Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سنجیدہ طنز اور ہماری غیر سنجیدگی…….. تحریر: ظفراحمد

Posted on
شیئر کریں:

چند دن پہلے ثقافت کے موضوع پر ایک طنزیہ مضمون لکھا۔ اس میں ثقافت پر عمرانیات اور بشریات کے زاویے سے ناواقف لوگوں کے وہ دلائل جمع کر دیے گئے ہیں جو پڑھے اور سمجھے بغیر دیے جاتے ہیں۔ موضوع کو سمجھنے کے لیے پورے مضمون میں بہت سارے ہنٹس دیے گئے ہیں۔ عنوان سے ہی مضمون کے طنزیہ ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
.

عنوان تھا “قصیدہ ثقافت: ہماری ثقافت ہماری پہچان”۔ یعنی شروع ہی میں اشارہ دیا گیا ہے کہ طنز کیا گیا ہے۔ اب ثقافت مصنف کا محبوب تھوڑی ہو سکتا ہے جس کے عشق میں قصیدا لکھا جائے۔ پہلے پیراگراف کے ہی آخر میں لکھا گیا ہے کہ ہمیں “یقینِ پختہ کہ ہمارے اقدار، ہماری روایات اور عقیدے ہی سب سے افضل، آخری سچ اور مکمل حقیقت ہیں۔” واضح اشارہ موجود ہے کیونکہ اول تو آخری سچ اور مکمل حقیقت کا تصور ہی غیر حقیقی ہے، دوئم ایک ثقافت کے لیے ایسا جملہ تراشنا نہایت ہی مغحکہ خیز ہوتا ہے۔
.
دوسرے پیراگراف میں دوسروں کے تہذیب کو اپنے اقدار کے زریعے ناپنے کو ہمارا ڈیوائن حق قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح تیسرے پیراگراف میں مشہور کہاوت “جیسا دیش ویسا بھیس” کو دوسروں کے کلچر پر لاگو قرار دیا گیا ہے مگر خود کو اس سے آزاد تصور کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ کلچر فورس کو یہ زمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے خواتین مغرب جاکر بھی اپنے ہی کلچر کو فالو کریں۔ واضح تضاد نظر آ رہی ہے خاص کر خواتین کے حوالے سے۔ آگے چل کر بلاول کی کلاس لی گئی کہ کس طرح اپنے کلچر کو بھول مغربی رنگ میں رنگ چکے ہیں۔
.
اس مضمون کے ساتھ وہی تصویر لگا دی گئی ہے جس میں برطانوی شہزادی پاکستان آکر شلوار قمیض جبکہ چترالی خاتون آمریکہ جا کر ان کا لباس پہنی ہیں۔ عاشقانِ ثقافت اس تصویر کو شیر کرکے چترالی خاتون کو غلط جبکہ شہزادی کے گن گا رہے تھے۔ اسے لگا کر ان کے تضادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ خاتون کے لیے نصیحت بھی ہے کہ روزی روٹی کے لیے ماڈلنگ کرنا ہی ہے تو ہمارے ملبوسات پہن کر کریں۔ گویا فٹابلر کو مشورہ دے رہے ہو کہ اپنے مرضی سے پشاوری چپل اور شلوار قیمض میں فٹبال کھیلیں۔ آخر میں برطانوی شہزادی کی پاکستان آ کر ہمارے رنگ میں رنگنے کو ہمارے ثقافت کے افضل ہونے کو پتھر پر لکیر قرار دیا گیا ہے جس کی حفاظت فرض۔
.
اب اتنے سارے اشاروں کے باوجود لبرلز کے دھوکہ کھانے کو روشن خیالی کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور؟ سنجیدگی سے طنز کرنے کے اس انداز کو ڈیڈ پین سٹائر کہا جاتا ہے۔ مضمون کے الفاظ کے ڈبل معنی ہونے کو ذومعنیت۔ جہاں الفاظ کے ظاہری مطلب تو سامنے ہوتا ہے مگر تحریر میں ایسے اشارے اور تضادات موجود ہوتے ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ ان کی مدد سے مضمون کے اصل مطلب تک پہنچا جا سکتا ہے۔مقامی زبانوں میں بھی لوگ روزمرہ کے بول چال میں ایسے انداز اپناتے ہیں مثلاً چترال میں اس انداز کو “تورکھوئچی وار ” کہا جاتا ہے۔
.
بد قسمتی سے لبرل لوگوں نے اس مضمون سے الٹا مطلب اخذ کیے۔ ان میں بعض باہر کی یونیورسٹیوں سے پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہیں۔ تنقید کرنے والوں نے اسے جہالت کی انتہا قرار دیے اور ساتھ ساتھ مضمون میں ذکر کردہ ایک قلمی نام پر خوب کلاس لی کہ جاہل لکھاری کو کس نے حق دیا کہ وہ کسی کی ذاتی زندگی کا ذکر کرے۔ اس مضمون کے ساتھ وہی ہوا جو ملالہ یوسفزئی پر ندیم پراچہ کے مضمون کے ساتھ ہوا تھا۔ ملالہ کے مخالفین طنز کو سنجیدہ سمجھ کر ٹیلی ویژن پر پروگرام تک کیے تھے۔ اب ندیم پراچہ کے طنز لکھنے کا مقصد ملالہ کی نجی زندگی ڈسکس کرنا نہیں بلکہ ان کے ذات پر کیچڑ اچھالنے والوں کے مفروضات اور بے سروپا دلائل پر طنز تھا۔ فیفی کے ساتھ بھی چترالی یہی کر رہے ہیں ان کی آمریکہ میں کی جانے والی قانونی اور ریکگنائزت پیشے پر بے جا تنقید۔ مضمون میں ان کے قلمی نام کے ذکر کا مقصد ثقافت پرستوں کے تضادات پرطنز ہے نہ کے ان کی نجی زندگی کو ڈسکس کرنا۔ صحافتی اقدار میں ایسے مثالیں موجود ہیں۔
.
اس مضمون کو سمجھے بغیر جہالت قرار دیا گیا۔ تاہم شوقیہ لکھنے والوں کے لیے ناسمجھی میں دیے گئے کمنٹس اور لائک کوئی معنی نہیں رکھتے، تاہم اخلاقی ذمہ داری اتنی ہوتی ہے کہ لکھے گئے الفاظ غلط فہمیوں کا سبب نہ بنیں۔ صحافت میں ایم ایس کرنے والے ایک نوجوان نے کمنٹ کیے کہ انھیں خصوصی طور پر اس مضمون کو پڑھنے کے لیے کہا گیا “جسے جہالت سے لکھا نہیں بلکہ جہالت سے پڑھا جا رہا ہے”۔ ایک دوسرے ادیب دوست نے مضمون پر داد دی۔ کسی پوسٹ پر لگے کمنٹس اور لائکس میں چند کمنٹس ایسے ہوتے ہیں جن سے بندے کو اپنے لکھے ہوئے مضمون کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان جیسے مضامین سے ہمارے ہاں پڑھنے کی کلچر کے خستہ حالی اور سطحی ہونے کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔


شیئر کریں: