Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت اوراسکے پڑوسی ممالک (4) بھارت اور بنگلہ دیش….. ڈاکٹرساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

14اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے موقع پر مشرقی پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سرحدکے تعین میں بہت سے سقم رہ گئے تھے۔متعدد سرحدی قصبے ایسے تھے جن کے درمیان سرحدکاگزرناجغرافیائی طورپریا معاشرتی و سماجی حوالے سے انتہائی نامساعد تھا،چنانچہ دونوں ممالک ان قصبوں پر حق ملکیت کا دعوی کرتے رہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تو دیرینہ رقابت چلی آرہی تھی،لیکن بنگلہ دیش کوبھی 190سے زیادہ محصور علاقوں کے تنازعات وراثت میں ملے جن میں اکثر ابھی تک حل طلب ہیں۔خطے کے دیگر ملکوں کو انگریزنے آزادی دی چنانچہ ان خطوں کا بھارت سے اختلاف تو سمجھ میں آتاہے لیکن بنگلہ دیش کاقیام ہی بھارتی فوج کی چھتری تلے عمل میں آیا،بھلا بھارت سے بنگلہ دیش کے اختلافات چہ معنی دارد؟؟؟۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھارت کے اندر بسنے والے برہمن کے ہم مذہب اور غیر مذہب کے لوگ ہی مطمئن نہیں ہیں تو دوسرے گھر کے لوگ اس پڑوسی سے کس طرح تسلی وسکون حاصل کرسکیں گے۔

اپریل 2001میں یہ سرحدی تناؤ اس حد تک بھڑکاکہ دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے آ گئیں اور بعض مورچوں پر جھڑپیں بھی ہونا شروع ہوئیں۔بنگلہ دیش کی سرحد پر ضلع سلہٹ میں ”پادھیوا“نامی ایک قصبہ واقع ہے،اس قصبے کی سرحدیں بھارتی ریاست ”میگھالیہ“سے ملتی ہیں۔یہ وہی قصبہ ہے جہاں 1971میں پاکستان پر نقب لگانے کے لیے بھارتی فوج نے اپنے خیمے نصب کیے تھے۔اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی قصبے میں مکتی باہنی کے تربیتی کیمپ لگائے گئے تھے جہاں انہیں ہم وطنوں کے انتہائی بے دردی اور انسانیت سوز مظالم کے ساتھ قتل کرنے کی دہشت گردانہ تربیت دی گئی تھی،جس کامظاہرہ مکتی باہنی نے البدر اور الشمس کے نہتے نوجوانوں پرپوری قوت اور شدت کے ساتھ کیا۔وقت بدلتے کوئی دیر نہیں لگتی،اسی قصبے میں ہی 15سے 19اپریل 2001کے درمیان بنگلہ دیشی سرحدی افواج کا بھارتی سرحدی افواج سے ٹکراؤ ہوا۔ واقعہ یہ ہے بھارتی فوج نے 1971میں ”پادھیوا“میں اپنا اپریشن مکمل کرنے کے بعد وہاں سے کوچ کرنے کی بجائے وہیں پر ایک مستقل اپنی چوکی بنا لی۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ مسلمان کتنا ہی کافر کے ساتھ گھل مل جائے اور کافروں کے مقابلے میں اپنوں سے کتنی ہی بڑی غداری کا مرتکب نہ ہو جائے،کافر کادل مسلمان کی طرف سے کبھی صاف نہ رہے گا۔ایک طویل مدت کے بعد اس وقت کے بنگالی فوجی سات فٹ طویل قد کے حامل افسر میجر جنرل فضل ا لرحمن نے ایک اخبار نویس کو مکالمے کے درمیان بتائی کہ2001ء میں بھارتی سرحدی فوج نے ”پادھیوا“نامی بنگلہ دیشی قصبے میں اپنی چوکی اور بھارتی علاقے میں موجود اپنی فوجی چھاؤنی کے درمیان جو کم و بیش دس کلومیٹردور تھی ان دونوں کے درمیان پختہ سڑک بناناشروع کر دی تھی۔یہ فوجی افسر1971کی جنگ آزادی میں بنگالیوں کا ہیرو تھا۔بھارتی فوج کی اس بے ہودہ حرکت پر15اپریل 2001ء کو ایک ہزار کی تعداد میں بنگالی فوجیوں نے بھارتی فوج پر دھاوا بول دیااور ”پادھیوا“نامی قصبے پر قبضہ کر لیا جب کہ بھارتی افواج بھی قصبے میں موجود تھیں۔17اپریل کو میجر جنرل فضل الرحمن نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ ہم نے اپنے ہی علاقے پر قبضہ کر کے تواپنا مشن مکمل کیاہے اور اپنی سرحدی آزادی و خودمختاری کا تحفظ کیاہے۔

کھسیانی بلی کھنبے نوچے کے مصداق بنگالی فوجیوں کے اس جرات مندانہ اقدام کے بعد بھارتی فوج نے اس سرحد پر اپنے گشت میں اضافہ کر دیا۔مقصد بدلہ چکانا تھا،لیکن جب بنگالی فوج نے کوئی موقع نہ دیاتو بزدل بھارتی فوج نے گاؤں ”پادھیوا“کے دوسوکلومیٹرمغرب میں ”بوری باری“نامی قصبے پر حملہ کر دیا،جو کہ ایک غیرمتنازعہ بنگلہ دیشی علاقہ ہے۔استفسار پر بھارتی فوج نے جھوٹ بول دیاکہ کچھ شہری سرحد کی خلاف ورزی کررہے تھے جس کی خاطر یہ حملہ کیاگیاجب کہ بنگلہ دیشی حکومت نے واضع کیا کہ آسام کی سرحد سے بنگلہ دیش کے ضلع ”کری گرام“کے سرحدی گاؤں پر بھارتی فوج نے بلا اشتعال علی الصبح دھاوا بول دیا۔بھارت کا خیال تھا کہ بے خبری میں حملے سے وہ گزشتہ ہزیمت کا حساب چکا پائیں گے،لیکن بنگلہ دیشی علاقے میں داخل ہوتے ہیں بنگالی فوجیوں نے عوام کے ساتھ مل کر بھارتی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ان کے ہتھیار چھین لیے اور جھڑپ میں مرنے والے سترہ بھارتی فوجیوں کی لاشیں بھارتی فوج کو واپس کردیں۔ان لاشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارتی فوجی افسرجنرل گربچن جگت نے کہا کہ مرے ہوئے فوجیوں کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور ان کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔تین بنگلہ دیشی سپاہی شہیدہوئے اور پانچ زخمی۔اس سارے واقعے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارتی فوج کے خلاف زبردست ردعمل اگرچہ بنگالی فوج کی جانب سے تھا لیکن عوام نے اس کی بھرپور عملی حمایت کی اور شہید ہونے والے بنگالی فوجیوں کو قوم نے ہیروز کا درجہ دیا۔بھارت کے خلاف 1971کے بعدپہلی دفعہ اس قومی یکجہتی تحریک کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے قومی انتخابات میں قوم نے اس اتحادکو اکثریتی رائے سے پارلیمان میں بھیجا جس میں جماعت اسلامی جیسی بھارت مخالف جماعت شامل تھی۔اس انتخابی اتحادنے تین سومیں سے 196نشستیں حاصل کی تھیں۔اس بہت بڑے واقعے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک طویل کشمکش چل نکلی ہے،اب بھارت کی سرحدی افواج آئے دن بلاشتعال گولیاں چلاتے ہیں اور بنگلہ دیشی شہریوں کوقتل کرتے ہیں،ان کے گھروں میں گولے پھینکتے ہیں اور بنگالی افواج کا مورال پست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور بنگلہ دیش صرف احتجاج کرتاہے۔ اللہ تعالی نے چاہا تواس کشمکش کا تسلسل سقوط نئی دہلی تک جاری رہے گا۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک اور ہمیشہ تروتازہ رہنے والا مسئلہ بھارت سے بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے دریاؤں کے پانی کا مسئلہ ہے۔بھارت ان دریاؤں کاپانی روک لیتاہے اوربنگلہ دیش کوآب پاشی سے محروم رکھتاہے یا بے وقت پانی چھوڑ دیاجاتاہے اور بنگلہ دیش کی آبادیوں کو پانی میں ڈبو دیتاہے۔بنگلہ دیش نے اس مسئلہ کواقوام متحدہ سمیت سارک کے ایوانوں میں بھی اٹھایا ہے،کئی بار معاہدے بھی ہوئے اور کمشن بھی بنے لیکن بے سود۔بھارت کی اس زورآوری اور بدمعاشی کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ”گنگا“کا شہرہ آفاق دریا جو ہندوستان کے بلندوبالا پہاڑوں سے بہتاہو 129کلومیٹرتک بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحدکے یمین و یساربہتاہے اور پھر 113کلومیٹر تک صرف بنگلہ دیش میں بہتاہے۔بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد شاید بھارت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ 1974ء میں بنگلہ دیش کی سرحدسے صرف دس کلومیٹر،کم و بیش محض چھ میل دورمغربی بنگال میں ”فارکا بیراج“تعمیرکرلیاتاکہ گنگاکا پانی چرایا جا سکے اوربنگلہ دیش کو ہمیشہ کے لیے بھارت کا دست نگر رکھاجائے۔اس ڈیم کی تعمیر سے تادم تحریر جنوری سے جون تک گنگا کاپانی روک کر بھارت کے دیگردریاؤں کی طرف موڑ دیاجاتا ہے اور بنگلہ دیش میں جاری کم و بیش چھپن دریا پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں اور انتہائی خشک سالی دیکھنے کو ملتی ہے۔19مارچ 1972کو اندراگاندھی اور شیخ مجیب کے درمیان دونوں ملکوں کے مابین دوستی،تعاون اور امن کا معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کی رو سے اسی وقت ایک مشترکہ دریائی کمشن(Joint River Commission)بھی بنایا گیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کیاجاسکے۔”فارکا بیراج“کی تعمیر کے دوران اور اس کے قابل عمل ہونے سے پہلے بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا کہ پانی کے ذرائع میں باہمی اشتراک کے اصول و ضوابط طے کیے جائیں گے۔1975ء میں ایک بار پھر عبوری معاہدہ کیاگیا کہ گنگاکے پانی میں سے ایک حصہ بنگلہ دیش کو فراہم کرنے کے لیے ”فارکا بیراج“کے عمل میں توقف کیاجاتارہے گا۔لیکن1976میں بھارت اپنی روایتی بدعہدی پر اتر آیااور شیخ مجیب کے قتل اور فوجی اقتدارکا بہانہ بناکر تمام معاہدوں سے روگردانی گیا۔

پانی کا مسئلہ بنگلہ دیش کے لیے ایسا نہیں تھا کہ وہ اس پر خاموشی اختیارکر سکتا۔بنگلہ دش نے غیروابستہ ممالک کے سربراہی اجلاس میں پانی کے مسئلے کو اٹھایااوراقوام متحدہ کی جنرلاسمبلی کے کے اکتیسویں اجلاس میں اس مسئلہ کو اٹھایا۔ان عالمی اداروں پر آواز اٹھانے سے وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے کہ عالمی دباؤ کے تحت بھارت مزاکرات پر آمادہ تو ہو گیا لیکن اس کے بعد معاملہ پھر کھٹائی میں جا پڑا۔1977ء میں مرار جی ڈیسائی اور صدر ضیاء الرحمن پانی کے مشترکاتی پانچ سالہ منصوبے پر دستخط تو کیے لیکن اس پر عمل کااندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد اس کی تجدید کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی اور معاملہ جوں کا توں ہی رہا۔سارک کے ایوان میں اختلافی مسائل اٹھانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بنگلہ دیش نے ہمت کر کے وہاں بھی انسانی بنیادوں پر اس مسئلے کو اٹھایا لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکل پایا۔1996ء میں شیخ حسینہ واجد نے بھارت کے ساتھ پھر تیس سالہ معاہدہ امن و محبت کیاہے،اس کاانجام بھی یہ آسمان ضرور دیکھے گا۔قربان جائیں عوامی لیگ کی قیادت پر جو نسل در نسل ایک ہی سوراخ سے ڈسی جارہی ہے۔

بنگلہ دیش کے ایک طرف سمندرکاپانی اورباقی اطراف بھارت ہے۔ایسے میں یہ ملک آزاد بھی ہوتا تو اس کی قیادت کو کسی تیسری طاقت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنی عوام کی خودمختاری اور ریاست کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے تھا،لیکن یہ تاریخ کے عجوبے ہیں کہ پاکستان سے علیحدگی میں انہیں اپنے مسائل کا حل نظر آیا۔آج تاریخ انہیں بدترین دن دکھارہی ہے،سرحدی تنازعات اور پانی کے مسئلے تو بہت بڑے بڑے مسئلے ہیں یہاں تو آئے دن ہزاروں شہری سرحد کے اس پارآتے جاتے ہیں اور ان میں سے کتنے بھارتی توپوں سے بچتے ہیں اور کتنے اس کا شکار ہو کر برہمن کی دوستی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یہ نوشتہ دیوار ہے۔بھارت نے مشرقی پاکستان کو سازشوں سے اور بنگلہ دیش کو طاقت اور قوت کے بل پر دبارکھاہے۔بنگلہ دیش عالمی برادری میں آج تک اپنی آزاد خارجہ پالیسی سے محروم ہے،دفاع کی صورتحال اس سے بھی بدترہے۔بھارت جب چاہتاہے بنگلہ دیش کو معاشی خوشحالی کا وقتی جھانسہ دے کراپنے مفادات کھرے کر لیتاہے۔بنگلہ دیش کی نئی نسل بڑی تیزی سے بھارت کے خلاف صف آراہورہی ہے۔خاص طور پر بھارت کے ایماء پر بزرگ سیاستدانوں اور علمائے دین کی پھانسیوں نے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات تک میں بھارت کی مداخلت کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔اور بھارت کی عوام بہت جلد اس کا زبردست ردعمل دینے کو ہے،بس صبر کے کچھ دن اور ہیں کہ برہمن کا سحر ٹوٹا کہ ٹوٹا،انشاء اللہ تعالی۔
drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26699