Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مولانا فضل الرحمان کا پاکستان پر حملہ…….. تحریر: تقدیرہ اجمل

شیئر کریں:

………………………………………………………………………………………………………ادارے کا مراسلہ نگارکی رائےسے متفق ہوناضروری نہیں!
.
جمعیت علمائے اسلام ہند کی کانگرس نوازی اور قیام پاکستان کی مخالفت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو برا بھلا کہنا اور اپنی اندرونی محفلوں، مجلسوں اور میٹنگوں میں گالیاں دینا اس جماعت کا وطیرہ رہا ہے۔ پاکستان میں منتخب حکومتوں کو کمزور کرنے اور مارشل لاؤں کے لیے راہ ہموار کرنے میں بھی یہ جماعت ہمیشہ پیش پیش رہی اور آمروں کے علاوہ پاکستان مخالف قوتوں سے بھاری معاوضے وصول کرتی رہی۔
.
پاکستان بنا تو مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود نے فرمان جاری کیا کہ خدا کا شکر ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ اسی طرح مفتی صاحب نے جہاد آزادی کشمیر کو فساد قرار دے کر اپنے مسلکی طبقے کو جہاد آزادی کشمیر میں شمولیت سے منع کردیا۔ ضلع نیلم اور مظفرآباد کے لوگ جانتے ہیں کہ کرناہ کے قادیانیوں اور نیلم اور مظفرآباد کے پیرزادہ خاندان سمیت علمائے دیو بند نے کانگرس اور نیشنل کانفرنس کاساتھ دیا اور کشمیریوں کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنے میں نہرو اور پیٹل کی بھرپور مدد کی۔وادی نیلم کے پیرزادہ غلام مصطفے شاہ اہل دیو بند کے صدر اعلیٰ تھے اور علاقہ نیلم، مظفرآباد اور ٹیٹوال میں ان ہی کا حکم چلتا تھا۔ کرناہ اور ٹیٹوال کا راجہ شیراحمد خان قادیانی مذہب اختیار کرچکا تھا اور اس کے علاقہ کے سادات بھی احمدی فرقے سے منسلک تھے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ اور انگریز حکومت کے مراعات یافتہ تھے جس کی وجہ سے کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتا تھا۔
.
تحریک آزادی کشمیر 1947-48میں ان لوگوں نے مہاراجہ کشمیر کا ساتھ دیا مگر حضرت صاحب دواریاں شریف مولوی برکت اللہ جھاگویؒ اور حضرت میاں نظام الدینؒ کیاں شریف مرشد پاک عزت پیر نذیر احمد موہڑہ شریف کے مرید ین نے جہاد کشمیر میں بھرپور حصہ لے کر علمائے دیو بند اور قادیانیوں کے منصوبے خاک میں ملا دیے۔ پیرذادہ غلام مصطفےٰ شاہ بھاگ کر لاہور چلا گیا تو نہرو نے وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان سے ذاتی درخواست کی اور دلی سے طیارہ بجھوا کر اسے سرینگر روانہ کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ قدرت نے اسے سرینگر پہنچنے سے پہلے ہی واصل جہنم کیا اور طیارہ بادلوں کی لپیٹ میں آکر پیر پنجال کے مقام پر پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔
.
مولانا فضل الرحمن جیسے آزادی مخالف شخص کو دس سال تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنانے والے نہ تو کشمیریوں کے ہمدردہیں اور نہ ہی انھیں آزادی کشمیر سے کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کا تعلق وادی جہلم سے ہے اور ان کے والد راجہ حید رخان تحریک آزادی کشمیر کا حصہ تھے۔ فاروق حیدر کھکھہ، کھش اور ناگ قبیلے اور دنیا کی قدیم ترین تہذیب (ناگ) کے وارثین سے ہیں مگر چند روزہ اقتدار اور میاں برادران کی محبت اور وفاداری میں وہ اپنے خاندانی، روحانی اور تہذیبی ورثے کو خیر آباد کہہ کر اپنے سیاسی آقاؤں کی محبت میں فضل الرحمن جیسے لوگوں کی کشتی میں سوار پاکستان مخالف قوتوں کے حامی و مدد گار ہیں۔
.
مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنانے والے کشمیریوں کے خون سے غداری کے مرتکب اور اسی لاکھ کشمیریوں کو اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے والوں کے ہمنواہیں۔ جناب شاہنواز بھٹو کا جونا گڑھ منصوبہ درحقیقت کشمیر سے جان چھڑانے کا منصوبہ تھا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کا پولینڈ کی قرارداد پھاڑنے اور پہلے تاشقند کے راز افشاں کرنے کا نعرہ پاک فوج کی تذلیل، بنگلہ دیش بننے کی راہ سے آخری رکاوٹ ہٹانے اور کشمیر اور کشمیریوں سے جان چھڑانے کی چال تھی۔مرحوم مفتی محمود کے بیانات ڈاکٹر اجمل نیازی، جناب سلمان کھوکھر اور جناب اثر چوہان اور دیگر محب وطن قلمکار کئی بار دھرا چکے ہیں۔ عوام کو مفتی محمود کے صاحبزادے کی پاکستان اور کشمیر مخالف منصوبہ بندی سے ہی نہیں بلکہ جناب شاہنواز بھٹو سے لے کر آصف زرداری اور سر ظفراللہ خان چوہدری، جنرل ایوب، سکندر مرزا اور میاں برادران کی پاکستان اور کشمیر مخالف پالیسیوں سے آگاہ کرنے اور بار بار دھرانے کی ضرورت ہے۔
.
لکھنے اور بولنے والوں میں اکثریت ویسی ہی ہے جیسے سیاستدان اور حکمران ہیں۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پہلی ترجیح دولت اور شہرت کا حصول اور عوام کو اصل حقائق سے بے خبررکھ کر انہیں اپنی سوچ و فکر کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ سیاست دان طبقے کی اکثریت کا تعلق جاگیر دار گھرانوں، کارخانہ داروں، صنعت کاروں، مافیا جات، جرائم پیشہ لوگوں، مذہبی سیاسی گھرانوں اور پاکستان مخالف بھارت نواز سیاسی دھڑوں سے ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ستر سالوں سے پاکستان کے و سائل کو لوٹنا، عوام کو مختلف حربوں اور چالوں سے بیوقوف بنانا اور ملکی اداروں کو کمزور کرنا سیاستدانوں اور ان کی ہم نوا بیورو کریسی اور مذہب کی آڑ میں چانکیائی اور میکاولین سیاست کرنے والے بھارت اور کانگرس نواز علماء کا وطیرہ رہا ہے اور یہی ان کا اصل مدعا و منشور ہے۔
.
مرحوم عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سیّد، اکابرین دیو بند اور ان کے پیرو کار تقسیم ہند کے مخالف، قائد اعظمؒ کے دشمن اور لفظ پاکستان سے نفرت کرتے تھے۔ ان ہی جماعتوں اور ان کے قائدین نے روز اوّل سے ہی گاندھی،نہرو، پٹیل، وائسرائے ہند اور مہاراجہ کشمیر کی خوشنودی کے لیے غدار کشمیر شیخ عبداللہ کو شیشے میں اتارا اور مسئلہ کشمیر کی بنیاد رکھتے ہوئے نیشنل کانفرنس کی صدارت میں تقسیم کشمیر کا فارمولہ پیش کیا۔
.
امن کی آشا کے مبلغین اور مجیب الرحمن کے مُحبین پوری قوت سے متحرک ہیں اور مولانا فضل الرحمن کا ماضی جانتے ہوئے بھی ملک دشمنی کے راستے پر گامزن ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے خاندان اور جمعیت علائے ہند کے پاکستان مخالف نظریے اور دشمنی سے کون واقف نہیں۔ضروری ہے کہ پاکستانی قوم خاص کر نوجوان نسل کو ملک دشمن صحافتی حلقوں، مذہب کی آڑ میں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی بد خواہشات کی تکمیل کرنے والوں کی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا جائے اور ملکی سا لمیت اور امن کو فروغ دیا جائے۔
.
کسی بھی طبقے یا ادارے میں سبھی لوگ ہم خیال نہیں ہوتے۔ مسلک، مذہب، سیاست، کاروبار، عزت و آبرو، خاندانی روایات اور دوسری کئی مجبوریاں آڑے آتی ہیں جس کی وجہ لوگ سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں اور ان کے گھرانوں سے جڑے رہتے ہیں۔ جناب ضیاء شاہد نے اپنی تصنیف ”نواز شریف میرا دوست“ میں درجنوں واقعات لکھیں ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کس طرح اپنے سیاسی مخالفین پر بابو وارث نامی غنڈے اور سعد رفیق کی ڈنڈا فورس کے ذریعے ظالمانہ تشدد کرواتے اور ان کی تذلیل کرتے تھے۔سیاسی مخالفین کے علاوہ ہر سرکاری ادارے کا سربراہ ان کی مرضی سے تعینات ہوتا اور ان کی مرضی سے ہی کام کرتاتھا۔ ادارے کا سربراہ ہی اپنے ماتحتوں سے ملکی قوانین کے مطابق کام لیتا ہے اور انہیں آئین و قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے تحفظ مہیا کرتا ہے۔ جب ادارے کا سربراہ کسی خاندان کا ذاتی ملازم ہو تو ماتحت افسر اور عملہ یا تو ذلیل و خوار ہوتا ہے یا پھر آئین و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرپشن کے گندے جوہڑ میں چھلانگ لگا کر مالا مال ہو جاتا ہے۔

ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ بابو وارث بدمعاش آخری عمر میں میرے پاس آتا تھا اور اکثر روتا رہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ میری بخشش کے لیے دعا کریں۔ میں اپنے جرائم قبول کرتا ہوں۔ شریف خاندان کے کہنے پر میں نے سرکاری افسروں اور ان کے سیاسی اور کاروباری مخالفین پر تشدد کیے۔
.
بابو وارث نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے حکم دیا کہ ان کی پارٹی کی ایک خاتون جو اِن کے حلقہ اثر سے نکل کر مخالف کیمپ میں جارہی ہے اسے سبق سکھاؤ۔ میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ میاں صاحب نے کہا پھر ایسا کرو کہ اس کے ہاتھ پاؤں اور شلوار کے پائنچے باندھ کر شلوار میں چوہے چھوڑ دو۔ دو منٹ میں مان جائے گی۔ ضیا شاہد لکھتے ہیں کہ بابو وارث نے تو یہ کام نہ کیا مگر حیرت ہے کہ اس عورت کا بیٹا آجکل میاں برادران کا سب سے بڑا بھونپو ہے۔ اس خاتون کے بیٹے کی بھی مجبوریاں ہوں گی ورنہ کوئی بیٹا، بھائی اور خاوند ایسی تذلیل برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ جب ایسے مجبور لوگ معاشرے اور ریاست میں اعلیٰ سیاسی، سماجی اور کاروباری مقام پر فائز ہو جائیں تو غیرت، عزت و آبرو اور خاندانی وقار و روایات خود بخود دم توڑ دیتی ہیں۔
.
