Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد……….آ فت، کشمیراور چترال …….. ڈا کٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

آزاد کشمیر کا تا زہ ترین زلزلہ بہت بڑی قد رتی آفت ہے 38اموات، 400سے زیا دہ زخمی اور کھر بوں کی جا ئداد، سڑ کوں، نہروں اور دیگر سکیموں کا نقصان، پھر بحا لی کے کام میں نا کامی، اللہ جانے آگے کیا ہو گا؟ چترال میں 8جو لائی کو سیلاب آیا آب پا شی کی 4سکیموں کو بہا لے گیا آب نو شی کی ایک سکیم اس کی زد میں آگئی ڈھا ئی مہینے گذر کئے بحا لی کا کام شروع نہیں ہوا 80ہزار کی آبا دی کے لئے پینے کا پا نی نہیں ہے ڈیڑ ھ لا کھ کی آ بادی آب پا شی کی سکیموں سے محروم ہے کھڑی فصلیں بر باد ہو گئیں۔ سیب، انگور، انا راور آخروٹ کے بڑے بڑے با غا ت کھنڈ رات میں تبدیل ہوئے لو گوں نے با ربار روڈ بلا ک کرکے احتجا ج کیا مقا می انتظا میہ بے بس ہے صو بائی حکومت کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں دکھ کی بات صرف یہ نہیں کہ آزاد کشمیر کے ضلع میر پور اور دوسری جگہوں میں زلزلے نے تبا ہی پھیلا ئی دکھ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مر کزیت نے آفت زدہ لو گوں کی بحا لی اور امداد کا راستہ بند کیا ہے آزاد کشمیر کی مقا می انتظا میہ اسلا م اباد کی منظوری کے بغیر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے ”کینو لا“ بھی نہیں دے سکتی یہ اُس کے دائر ہ اختیار میں نہیں ہے چترال میں 47کروڑ روپے کی لا گت سے 6سال پہلے مکمل ہونے وا لی گو لین گول واٹر سپلائی سکیم 8جو لا ئی کو متاثر ہو ئی یہ پبلک ہیلتھ انجینئر نگ کے محکمے کی سکیم تھی صو بائی حکومت نے سکیم کی دوبارہ بحا لی کے لئے 329ملین روپے کا فنڈ ریلیز کیا لیکن سکیم کا ٹینڈر اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اسلام اباد سے منظور ی نہ ملے یا اسلام اباد کا دفتر خود ٹینڈر طلب نہ کرے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ قدرتی آفت کو انگریزی میں ڈیزاسٹر کہا جا ئے گا ڈیزاسٹر کی صورت میں اسلام اباد کا ایک دفتر ذمہ دار ہو گا اس کا نام نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) ہے ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹیو انجینئر، چیف انجینئر اور چیف سکرٹری کا کوئی اختیار نہیں یہ کام اُن کے دائرہ کار سے با ہر ہے اگر NDMAکے بجائے مقا می محکمے، مقا می دفتر یا مقا می افیسر کے ذریعے ایک پا ئی خر چ کی گئی تو وہ کر پشن میں شمار ہو گی ”نا زی پا کستان“ کا گسٹا پو یعنی نیب (NAB) حر کت میں آئے گا پھر چر ا غوں میں روشنی نہیں رہے گی 2005سے پہلے ایسا نہیں تھا 2005کے زلزلے کے بعد قدرتی آفت کی صورت میں مصیبت زدہ، غم زدہ اور آفت زدہ لو گوں کی امداد کا کام مقا می حکام اور متعلقہ اداروں سے لیکر اسلام اباد میں ایک دفتر کو دیدیا گیا بالا کوٹ کی نئی سٹی کا منصو بہ اس وجہ سے نا کام ہوا جب بھی قدرتی آفت آتی ہے لو گ بے یارو مد د گا ہو کر دہا ئی دیتے ہیں 2005سے پہلے ضلعی سطح پر ایمر جنسی رسپانس سسٹم(ERS) ہوتا تھا کنٹن جنسی پلان ہوتا تھا اس پلا ن کے تحت ضلع کے اندر مقامی حکام فوراً آفت زدہ عوام کی امداد کے لئے پہنچ جا تے تھے وسائل کو استعمال کر کے بنیا دی ضروریات فراہم کرتے تھے انگریزوں کے دور سے یہ طریقہ رائج تھا اور بہت کامیاب تھا سٹینڈرڈ اوپر ٹینگ پرو سیجر (SOP) یہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر ریلیف کے کام کا ذمہ دار ہوتا تھا تما م محکمے ان کے ما تحت ہو تے تھے وہ صو بائی حکومت سے وسائل حا صل کرکے ان محکموں کے ذریعے بحا لی کا کام کرواتا تھا یہ طریقہ آسان تھا کیونکہ لو گ ڈپٹی کمشنر سے رجوع کرتے ہیں اُس کے پاس وسائل اور اختیارات نہ ہوں تو وہ کس طرح لو گو ں کی مدد کرے گا NDMAکا طریقہ کار اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ ایک تباہ شدہ پائپ لائن کی بحالی کے لئے ٹینڈر طلب کرنے میں دو سال لگتے ہیں جبکہ لو گ بوند بوند پا نی کو ترس رہے ہو تے ہیں اس وجہ سے مقا می پریس کلب میں جب گفتگو ہوتی ہے تو NDMAکو محتصر کر کے ”نیشنل ڈیزاسٹر“کا نام دیا جا تا ہے تو می اخبار کے ایک نا مہ نگا ر نے منیجمنٹ اتھارٹی کی جگہ ”مس منیجمنٹ اتھار ٹی“ لکھ کر دل کی بھڑا س نکا لی تھی جیو فزیکل سروے کی رو سے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلا ع خصو صا ً چترال، مانسہرہ، دیر،سوات، بٹگرام وغیرہ قدرتی آفتوں کی سرخ لکیر کے اوپر واقع ہیں کسی بھی وقت کوئی بھی آفت آسکتی ہے بعض ایسی آفتیں ہیں جنکی پیش گوئی سے بھی جدید آلا ت اور ٹیکنا لو جی والے ادارے عا جز آگئے ہیں اس لئے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا سا بقہ طریقہ بحا ل کرنے کی اشد ضرورت ہے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا کام مر کزیت کا تقا ضا نہیں کر تا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا تقا ضا کر تا ہے اس وقت جو اختیارات اسلام اباد میں قا ئم بڑے دفتر کے گریڈ 22کے افیسر کے پاس ہیں وہ اختیارات مقا می نا ئب تحصیلدار کو دیدے جائیں تو مسا ئل فو راً حل ہو سکتے ہیں کیونکہ گریڈ 22کا افیسر مو قع پر مو جو د نہیں نا ئب تحصیلدار مو قع پر مو جو د ہے 2005سے اب تک 14سا لوں میں جتنے زلزلے اور سیلاب آئے ہر مو قع پر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہئیں مو جو دہ حکومت اگر NDMAکو تحلیل کر کے وسائل اور اختیارات مقا می انتظا میہ کو دیدے تو یہ قوم پر حکومت کا احسان ہو گا قدرتی آفات سے متا ثرہ لو گ حکومت کو دعائیں دینگے .


شیئر کریں: