Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی قوم کی ذمہ داریاں (7)…… ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

ہندوؤں کے مذہبی عقائد کے مطابق ہندوستان کی سرزمین انکے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے،وہ اپنی زبان میں اسے ”دھرتی ماتا“کہتے ہیں۔دھرتی کا مطلب سرزمین وطن اورماتا سے مراد ماں ہے۔تقسیم ہند کی حقیقت کو آج تک ہندؤں نے اسی لیے دل سے تسلیم نہیں کیا کہ گویا یہ ان کی ”ماں“کی تقسیم ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح یہ نوزائدہ اسلامی مملکت ختم ہو جائے۔ہندؤں کی کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ پڑوسی کبھی دوست اور خیرخواہ نہیں ہو سکتااسی لیے بھارت کے کسی پڑوسی ملک سے اچھے تعلقات نہیں ہیں اور ایک ہی سرحدیں رکھنے والا ہر ملک بھارت سے نالاں ہے۔ہندوستان پر کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی،اس سارے عرصے میں ہندواقوام مغلوب رہیں اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی غالب اکثریت ہندوستان میں باہر سے وارد ہوئی تھی،چنانچہ صدیوں سے اورنسلوں سے ہندؤں کے اندریہ احساس تھا کہ غیر مذہب کے لوگ اور باہر سے آئے ہوئے لوگ ان پر حکومت کر رہے ہیں۔اس دوران ہندوستان کے مقامی قبائل کی ایک بہت بڑی تعدادنے اسلام قبول کرلیا،لیکن ہندؤں نے انہیں بھی دل سے قبول نہ کیااور باوجوداس کے کہ یہ ہندوستانی مسلمان یہاں کے مقامی لوگ ہیں اور”دھرتی ماتا“پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہندؤں کا مگرہندوتعصب اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے۔
.
ان ایک ہزارسالوں میں جب مسلمانوں کی حکومت رہی ہندواقوام بہت خوشحال رہیں،انکے مذہبی مقامات محفوظ رہے،انکی مقامی روایات اسی طرح جاری رہیں جس طرح کبھی انکے اپنے مذہبی بادشاہوں کے دور میں ہواکرتی ہوں گی،انکی مذہبی رسومات اورمقدس ایام ان کے اپنے طریقے کے مطابق پورے ہندوستان میں منائے جاتے رہے۔پوری تاریخ میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی مسلمان بادشاہ نے انہیں پریشان کیا ہوبلکہ اس حد بھی تاریخی شواہد ملتے ہیں کہ بعض مسلمان حکمرانوں کی حکومتی پالیسیوں میں ہندو بہت اندر تک دخیل رہے اور اقتدارمیں براہ راست نہ سہی بالواسطہ طور پر ضرور شریک رہے اور مسلمانوں سے زیادہ اثرورسوخ کے حامل رہے۔لیکن اس سب کے باوجود وہ محض ہندو ہی رہے اور ان میں روشن خیالی کی تھوڑی سی جھلک بھی نمایاں نہ ہو سکی۔انگریزوں کی آمد کے موقع پر ہندوؤں کا فرض تھاکہ جس گائے کا دودھ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر پیتے رہے ہیں اب اسکے دفاع میں بھی مسلمانوں کا ساتھ دیں لیکن انہوں نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں سے کھلا کھلا اظہار لاتعلقی کر دیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے ہر داڑھی والے کو پکڑ کر دہلی کے درختوں لے لٹکا کر پھانسی دے دی یہاں تک کہ درخت کم پڑ گئے اور انگریزوں کو الگ سے پھانسی گھاٹ بنانے پڑے۔ہندواقوام انگریز کی آمد سے بھول گئیں کہ ان کی ”دھرتی ماتا“پر کسی اور نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے اور انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر خوب خوب ظلم ڈھاتے رہے۔
.
انگریز کے دور میں جب انتخابات کے نتیجے میں کچھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت بنی تو اب ان ہندؤں کے پاس موقع تھا مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور کے احسانات کی قدر کرتے لیکن انہوں نے حکومتی طاقت کو پوری شدت سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا،مسلمانوں کے شعائر پر پابندی لگائی اور مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی ہندوؤں کی مذہبی رسومات اور مقدس ایام پر اسی طرح کے رویے کا اظہار کریں جس طرح کہ انکے اہل مذہب کرتے ہیں۔ہندؤں کے اس رویے سے بہت سے مسلمان راہنما جو اب تک ہندومسلم اتحاداور وطن کی بنیاد پر قومیت کے حق میں تھے وہ تیزی سے بدظن ہوئے اور انہوں نے ہندؤں کا ساتھ چھوڑ دیااور سمجھ لیا کہ ہندوکبھی بھی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کو ساتھ نہیں رکھ سکتے اور یہ کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں وطن سے نہیں بنتیں۔ہندوؤں کے رویے نے انکی ”دھرتی ماتا“کو تقسیم کرادیا،اب پھر ہندوؤں کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ دل سے اس تقسیم کو قبول کرتے اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی گزشتہ زیادتیوں کا ازالہ کرتے،لیکن ہندوستان کی نئی حکومت کے پردھان منتریوں نے بیانات دینے شروع کیے کہ پاکستان بہت کم مدت کے بعدختم ہو جائے گا اور ”اکھنڈبھارت“کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔یہی نہیں بلکہ ہندوستان نے ایک وفد ملک اسپین کی طرف بھیجا جہاں آٹھ سوسالوں تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔اس وفد نے کئی ماہ وہاں رہ کر اس بات کاتفصیلی مطالعہ کیا کہ یہاں سے مسلمانوں کی نسل تک کو کیسے نابود کر دیا گیااور واپسی پر اس نے اسی مقصد کے لیے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کیں۔
.
دو بار بھارت نے حملہ کرکے تو پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کی،دوسری بار پاک فوج توبدترین شکست کھا گئی لیکن بھارت کو اس بات کا شدید احساس ہو گیا کہ پاکستانی قوم کو شکست دینا ممکن نہیں ہے،انہوں نے پاکستان تو توڑ دیا لیکن پاکستانی قوم کو نہ توڑ سکے،انہوں نے زمین کے ٹکڑے تو کر دیے لیکن دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔بھارت نے ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستانی قوم کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی سیاسی قیادت پوری دنیا کے سامنے ڈٹ گئی پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں میں ان سے زیادہ طاقت کے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری قوم اپنی قیادت کی پشت پر تھی۔جب ہر میدان میں شکست خوردہ بھارت کو یقین ہو گیا کہ پاکستانی قوم ناقابل تسخیر ہے تو اس نے آخری حربہ آزمایااور پاکستان پر ثقافتی یلغار کردی۔فحاشی و عریانی اور موسیقی و آوارگی کا ایک سیلاب ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے امڈتا چلا آ رہاہے،ڈش،کیبل،کیسٹ اور نیٹ کے ذرائع سے اس سیلاب کے سامنے کوئی بند باندھنا نوجوانوں کے لیے شاید ممکن نہیں یا پھر بہت ہی مشکل ہے۔بھارت نے اس بات پر عمل کیا ہے کہ جس قوم کو فتح کرنا ہو اسکے نوجوانوں کا اخلاق بگاڑ دو۔بھارت کی لیڈر سونیاگاندھی کااسی نوعیت کا ایک بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم نے تلوار کی بجائے ثقافتی یلغارسے پاکستان کو فتح کر لیا ہے۔
.
اس ملک کا دفاع پاکستانی قوم نے خود کرنا ہے،کسی دوسری طاقت سے یہ توقع لگانا عبث ہے،وہ داخلی طاقت ہویا خارجی آزمائے ہوئے کو آزمانابے وقوفی ہوتی ہے۔ہمیں پہلے اپنی نسلوں کو باور کرانا ہوگا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے،ہمارا اخلاق اور ہماراماضی بگاڑنے کے ساتھ ساتھ اب وہ ہمارے مستقبل کے درپے ہے کہ پانی بند کر کے تو پاکستانیوں کو بھوکا مار دیا جائے۔وہ ہمارا ایمان بھی خراب کرنا چاہتا ہے کہ عریانی و فحاشی کے ذریعے پاکسنانی معاشرے کو ناجائزتعلقات کامعاشرہ بناکر ان کا ایمان ختم کر دیا جائے۔جو کھانا،پانی بندکردے اور ایمان بگاڑنے پر تل جائے وہ ہمارا دوست قطعََا نہیں ہوسکتاوہ ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہی ہے۔اپنے ملک اور اپنی قوم کے دفاع میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری جڑیں مذہب میں پیوستہ ہیں۔1965کی جنگ کے آغاز پر جنرل ایوب خان نے کلمہ پڑھ کرلڑائی کاآغازکیاتھا اور اسکا نتیجہ قوم کے سامنے ہے،1971 کی جنگ میں جنرل یحی خان قزلباش نے کہا تھا کہ اپنی قوم کے لیے،وطن کے مٹی کے لیے اور اپنی نسل کے لیے لڑو تو اسکا ذلت آمیز نییجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ہم نے جب بھی مذہب کو پس پشت ڈالا سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔وطن کو اپنی ماں قرار دینا ہندؤں کا عقیدہ ہے،ہندؤں کے ہاں وطن کو بت بناکر پوجاجاتاہے۔مسلمانوں کے سب انبیاء نے اپنے وطن کی قربانی دی ہے،ہمیں اس ملک سے محبت ہے،پیار ہے صرف اس لیے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بناہے اور یہ اسلام کا قلعہ ہے،انہیں بنیادوں پر ہم اس ملک کا دفاع کر سکتے ہیں اورانہیں بنیادوں پر ہی یہ ملک باقی رہ سکتا ہے اورانہیں خطوط پر ہی اس ملک وقوم کی ترقی کاانحصارہے۔دینی شعائرکامذاق اڑانے والے اور تاریخ اسلام سے لاتعلقی کااظہارکرنے والے جن حکمرانوں نے مذہب کو چھوڑ کر”سب سے پہلے پاکستان“کانعرہ لگایا،آج تاریخ ثابت کررہی ہے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے پاکستان کو نقصان پہنچاکر وطن عزیزکو کشت و خون کی ہولی میں دھکیل دیا۔”پاکستان“ایک نظریے کی بنیادپروجودمیں آیاتھااور یہی نظریہ اس کی بقاوسلامتی و دفاع کاضامن ہے۔
.
اپنے ملک کے دفاع کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اجماعی طور پر بھارت سے درآمد شدہ ثقافت سے انحراف کرے،بھارتی چینلزکا بائکاٹ کیا جائے،ہندووانہ تہذیب و ثقافت سے اپنی نسلوں کو دور رکھا جائے،انکی مصنوعات کے استعمال سے گریز کیا جائے،انکی فلموں اور ڈراموں سے پھوٹنے والی رسومات کو اپنی معاشرت سے دور بہت دور رکھا جائے اور بھارت میں موجود مسلمانوں کو اپنے جسم کا حصہ سمجھا جائے ہر مشکل وقت میں انکے شانہ بشانہ کھڑے ہوا جائے،بھارتی فوج جب بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی کاروائی کرے تو پاکستان کے مسلمان یہ باور کرائیں کہ بھارتی مسمان تنہا نہیں ہے پورا پاکستان اور سب مسلمانوں کے دل ان مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے نسل نوکا تعلیمی نصاب قومی و ملی تقاضوں کا آئینہ دار ہو انہیں پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کاغلام بنانے والی سیکولرتعلیم کی بجائے قومی زبان میں تیارکردہ معرفت رب و معرفت نفس سے آگاہی کانصاب پڑھایاجائے۔دنیا کے نقشے ایک صدی میں کئی کئی بار بدلتے ہیں،آج مسلمانان پاکستان اپنے مشرقی دشمن کو پہچان کر اسکے خلاف صف آرا ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ موجودہ ہندوستان میں اگست 1947کی تاریخ ایک بار پھر دہرا دی جائے اور پاکستان اس قابل ہو جائے کہ 1971کا بدلہ چکا دے۔
sajid _islamabad@yahoo.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
27526