جب وکیلوں کی فیسیں، دواؤں کے بل، روٹی کا حصول ناممکن ہو۔ جب عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہوں۔ جج سیاستدانوں کی مرضی و مشاورت سے تعینات ہوں اور ملکی اداروں کے سربراہ سیاسی گھرانوں کے ذاتی ملازم ہوں تو عزت و غیرت بے معنی اور آئین و قانون بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ لوگ غنڈوں کو جج اور منصف اور ان کے سرپرست سیاستدانوں کو بھگوان سمجھ کر پوجتے ہیں اور ان کی مرضی کو تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ ستر سالوں سے جاری یہ پریکٹس اب اپنے عروج پر ہے۔آٹھارویں آئینی ترمیم اور میثاق جمہوریت اس سلسلہ کی اہم کڑی ہیں اور مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد پر حملہ ستر سالہ پاکستان مخالف قوتوں کا مشترکہ مشن ہے۔ مولانا فضل الرحمن مذہب نہیں بلکہ نفرت کے ہتھیار سے پاکستان پر حملہ آور ہے جسے بھارت اور دیگر پاکستان اور اسلام مخالف قوتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔مولانا فضل الرحمان کے ایک ماتحت افسر مفتی کفایت اللہ نے فرمایا کہ مذہب کا کارڈ پاکستان کی بنیاد ہے۔ مولانا کفایت اللہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ جب مذہب پاکستان کی بنیاد تھا تو آپ کے اکابرین اور قائدین اسے گناہ کیوں کہتے تھے۔ گاندھی،نہرو، پٹیل، مولانا آزاد اور ماؤنٹ بیٹن کے مشن کو مذہبی فریضہ سمجھ کر بانی پاکستان کو گالیا ں دیتے اور لفظ پاکستان سے نفرت کیوں کر تے تھے۔کیا جہاد کشمیر کو فساد قرار دینے والوں کی اولاد کو آزادی مارچ زیب دیتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ جس میں باچا خان اور عبدالصمد اچکزئی کے مقلدین بھی شریک ہیں جن کے دریائی جلوس پر اہل کشمیر نے جوتے اور گندگی کے تھیلے پھینکے تھے آج اپنے بذرگوں کی بے عزتی کا بدلہ لینے اسلام آباد پر حملے کی تیاری کررہے ہیں۔اہل کشمیر کوآنکھیں،کان او ردل کے دروازے کھول کر اس سازش پر نظر رکھنی ہوگی۔مولانا اور اُن کے حواری اپنے ذاتی،مسلکی،کاروباری اور خاندانی مفادات پر ملکی اور قومی مفادات کاسودا کرچکے ہیں۔وہ پاکستان مخالف قوتوں کو آزادکشمیر پر حملہ آور ہونے اور امریکہ سمیت مغربی اور مشرق وسطیٰ کے کاروباری اداروں اور خاندانوں کو کشمیر بزنس میں شرکت کا موقع فراہم کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
.
ستر سالوں سے امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ پاکستان اسے گلگت بلتستان اور کشمیر کے سنگھم پر واقع ایشیأکا بلند ترین مقام دو سائی سو سالہ لیز پر دے۔ پشاور میں واقع بڈھ بھیر کا ہوائی اڈہ امریکہ کے حوالے کرنے کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ امریکی جاسوس طیارے U-2کی سنٹر ل ایشیأ میں تباہی، کرنل گیری کا سویت یونین میں زندہ اترنااور پھر سب سے بڑھ کر افغان ایئر فورس کے کرنل داؤ د کا بھیس بدل کر بڈھ بھیر میں داخل ہونا اور امریکی طیارے کے نظام میں خلل پیدا کرنااورپاکستان کی سا لمیت کو داؤ پر لگانا ایسے اسباق ہیں جو کاروباری سیاستدانوں کے لیے تو کوئی اہمیت نہیں رکھتے مگر اہل پاکستان خاص کر نوجوان نسل کو ایسے واقعات کو جاننا اور امریکی مفادات کی خاطر ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانے والوں کی سازشوں سے باخبر رہنا ہوگا۔امریکہ بڈھ بھیر کی طر ح دوسائی کو چین اور روس کے خلاف بیک وقت استعمال کرنا چاہتا تھا۔تب بھارت بھی سویت کیمپ میں تھا اور امریکی مفادات کے راستے کی رکاوٹ تھا۔وہ کام جو ماضی میں پاکستان نے مجبور اً نہ کیا اسے نواز شریف اور زرداری کرنے کو تیار ہوگئے۔
.
