بہک پڑتا ہو۔اور نہ بغیر چھان بین کیے کسی معاملے پر راضی ھوتا ہو اور وہ تمام معاملات میں دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ھو۔
پھر اپنے عہداروں کے بارے میں نظر رکھنا ان کو خوب ازمائش کے بعد منصب دینا اور رعیت اور جانبداری کی بنیاد پر کسی کو منصب عطا نہ کرنا کیونکہ یہ باتین ناانصافی اور بے ایمانی کی علامتیں ھوتےھیں۔مالگزاری کے معاملات میں مالگذاری ادا کرنے والوں کا مفاد پیش نظر رکھنا کیونکہ باج اور باجگذارون کی بدولت درسروں کے معاملات درست کیے جا سکتے ہیں۔اور سب اسی اخراج و خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ہین۔اپنے دفاتر کے انتظامات پر نظر رکھنا اور معاملات ان لوگوں کے سپرد کرنا جو قابل اور اچھے اخلاق کے مالک ہوں۔اور تمہیں تاجروں اور دوکانداروں سے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دیا ھوتاھے اور زخیرا اندازی کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کرنی ھوتی ہے۔
اپنے آوقاف کا ایک حصہ حاجت مندوں کے لیے معیں کردینا اور ان کے لیے ایک عام دربار کرنا کیونکہ میں نے رسولﷺ کو کئی موقعون پر یہ کہتے ھوئے سنا ہوں اس قوم میں پاکیزگی نیہں اسکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نیہں دلایا جاتا۔تمہیں ان دینی فرائض کی انجام دہی میں کوتاھی نیہں کرنا چاھیے ان واجبات کی انجام دھی ہر صورت میں ہونا چاہیے جو اس کی ذات (اللہ) سے مخصوص ھیں۔تم ایک عرصہ تک رعایا سے روپوشی اختیار نہ کرو کیونکہ حکمرونوں کا رعایا سے چھپکر رہنا ایک طرف کی تنگ دلی اور معاملات سے بےخبر رہنے کا سبب بنتا ہے اس کے بعد ہی معلوم ھونا چاھیے کہ حکام کے کچھ خواص اور سر چھڑے لوگ ھوا کرتے ھیں جن میں خود غرضی،دست درازی اور بد معاملگی ھوا کرتی ھے تم کو ان حالات کی وجوہ ختم کرکے اس گندے مواد کو ختم کرنا چاھیے اور اپنے کسی حاشیہ نشین اور قراب دار کو جاگیر نہ دینا اور نہ اسے تم سے توقع نہ بندھانا چاھیے۔اور جس پر جو حق عائد ھوتا ھے اس پر اس حق کو نافذ کرنا چاھیے وہ تمہارا اپنا ہو یا بیگانہ اور اس کے بارے تحمل سے کام لینا۔
جو عہدو پیمان کسی کے ساتھ کیا ھو اس کو ہر صورت میں پورا کرنا کیونکہ اللہ نے اس چیز کو امن کا پیغام قرار دیا ھے اور جسے اپنی رحمت سے لوگوں میں عام قرار دیا ھے۔ناحق خونریزوں سے دامن بچائے رکھنا کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں سے سلب ھونے اور عمر خاتمے کا سبب ناحق خون ریزی سے زیادہ کوئی شئے نیہں ھے۔
تمہیں لازم ہے کہ گزشتہ زمانے کی چیزوں کو یاد رکھو خواہ کسی عادل حکومت کا طریقہ کار ھویا کوئی اچھا عمل درامد ھو یا رسولؐ کی کئی حدیث ھو یا کتاب اللہ میں درج شدہ کوئی فریضہ ھو ،تو ان چیزوں کی پیروی کرو جن پر عمل کرتے ھوئے ہمیں دیکھا ھے اور ان ہدایات پر عمل کرنا۔
اور میں اللہ تعالیٰ سے اس کی وسیع رحمت اور ہر حاجت کے پورے کرنے پر عظیم قدرت کا واسطہ دیکر اس سے سوال کرتا ھوں کہ وہ مجھے اور تمہیں اس کی توفیق بخشے جس میں اس کی رضامندی ھے کہ ہم اللہ کے سامنے اور اس کے بندوں کے سامنے ایک کھلا ھوا عذر قائم کرکے سروخرو ھوں اور ساتھ ھی بندوں میں نیک نامی اور ملک میں اچھے اثرات اور اس کی نعمت میں فراوانی اور روز افزروں عزت کو قائم رکھیں اور یہ کہ میرا اور تمہارا خاتمہ سعادت و شہادت پر ھو بیشک ھمیں اس کی طرف پلٹنا ھے۔


شیئر کریں: