Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مشن کشمیر اور اسے وابستہ اُمیدین………… محمد آمین

Posted on
شیئر کریں:

مسلہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی دھائیون سے تنازعے کا سبب بنا ھوا ھے اور اس کی حل نہ ھونے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کے دونون جوہری طاقتون کے معاشی اور اقتصادی ترقی اور باھمی تعلقات بھی بہت متاثر اور تناؤ کا شکار بنے ہوئے ہیں۔مسلہ کشیر دینا کا وہ واحد ایشو ھے جو آقوام متحدہ کے تقریبا 15 قراردادون کی منظوری کے باوجود تا حال کسی پیش رفت سے دوچار نیہں ہوسکا ھے اور حالت جون کا تون پڑا ھوا ھے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں خطاب اور وھاں موجود سفارتی مصروفیات
( Engagements) اور کوششون کو مشن کشمیر کا نام دیاگیا تھا تاکہ ھندوستان نے جس بے دردی سے آرٹیکل 270 آیئن سے نکال کر مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حثیت ( autonomous status) کو ختم کرکے اسے انڈیا کے ساتھ ضم کرنا چاھا ھے یہ آقوام متحدہ کے منہ پر تپھڑ سے کم نیہں ھے ۔ان حالات کو سامنے رکھ وزیر اعظم پاکستان اور اسکی حکومت نے یہ فیصلہ کردیا کہ وہ اقوام متحدہ میں بھارت کے ناپاک عزائیم اور کشمیر کے نہتے مسلمانون پر ھندوستان کے فوجی دھشت گردی کو اقوام عالم کے سامنے موثر طریقے سے پیش کریں تاکہ بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ھو اور ساتھ ھی اقوام متحدہ کو یہ احساس دلادیں کہ وہ اپنے زمہ داریون اور قراردادون سے پیھچے ہٹنے کی کوشش نہ کریں۔یہ بات قابل توجہ ھے کہ کس طرح بھارت اقوام متحدہ کے قراردادون سے مختلیف بہانون سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رھاھے اور روز بروز کشمیری مسلمانوں پر ظلم تنگ ھوتے جارہے ھیں۔

ریاست کشمیر کو برٹش انڈین گورنمنٹ نے 1846ء کو ایک جنگجو( warlord) ہندو ڈوگرہ گلاب سنگھ کو پچتھر لاکھ ناناک شاھی روپے کے عوض فروخت کیا تھا اس وقت کشمیر میں مسلمانون کی آبادی 94فیصد تھی گلاب سنگھ نے بعد میں مہاراجہ کا لقب اپنایا۔یہ خاندان اپنے مسلم دشمنی کے لئے بہت مشہور تھا اور اپنے دور حکومت میں کشمیری مسلمانون پر ہر قسم کے مظالم ڈھائے یہان تک کہ گائے کی زبح پر سزا موت جیسے خوفناک سزا مقرر کیے اس کے بعد 1925ء سے لیکر 1947ء تک مہاراجہ ہری سنگھ نے 94 فیصد مسلمانون کے خلاف نہ صرف امتیازی سلوک اپنائے بلکہ وھان کی جیو پولیٹیکل سٹیٹاس کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کے باعث کشمیر کے مظلوم لوگ 1931ء میں مہاراجہ ھری سنگھ کے خلاف پہلی دفعہ ایک منظم احتجاج کے لیے کھڑے ھو گیے جس کا تسلسل 1946ء میں مہاراجہ کے خلاف کشمیر چھوڑدو تحریک ( quit Kashmir Movement ) تھا۔جس سے بعد میں رونما ھونے والے تحریک ازادی نے جنم لیے اسے یہ نتیجہ اخذ ھوتا ھے کشمیری عوام کی تحریک تقسیم ھند سے پہلے کی ھے اور پاکستان مظلوم کشمیری مسلمان بھایئوں کو صرف اخلاقی مدد فراہم کر رھی ھے ۔اور کشمیر کی ازادی کی تحریک مقامی ( indigenous ) ہے۔

یہان یہ بات قابل زکر ھے کہ جب 1947ء مین ھندوستان تقسیم ہوا تو اگست 1947ء میں کشمیر کے لوگوں اور مہاراجہ کے فوجون کے درمیان لڑائی ھوئی۔مہاراجہ ہری سنگھ 25 اکتوبر 1947ء کو بھاگ کر ھندوستان چلاگیا اور ھندوستان کے حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر الحاق کے دستاویز ( Accession of Instrument) پر دستخط کیا جو تقسیم ہند کے 3جون کے منصوبے کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی کیونکہ اس پلان کے مطابق ریاستون کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اکثریتی رائے اور جعرافیائی حالات کو سامنے رکھ کر کسی ایک ملک (انڈیا یا پاکستان) کے ساتھ الحاق کریں یا اپنی ازادی اور خود مختاری کو بر قرار رکھیں۔اس وقت کشمیر میں 70 فیصد سے زیادہ ابادی مسلمانون کی تھی اور وہ پاکستان سے الحاق چاھتے تھے اور مزید جعرافیائی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان سے ملا ھواتھا صرف وہان کا حکمران ہندو تھا۔۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو اس وقت ہندوستان کا گورنر جنرل تھا نے اس الحاق کو اس شرط پر منظور کیا کہ یہ ایک عارضی الحاق ھے اور جیسے کشمیر میں حالات بیتر ھوجائیں حتمی الحاق کا معاملہ وھان کے عوام کے اکثریتی رائے کے مطابق ھوگا۔اور اس وقت کے ھندوستان کے وزیراعظم جواھر لال نھرو نے بھی 2 نومبر 1947 ء کو آل انڈیا ریڈیو پر اعلان کردیا کہ حکومت ھند اس بات پر پابند ھے کہ کشمیر کا مسلہ استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔اور اس طرح بھارت کے حکومت نے الحاق کے مسلے کو مشروط طور پر قبول کیا۔

لیکن جیسے کشمیر میں حالات بہتر ہونے لگے تو ھندوستان کے سرکار نے تمام وعدون کو بالائے طاق رکھ کر اپنی فوج سری نگر میں داخل کرادیا جس پر کشمیری حریت پسندون اور بھارتی افواج کے درمیان زبردست جنگ چھڑ گئی اور پاکستان سے بھی مجاہدین اپنے مظلوم کشمیری بھایئون کی مدد کے لیے وھان پہنچ گیے اور اس طرح ایک تھائی حصہ قابض بھارتی فوجون سے ازاد کرادیا گیا جو کہ ازاد کشمیر کے نام سے یاد کیا جاتا ھے کشمیری حریت پسندوں کے پیش قدمی سے ھندوستان بوکھلا ہٹ کا شکار ھوا اور اسے اپنی شکست حقیقت نظر انے لگے اور شکست اور بے عزتی سے بچنے کے لیے جنوری 1948ء کو بھارت نےاقوام متحدہ کا دروازا کھٹکٹایا اور اس طرح کشمیر کا مسلہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں پیش کیاگیا۔سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948ء کو کشمیر کے ایشو پر ایک قرارداد منظور کیا جس کی روح سے کشمیر میں جنگ بندی،تمام بیرونی افواج کا انخلاء اور ریاست میں سلامتی کونسل کے زیر نگرانی استصواب رائے (Plebiscite ) کا اہتمام تھا تاکہ مسلے کشمیر کو وہاں کے عوام کے امنگون کے مطابق حل کیا جائے۔قرارداد پر گفت و شنید اور عملی جامعہ پہنانے کے لیے سلامتی کونسل نے ایک پانچ رکنی کمیشن تشکیل دیا جس سے (UNCIP) یعنی اقوام متحدہ کی کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان کہتے ھیں۔ جنگ بندی کے بعد بھارت اقوام متحدہ کے قراردادون کو عملی جامعہ پہنانے کے معاملے میں مختلیف چالون اور بہانوں سے کام لیتا ارھاھے جو کہ نہ صرف تاحال جاری ھے بلکہ اپنے ھی ائین میں دی گئی خاص حثیت ( Special Status) کو بھی ختم کردیا ۔مسلہ کشمیر اتنی سنگین نوعیت کا ھے کہ جسے بابائے قوم قائد اعظمؒ نے پاکستان کا شہ رگ ( Jugular vein) قراردیا تھا اور اب تک کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان پانچ چھوٹے بڑے جنگ لڑ چکے ہیں۔

اگر ہم اقوام متحدہ کا جائزہ لیں تو ہمیں مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نیہں ہوا امریکہ اور مغربی ممالک کا رویہ کشمیر کے حوالے سے بے حس اور نہایت سرد مہر رھا ھے جو زبانی یقین دھانی کے سوا کچھ بھی نیہن ھے۔ان سب کے سامنے اقوام متحدہ کے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کے قراردادین موجود ھیں جو کشمیری عوام کے حق خود ارادیت (right to self-determination) کو تسلیم کرتے ھیں۔جینہں ھندوستان کے حکومت نے خصوصی طور پر بین الاقوامی معاہدون کے طور پر تسلیم کیا تھا۔حالت زر یہ ھے کہ اسٹیمور ( East Timor) جس سے انڈانیشاء نے 1974ء میں ضم کیا تھا کو ازادی مل گیا کیونکہ وھاں پر اکثریت عیسایئون کی تھی اور بین الاقوامی دباؤ بہت زیادہ تھا ۔

یہی وجہ ےتھی کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 27 اکتوبر 2019ء کے اقوام متحدہ کے جنرل اسبملی کے خطاب میں شیہد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ تاریخ ساز خطاب کیا جس میں دو ڈوک الفاظ میں اقوام متحدہ کو نہ صرف اپنی کی ھوئی وعدے یا دلایا بلکہ دینا کو یہ بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے اسی ملین لوگ نو لاکھ بھارتی فوجیون کے ہاتھوں یر غمال ھوچکے ھیں ۔عورتون کی عزتین لوٹ لی جارھی ھیں اور ھر روز کئی معصوم کشمیری شیہد ھوتے ھیں اور وہان ہر قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ھورہی ہے اور اقوام متحدہ صرف تماشائی بن بھٹاھو اھے کیونکہ کشمیر کے لوگ مسلمان ہیں مذید اپ نے کہا اگر انڈیا نے مظالم فوری بند نیہں کیا تو مقبوضہ کشمیر میں خونریزی ( blood bath)واقع ھوگا اور اس وقت کوئی بھی اس انقلاب کو نیہں روک سکے گا۔

وزیر اعظم پاکستان نے ورلڈ لیڈرز کو یہ بھی تنبیہ کردیا کہ ھندوستان اپنے ناپاک عزائیم کے بناء پر پلوامہ جیسا کوئی دوسرا ڈرامہ کرسکتا ھے جسے نہ صرف جنوبی ایشا متاثر ھوگا بلکہ اس کا اثر پورے دینا پر بھی پڑے گا کیونکہ دونون ممالک ایٹمی طاقتین ھیں اور اس کے علاوہ دینا کے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان کشمیریون کے حالت زر پر ارام سے نیہں بیٹھین گے۔اپ نے مزید بھارت کے بی جے پی سرکار کو یہ بھی آیئنہ دیکھادیا کہ وہ اصل میں ار ایس ایس ( RSS) کے نمائیندے اور تربیت یافتہ لوگ ہیں اور ان کا مشن علاقے میں ھندو راج کا قیام ہیں اورنریندرمودی کے نظریات دراصل ہٹلر اور مسولینی سے متاشبہ ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے کشمیر کا مقدمہ نہایت جامع اور موثر طریقے سے اقوام متحدہ میں پیش کردیا اور امید کی جاتی ھے کہ دینا کو احساس ہواہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہاھےاور کس طرح انسانی جانون کی عزت اور ابرو کی سودا بازی محض اقتصادی اور تجارتی فائدے سے لنک ہورہی ہے؟علاوہ ازین اگر کشمیر کے مسلے کو وہان کے مقامی لوگون کے خواہش کے مطابق حل نیہں کیا گیا تو جنوبی ایشیا میں ایٹمی تصادم کے خطرات لاحق ھونگی جس کی ساری زمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوںگے۔اس طرح وزیر اعظم پاکستان نے گیند اقوام متحدہ کے کورٹ میں پھینک دیا۔اور مسلہ کشمیر اقوام متحدہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن گیاہے۔


شیئر کریں: