Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نظریہ تصوف اور خطبہ آمیروالمومینین علی ابن ابی طالب ……… محمد آمین

Posted on
شیئر کریں:

نہج البلا غہ امیروالمومینین علی ابن ابی طالب کے کلام کا مجموعہ ھے جس میں اپ کے خطبات،خطوط اور نصیحتین شامل ھیں۔اس عظیم کتاب کی تالیف سید رضیؒ نے دسویں عیسوی کے اواخر میں کیا جس سے اب تک دینا کی کئی زبانون میں ترجمہ کیا گیاھے۔اس شاہکار کتاب کے خطبہ نمبر 207 میں جناب امیرو المومینین کے حوالے سے ایک اہم خطبہ درج ھے اور روایت کے مطابق ایک دن آمیروالمومینین بصرہ میں اپنے ایک صحافی جناب علاء ابن زیاد کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اس دوران علاء بن زیاد نے اپنے بھائی عاثم بن زیاد کے حوالے سے آپ سے شکایت کی کہ یا آمیروالممومنین عاثم بن زیاد گھر بار چھوڑ دیا ھے اور سارے دن عبادت میں مصروف عمل رہتا ھے۔جناب آبولحسن نے علاء بن زیاد سے اس کے بھائی کو بلانے کے لئے فرمایا اور جب وہ حاضر ھوا تو اپؑ نے فرمایا کہ اپنے جان کے دشمن شیطان خبیث نے اپکو بھٹکایا ھے تمہیں اپنے آل و اولاد پر ترس نیہں اتا؟ اور کیا تم نے یہ سمجھ لے رکھا ھے کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزون کو تمہارے لئے حلال کیا ھے اگر تم اسے کھاؤ تو اسے ناگوارے گا تم اللہ کی نظروں میں اس زیادہ گرے ھوے ھو کہ وہ تمہارے لئے یہ چاھیئے آپ نے عاثم ابن زیاد کے فعل کو شیطانی وسوسے کا نتیجہ قرار دیا اور اسے باز رہنے کی تاکید فرمائی ۔اس پر عاثم ابن زیاد نے کہا یا آمیروالممومینین کہ اپ کا پہناوا بھی چھوٹا موٹا اور کھانا روکھا سکھا ھوتا ھے تو حضرت نے فرمایا میں تمہارے مانند نیہں ھو خدا نے ہم آئیمہ حق پر فرض کیا ھے کہ وہ اپنے اپکو مفلس اور نادار لوگون کی طرف رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے بیج و تاب نہ کھائے۔

رھبنیت یا ترک دینا کی روایت بہت پرانی ھے اور زمانہ قدیم سے لوگ اسے طہارت نفس اور درستگی اعمال کا زریعہ سمجتے ھیں اور جو لوگ ذہد کی ذندگی گزار نا چاہتے تھے وہ اپنے گھروں اور شہرون کو چھوڑ کر پہاڑون کے غارون اور جنگلون کی طرف رجوع کرتے اور سارا وقت زکر و عبادت میں وقت گزارتے تھے کوئی راہگیر یا دوسرے لوگ ان کو کھانے کے لئے کچھ دیتے یا وہ جنگلی پھلون یا پانی کے چشمون کے پانی سے زندگی کا گزارا کیا کرتے۔اس طرز زندگی کی ابتداء حکمرانوں کے ظلم و تشدت اور نا انصافی سے تنگ اکر بعض لوگون نے اپنایا چنانچہ صدیون تک اس پر عمل درامد ھوتا رھا اور ابھی تک اس اس قسم کے عبادت کے اثر بدھسٹون (Buddhists) اور عیسائیون ( Christians) میں پائے جاتے ھیں۔
بقول سید رضیؒ اسلام کی میانہ راوی اور اعتدال پسندانہ مزاج خانقائی زندگی کو ناپسند قرار دیتی ھے اور وہ افراد جو جامہ تصوف پہن کر ذھد و بے تعلقی دینا کا ڈھنڈورا پیٹتے رھتے ھیں وہ اسلام کی عملی راہ سے الگ اور اسکی حاکیم۔انہ تعلیم سے نا اشنا ھیں چنانچہ وہ اپنے خودساختہ اقاؤن کا سہارا لیکر اس حد تک غلویت میں پہنچ جاتے ھیں کہ وہ اپنے پیشواؤن کے اواز کو خدا کی اواز اور ان کی عمل کو خدا کا عمل سمجھتے ھیں۔اورشرعی قیود حدود سے اپنے اپکو ازاد سمجتے ھوئے اپنے غلط آمر اپنے لئے جائز قرار دیتے ھیں اور شریعت کو چھوڑ دیتے ھیں اور اس سے تصوف( Mysticism) کے نام سے پیش کی جاتی ھے۔ اور اس کے غیر شرعی اصولوں کو طریقت کا نام دیتے ھیں اور اس مسلک کے اختیار کرنے والے کو صوفی کہتے ھیں ۔ اس طرح جناب آمیرولمومینن کے خطبہ سے یہ درس ملتا ھے کہ اسلام میں تصوف کے لئے کوئی جگہ نیہں ھے ۔
اسلام میں سب سے پہلے ابو ہاشم کوفی و شامی نے یہ قلب اختیار کیا تھا اس سے اس لقب سے پکارنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ زہد و تقوی کی نمائش کے لئے صوف کا کپڑا پہن رکھا تھا بعد میں اس لقب نے عمومیت اختیار کی اور اسکی وجہ تسمیہ میں مختلیف توجیہات نے جنم لئے چنانچہ ایک وجہ یہ ھے کہ صوف کے تین حروف ھیں صاد سے مراد صبر،صدق اور صفا ھے ۔واو سے مراد وورد اور وفا ھے جبکہ ف سے مراد فرد،فقر اور فنا ھے ۔دوسرا قول یہ ھے کہ یہ صفہ سے ماخوذ ھے اور صفہ مسجد نبوی کے قریب ایک جبوترا تھا جس پر کھجوروں کی شاخون کی چھت پڑی ھوئی تھی جس میں رھنے والے آصحاب صفہ کہلاتے تھے اور وہ غریب و بے چارگی کی وجہ سے وہاں پڑے رہتے تھے۔تیسرا قول یہ ھے کہ عرب کے ایک قبیلے کے جد اعلی کا نام صوفہ تھا اور یہ قبیلہ خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمات کے فرائیض سرانجام دیتے تھے اور اس قبیلے کی نسبت سے یہ قبیلہ صوفی کہلانے لگے۔

.
آمیروالمومیینین جناب علی ابن ابی طالب کے اس خطبے کی تشریح کے بعد جناب سید رضی نے آہل تصوف کے سات اہم گروہوں کی مختصرا وضاحت نحج البلاغہ میں کیا ھے جو کہ زیل ھیں۔

.
1-وحد تیہ:یہ گرہ وحدۃ ولوجود کا قائل ھے کہ دینا کی ہر چیز خدا ھے یہان تک کہ ہر نجس و ناپاک چیز بھی اسی منزل الوہیت پر ٹھراتے ھیں اور وہ اللہ کو دریا سے اور مخلوق کو اسے اُٹھنے والے لہرون سے تشبہ دیتے ھیں۔

.
2-اتحادیہ:اس گروہ کا خیال ھے کہ وہ اللہ سے اور اللہ ان سے متحد ہو چکا ھے یہ الگ کو الگ سے اور اپنے اپکو لوھے سے تشبہ دیتے ھیں جو کہ اگ میں پڑے رھنے کی وجہ سے اس کی صورت و خاصیت پیدا کرچکی ھو۔
.

3-حلویہ:اس گروہ کا عقیدہ ھے کہ خداوند عالم کاملون اور عارفون کے اندر حلول کر جاتا ھے اور ان کا جسم ان کا فردوگاہ ھوجاتا ھے اس لئے وہ بظاہر بشر اور بباطن خدا ھوتے ھیں۔
.

4-واصیلہ:یہ گروہ اپنے اپ کو واصل بااللہ سمجتا ھے اور ان کا نطریہ ھے کہ آحکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا زریعہ ھے اور جب نفس حق سے متصل ھوتا ھے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نیہں ہوتی لہذا واصلین کے لئے عبادات و اعمال بیکار ھو جاتے ھیں۔

.
5-زراقیہ:یہ لوگ نغمہ و سرور کی دھنون اور حال و قال کی سرمستیون کو سرمایہ عبادت سمجھتے ھیں اور درویشی سے دنیا کماتے ھیں اور اپنے پیشواؤن کی من گھڑت کرامتین بیان کرکے عوام کو مرعوب کر نے کی کوشش میں لگے رھتے ھیں۔

.
6-عشاقیہ: اس فرقے کا نظرہ یہ ھے کہ عشق مجازی عشق حقیقی کا زریعہ ھوتا ھے لھذا عشق الہی کی منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ھے کہ کسی مہوش سے عشق کی جائے لیکن جس عشق کو یہ عشق الہی کا زریعہ سمجتے ھیں وہ صرف اختلال دماغی کا نتیجہ ھوتا ھے جس کی وجہ سے عشق قلب و روح کی پوری توجہ کے ساتھ ایک فرد کی طرف مائل ھوجاتا ھے اور اس کی رسائی ھی اس منزل اخر ھوجاتی ھے۔یہ عشق فسق و فجور کی راہ پر تو لگ سکتی ھے لیکن عشق حقیقی کی منزل سے اسے کوئی لگاؤ نیہں ھوتا۔

.
7-حلقیہ:اس فرقے کے نزدیک علوم دینیہ کا پڑھنا اور کتب علمیہ کا مطالعہ کرنا قطعا حرام ھے بلکہ جو مرتبہ علمی ستر برس تک پڑھنے سے حاصل نیہں ھوتا وہ ایک ایک ساعت میں مرشد کے تصرف روحانی سے حاصل ھو سکتی ھے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام روحانی ترقی کے لئے دینا کی نعمتون اور سعادتون سے محرومی کی تعلیم نیہں دیتا اور نہ اس چیز کو پسند کرتا ھے کہ مسلمان گھر بار چھوڑ کر اور ابنائے جنس سے الگ ھوکر کسی گوشے میں عبادت میں وقت گزارے کیونکہ اسلام میں عبادات کا مفہوم چند مخصوص اعمال تک محدود نیہں بلکہ یہ مکمل ضابطہ حیات ھیں جس میں جائز زریعہ معاش سے روزی کی تلاش اور باھمی سلوک و ہمدردی و تعاؤن کو بھی عبادت کا اہم جز قرار دی گئی ھے اور اگر انسان دینوی حقوق و فرائض کو نظر انداز کردے تو مقصد حیات جو خدا کی طرف ایک نعمت ھے کی خلاف ورزی ھو سکتی ھے جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دینا میں پیدا کیا ھے تو اسے اس دینا میں رھتے ھوئے دستور حیات پر عمل پیرا ھونا چاھئے اور حد اعتدال میں رھتے ھوے اللہ کی دی ھوئی نعمتون اور اسائیشون سے لطف اندوز ھونا چاھئے کیونکہ قترت نے ان چیزون کو اس لیے حلال کیا ھے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے جیسا کہ اللہ سبحانہ سورہ رحمن میں اشارہ فرمایا ھے ۔
انسان بحثیت اشرف مخلوقات اپنے اھل و عیال کی زمہ داریوں کو بھی محسوس کر نی چاھیئے ۔انسان کو قدرت نے اس دوراھے پر کھڑا کیا ھے کہ جس میں حد وسط ھی ھدایت کا زریعہ ھے کہ اگر زرا اس نقطہ اعتدال سے ادھر اُدھر ھو تو اس کے لئے گمراھی ھی گمراہی ھے اور وہ حد وسط یہ ھے کہ انسان نہ دینا کی طرف اتنا جھکے کہ آخرت اور آحکام الہی کو نظر انداز کرکے صرف دینا ھی کا ھو کر رہ جائے اور نہ دینا سے اتنا کنارہ کش ھوجائے کہ کسی چیز سے کوئی لگاؤ نہ رکھے اور ہر چیز سے دست بردار ھوکر گوشہ نشین ھوجائے ۔بلکہ توازن اور اعتدال ھونا چاھئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26443