مودی نے امریکی آشیر باد حاصل کی تو اسے سعودی عرب سمیت عرب ملکوں کی حمایت حاصل ہوگئی۔ سعودی عرب اور عرب امارات نے بھارت میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ وہ علاقے جہاں عرب ممالک اور امریکی اتحادیوں نے سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کی اس میں کشمیر سر فہر ست ہے۔کشمیر کے مختلف علاقوں میں چین اورپاکستان مخالف پراپیگنڈ ہ مراکز کے قیام کے علاوہ مغربی طرز کے کلب،کیسونو،سیاحتی مراکز، فائیو او رسیون سٹار ہوٹل،ماؤ نٹین اینڈ ٹریکنگ کلب، زرعی فارم،باغات، پھل اورسبزیاں محفوظ کرنے کے کارخانے،مصنوعی جھیلیں،ایئر پورٹ شاپنگ مال اور دیگر منصوبے شامل ہیں جو کشمیر پر بھارت کے مکمل کنٹرول کے منتظر ہیں۔
.
شریف خاندان کے علاو ہ زرداری گروپ اور ان سے منسلک پاکستانی کاروباری طبقہ اور پاکستان مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی بھارت کے اس منصوبہ میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔ کچھ براستہ دبئی، لندن،پیرس اور واشنگٹن اور کچھ براستہ سعودی عرب اس کاروباری ونچر میں شامل ہیں تو کچھ ڈائریکٹ مودی اور جندال کے مشن کا حصہ ہیں۔
.
مودی کارگل کے علاوہ دم چوک کے قریب امریکہ کو ہوائی اڈہ بنانے کی سہولت پیشکش کرچکا ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یہ منصوبہ بندی کوئی نئی بات نہیں۔ امریکہ سے پہلے برطانیہ اور اس کے اتحادی ایک صدی تک اس گریٹ گیم کاحصہ رہے جسکی ابتدا سرا لیگزنڈربرن کے بخارا مشن سے ہوئی جس میں کشمیر اور افغانستان سمیت سندھ، بلوچستان پنجاب اور سابقہ صوبہ سرحد کے والیان ریاست اور خوانین اہم پلیئر تھے۔
.
مشہور برطانیوی مورخ اور محقق پیڑہوپ کر ک کی تنصیف ”گریٹ گیم بائی سیکرٹ سروسز ان ہائی ایشیا“ اس سلسلے کی اہم اور مستند دستاویز ہے۔
تاریخ اور مفاداتی سیاست کا مطالعہ کرنے والے اس بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ، مذہب اور مسلک کی آڑ میں گریٹ گیم کا حصہ ہے جسکا حدف پاکستان ہے۔بدقسمتی سے کاروباری اور پاکستان مخالف سیاسی گھرانو ں سمیت دنیا بھر کی پاکستان اور چین مخالف قوتوں کی مولانا فضل الرحمان کو مالی،سیاسی، صحافتی اور مفاداتی حمایت حاصل ہے۔سیاسی خاندانوں اور ان کی مفاداتی چالوں سے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔
.
سیاسی کاروباری خاندانوں کے کھربوں ڈالر اور جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں جو اُن کی آنیوالی پچاس نسلوں کے لیے کافی ہیں۔پاکستان کا غریب اور متوسط طبقہ جو کل آبادی کا98فیصد ہے وہی اپنے سیاسی آقاؤ ں کی مفاداتی سیاست کا شکار ہوکر بھارت کی غلامی میں چلا جائیگا۔عوام الناس اور خاص کر وطن دوست میڈیا کو مولانا کے پاکستان کی سا لمیت پر حملے کا حصہ دار نہیں بننا چاہئیے اورعمران خان دشمنی کی آڑ میں پاکستان دشمنی سے الگ ہوکر ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہئیے۔
muhammaddanishgondal@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
27508