Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پروفیسر ڈاکٹر جمیل چترالی کی 21 گریڈ میں پروموشن

شیئر کریں:

تحریر: #ظفراحمد
اویر چترال سے تعلق رکھنے والے جامعہ پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل چترالی گریڈ 21 میں فُل پروفیسر پروموٹ ہو کر دوبارہ سے اپنے brain -child انسٹیٹوٹ جامعہ پشاور کے انسٹیٹوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز جوائن کر لیے۔ 43 سال کی عمر میں فُل پروفیسر بننے والے جمیل چترالی غالباً صوبے کے کم عمر ترین پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ماسٹر اور ایم فیل بشریات جبکہ پی ایچ ڈی سوشیالوجی میں school based gender violence کے عنوان پر کی ہیں اور شعبہ بشریات میں پروفیسر کے خدمات سر انجام دیتے آئے ہیں۔ آپ نے ابھی تک سماج سے متعلق چالیس سے زیادہ مقالے شائع کیے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جمیل چترالی کو پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن (پیوٹا) کے کم عمر ترین صدر رہنے کا بھی اعزاز حاصل ہے، آپ چار مرتبہ پیوٹا کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے دوران صدارات جامعے کے لیے گران قدر خدمات سر انجام دیے جن میں یونیورسٹی کے لیے 23 کروڑ فنڈز، یونیورسٹی کے لیے 15 نئی ہائی ایس بسوں کی خریداری، یونیوسٹی آف پشاور ایکٹ 2011 اور خیبر پختوانخواہ ماڈل ایکٹ 2012 کی منظوری قابل ذکر ہیں۔ ان سب سے بڑ کر جامعہ پشاور کے انسٹیٹوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز کا قیام جمیل چترالی کے خدمات میں سب سے نمایان ہے۔

ڈاکٹر صاحب تحقیق و تدریس کے علاوہ اپنے کیرئر کے ابتدائی دنوں میں پشتو کے کئی مقبول ڈراموں میں بھی کام کیے ہیں۔ آپ خان عبدلغفار خان عرف باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ سماجیات کے پروفیسر ہونے کے ناطے جمیل صاحب کی دلچسپی ہمہ گیر موضوعات بشمول سیاسیات، فلسفہ، سماجی مسائل بشمول موجودہ دور میں تشدد کی وجوہات، صنفی تشدد، پیس، وغیرہ پر ہیں۔

ڈاکٹر جمیل ایک روشن خیال اور ترقی پسند علمی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں سماج کو درپیش مسائل پر درجنوں انٹرنیشنل اور نیشنل سیمنارز اور کانفرنس میں تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں جبکہ قومی سطح پر انسانی حقوق اور دوسرے سماجی مسائل پر منعقدہ پروگرامز میں ایکٹیولی شرکت کرکے سیر حاصل بحث کرنے والوں میں ڈاکٹر صاحب ایک جانے پہچانے نام ہیں اور نظام تعلیم میں بہتری کے لیے ہر متعلقہ فورم پر آواز اٹھائے ہیں۔ جمیل چترالی ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے لیے تشدد کے خاتمے، برداشت، اختلاف رائے و نظریے کا احترام، صنفی امتیاز کے خاتمے، انسانی ذہن کی آزادی اور تحقیق کے کلچر کی پروموشن کو ضروری قراردیتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریںTagged
27086