Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سعودی آئل تنصیبات پرحملے مشرق وسطیٰ کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن موڑ…..قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

بقیق اورخریص میں واقع سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد خطے میں ایران۔ سعودیہ کے درمیان براہ راست جنگ کے خطرات بڑھنے لگے ہیں،تاہم اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ خطے میں کشیدہ حالات کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دو روزہ دورہ کیا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے قبل سعودی فرماں روا کو اعتماد میں لیا اور آئل تنصیبات پر حملے کے بعد خطے میں کشیدہ صورتحال کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان، سعودی عرب کا دیرینہ اتحادی ہے اور مسلم امہ کا مرکز ہونے کے سبب سرزمین حجاز سے پاکستان کی خصوصی نسبت ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔ ایران، سعودیہ کشیدہ تعلقات میں پاکستان کے لئے پڑوسی ملک کے ساتھ توازن رکھنا،بڑا کھٹن معاملہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی آرامکو آئل تنصیبات پر حملوں کی مذمت اور سعودی عرب کے ساتھ اظہار یک جہتی کرچکا ہے۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل احمد الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکام سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھرپور آواز اٹھائیں گے اور مودی سرکار کا فاشٹ چہرہ عالمی برداری کے سامنے لاکر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو آگاہ کریں گے۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے حلیف ممالک سے سفارتی حمایت کا خواہاں ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب کا مقصد قریبی اتحادیوں کو اعتماد میں لینا تھا۔ تاہم اس وقت سعودی عرب جس صورتحال کا شکار ہے۔ اُسے بھی پاکستان کی حمایت و مدد کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی سر زمین حجاز کے لئے موثر کردار ادا کرچکا ہے۔ حالیہ کشیدہ ترین صورتحال میں پاکستان کی معاونت کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
گذشتہ دنوں امریکا نے سعودی آرامکو آئل تنصیبات پر حملے کا الزام ایران پر عاید کیا ہے کہ جنوبی ایران میں واقع شمالی خلیج کے کنارے سے حملہ کیا گیا تھا۔ تو دوسری جانب سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے ایک بیان میں واضح کیا گیا کہ سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق اس میں ایرانی ساختہ اسلحے کے استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ یہ بات سعودی وزیر دفاع و عسکری اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے 16 ستمبر کو دارالحکومت ریاض میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں بیان کی تھی۔تاہم کرنل المالکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی تفتیشی عمل جاری ہے اور اس بابت مزید شواہد سامنے جلد لائیں جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا معلوم ہوا ہے کہ یہ ہتھیار یمن سے روانہ نہیں کیے گئے تھے۔ عسکری اتحاد کے ترجمان کے مطابق حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں جس کے تعین ہونے کے بعد لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ نیزآئل بحالی کے لئے کئی ہفتے و مہینے بھی لگ سکتے ہیں،حملے سے ستاون لاکھ بیرل خام تیل کی فراہمی متاثر ہوئی ہے جو آرامکو کی کل پیداوار کا نصف ہے۔ ایران اس حملے کی مکمل تردید کررہا ہے اور حملوں کو یمن کی جانب سے جوابی عمل قرار دے رہا ہے لیکن یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ یمن (حوثی باغی) مستقبل میں بھی ایسے مزید حملے کریں گے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی نیشنل پیٹرول کمپنی آرامکو کے آئل فیلڈز پر کئے گئے حملے سعودی حکام کو سبق سکھانے کے لئے کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ حوثی باغی اس حملے کی ذمے داری قبول کرچکے ہیں۔ حوثی باغیوں نے متحدہ امارات پر بھی حملے کی دھمکی دی ہے کہ وہ بیسوں مقامات کو ہدف بنا نے کا تعین کرچکے ہیں اور ان کے ڈرون عام و جدید انجنوں سے لیس ہیں تاہم حوثی باغیوں کی جانب سے حملے کی ذمے داری قبول کئے جانے کو زمینی حقائق سے برعکس قرار دیا جارہا ہے کیونکہ حوثی باغیوں کے پاس اتنی جنگی استعداد نہیں کہ وہ کسی کروز میزائل کو سعودی دفاعی نظام کے علم میں لائے بغیر سعودیہ کی کسی بھی تنصیبات کو ہدف بنا سکے۔ سعودی عرب حملے کی مکمل تحقیقات کررہا ہے لہذا اس ضمن میں ایران پر سخت الزامات کے حوالے سے سرکاری سطح پر محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔اقوام متحدہ بھی جلد حملے کی تحقیقات کرے گا۔
سعودی آئل کی دو تنصیبات پر حملے کے بعد پیداوار میں کمی سے تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوگیا ہے۔خاص طور ترقی پذید ممالک کے لئے تیل کی قیمتیں بڑھنے سے معاشی دشواریوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ آرامکو پر حملے کے بعد اگلے دن ہی عالمی منڈی میں 16ستمبرکے روز خام تیل کی قیمتیں تقریبا 15% اضافے کے ساتھ بند ہوئیں۔ اس طرح برینٹ کروڈ آئل کی قیمتوں میں 30 برس کے دوران ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ اور کاروبار میں ریکارڈ حجم دیکھنے میں آیا۔ واضح رہے کہ سعودی آرامکو کی دو تنصیبات پر حملوں کے بعد مملکت کی تیل کی پیداوار کم ہو کر آدھی رہ گئی تھی جسے بحال ہونے میں وقت لگے گا۔انرجی مارکیٹ کے تجزیہ کار ٹونی ہیڈرک کے مطابق ”سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے نے مارکیٹ کو شدید دھچکا پہنچایا۔ اس لیے رسد سے زیادہ طلب پر توجہ مرکوز رہی”۔ آئل ریفائنری پر ڈرون حملوں کے بعد امریکی صدر نے سعودی عرب کو دفاعی تعاون کی پیشکش کی۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے پیشکش کی کہ امریکا سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام میں مد دینے کو تیار ہے جس پر سعودی ولی عہد نے کہا کہ مملکت اس طرح کی دہشت گردانہ جارحیت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ’ہم نے سعودی عرب کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم جنگ چاہتے ہیں‘۔ ایران کے خلاف کئی مہینوں سے امریکی جنگی بیڑا بحیرہ عرب میں آئل ٹینکرز پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور ایران کو دباؤ میں لانے کے لئے ایران کے واحد معاشی ہدف کو کمزور کرکے اپنی من پسند شرائط پر معاہدہ کرانا چاہتا ہے، لیکن ایران امریکی دہمکیوں کو خاطر میں لائے بغیر اب ایٹمی افزودگی کے معاہدے پر عدم تعاون کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکا ہے۔ واضح نظر آرہا تھا کہ خطے میں تیل کی سپلائی کو روکنا مقصود ہے۔ جس میں ایران اور امریکا کے درمیان سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ امریکی تیز رفتار ڈرون گرائے جانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عین وقت پر ارادہ تبدیل کردیا تھا۔ چالیس برسوں سے حالت جنگ میں رہنے کے باوجود بھی ایران کی عسکری طاقت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔جب کہ امریکا، کسی نئی بڑی جنگ میں حصہ لینے کے لئے قوت فیصلے میں کمی کا مظہر نظر آرہا ہے۔ واضح رہے کہ سعودیہ اس وقت امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ استعمال کررہا ہے۔جو یمن سے کئے جانے والے حملے روکنے میں استعمال ہو تاہے لیکن ارامکو تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی دفاعی نظام پر سوالیہ نشا ن اٹھ گیا ہے کہ امریکی پیٹریاٹ دفاعی نظام نامعلوم مقام سے داغے جانے والے حملے کو کیونکر روکنے میں ناکام رہا۔ امریکا کے مطابق سعودی دفاعی نظام کا رخ یمن کی جانب تھا اس لئے جنوب سے کئے گئے حملے کو روکا نہیں جا سکا۔
روسی صدر پوتن نے سعودی عرب کو ایس 400 دفاعی نظام فروخت کرنے کی پیش کش کی ہے لیکن اس پیشکش کو طنزیہ قرار دیا جارہا ہے پوتن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب دانشمندانہ فیصلے کرے۔ ایران کی طرح روسی دفاعی سسٹم ایس300 استعمال کرے یا پھر ترکی کی طرح ایس۔400 دفاعی سسٹم استعمال کررہا ہے۔ انقرہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پیوٹن سے پوچھا کہ‘آپ سعودیوں کیلئے کونسا سسٹم پسند کریں گے ایس 300 یا ایس 400؟ جس پر پیوٹن نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آپ انہیں ہی کرنے دیں ’۔خیال رہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود ایران اور ترکی نے روسی ساختہ میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے، روس سعودی عرب کو بھی اپنا ڈیفنس سسٹم بیچنا چاہتا ہے لیکن اب تک اس میں کامیاب نہیں ہوا اور سعودی عرب اس وقت امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے۔ واضح رہے کہ 5 اکتوبر 2017ء کو روس کے فوجی اور فنی تعاون سے متعلق ایک سرکاری ادارے کی ترجمان ماریا وروبیوفا نے سعودی عرب کے ساتھ ایس 400 نظام کی فروخت کا معاہدہ طے پانے کی اطلاع دی تھی۔ جس کے بعد 2018میں ایس۔400 میزائل دفاعی نظام کی خریدداری کے حوالے سے مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ روس میں متعین سعودی سفیر راعد بن خالد قرملی کا کہناتھا کہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام کی سعودی عرب کو ترسیل کے لیے بات چیت حتمی مراحل میں ہے۔ روس اور سعودی عرب کے درمیان تب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورے کے موقع پر ٹینک شکن راکٹ نظام کورنیٹ ای ایم، راکٹ لانچر نظام ٹی او ایس ون اے، خودکار گرینیڈ لانچر اے جی ایس 30 اور کلاشنکوف اے کے107 رائفلوں کی خریداری کے بھی سمجھوتے طے پائے تھے۔تاہم روس اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی نظام کی ترسیل ممکن نہیں ہوسکی ہے کیونکہ سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کا قریبی اتحادی چلا آرہا ہے، لیکن روس کے ساتھ ان دفاعی معاہدوں اور مختلف النوع اسلحہ کی خریداری کے لیے سمجھوتوں کے بعد سے واشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس لئے امریکا نے سعودی عرب کو جدید دفاعی نظام ایس۔400کے مقابلے اپنے جدید دفاعی نظام ”تھاڈ“ فروخت کرنے کی پیش کش کی تھی۔ جس پر امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے 2018میں بیان آیا تھا کہ سعودی عرب امریکا کی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سے پندرہ ارب ڈالرز مالیت کا میزائل دفاعی نظام ٹھاڈ خرید کرے گا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہناتھا کہ سعودی اور امریکی حکام نے اس سودے کے سلسلے میں پیش کش اور قبولیت کی دستاویز پر دست خط کردیے ہیں اور سعودی عرب کو ٹرمینل ہائی آلٹی چیوڈ ایریا ڈیفنس (ٹھاڈ) لانچروں، میزائلوں اور دیگر متعلقہ آلات کی فروخت کے لیے شرائط وضوابط کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ اور دفاعی صنعت حالیہ ہفتوں کے دوران میں سعودی عرب کو مجموعی طور پر 110 ارب ڈالرز مالیت کے اسلحے اور دفاعی سازوسامان کی فروخت کے سودوں کو بچانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹھاڈ ڈیل پر دسمبر 2016ء سے بات چیت جاری تھی اور یہ اب مکمل ہوئی ہے۔
28واضح رہے کہ اپریل 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازع بیان دیا تھا کہ اتحادی ملک سعودی عرب امریکہ سے اچھے طریقے سے پیش نہیں آرہا اور امریکہ سلطنت کے دفاع کے لیے بھاری رقم کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے قبل اپنی مہم کے دوران بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔انھوں نے وسکونسن میں صدارتی مہم کے دوران کہا تھا ‘کوئی بھی سعودی عرب سے نہیں الجھ سکتا کیونکہ ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمیں اس کی مناسب قیمت نہیں چُکا رہا اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔تاہم سعودی وزیر خارجہ عادل الجبی نے انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی طرح کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سعودی عرب بطور اتحادی اپنی ضروریات خود پوری کر رہا ہے۔’واضح رہے کہ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا سب سے اہم ملک امریکہ ہے جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب کو ایف 15 لڑاکا طیاروں اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم سمیت اربوں ڈالر کا دفاعی ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ امریکا سعودی عرب سے تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ سعودی عرب قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کی وجہ سے دنیا کو تیل کی سب سے بڑی ضروریات فراہم کررہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی مکمل توجہ سعودی عرب کو جنگی سازو سامان کی فروخت پر مرکوز ہے۔ایران، یمن، شام، قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تنازع کا فائدہ مکمل طور پر عالمی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں جس طرح سعودی آئل تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض قوتیں عرب ممالک کو مفلوج کرنا چاہتی ہیں اور ان کے سب سے بڑے ذرائع آمدنی کو نشانہ بناکر انہیں معاشی مشکلات کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔ یہ امر طے ہے کہ عرب ممالک کو اپنے وسائل جنگی سازو سامان پر خرچ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عرب ممالک نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے جدیددور کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بروقت تیار نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے عرب ممالک، عالمی طاقتوں سمیت حلیف ممالک کی محتاج ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب نے1979میں تہران کی سیاسی و ریاستی پالیسی کی تبدیلی کے بعد اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکا کے کافی نزدیک ہواتھا نیز ایران کو شامل کئے بغیر34ممالک کے اتحاد کی بنیاد رکھی، جس نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے کئے۔جس سے عام شہریوں کی بڑی تعداد کو بھی نقصان پہنچا۔ امریکا،برطانیہ اور فرانس نے سعودی عرب کو جنگی ساز و سامان پر پابندی کا عندیہ بھی دیا۔ تاہم دوسری جانب یمن میں موجود جنگجو ملیشیا کو ایران کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے، جس کی وجہ سے خطے میں جنگ بندی سمیت تناؤ کے خاتمے میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کا معقول کردار بھی نظر نہیں آتا۔ اب یہ جنگ مزید بھڑک رہی ہے اور اس جنگ کا فایدہ سعودی عرب یا ایران کو پہنچے یا نہ پہنچے لیکن عالمی طاقتو ں کو اس جنگ سے اربوں ڈالرز کے ہتھیاروں کی فروخت کے مواقع میسر آگئے ہیں۔
ایران پر امریکی دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا، ایران کو بلیک مارکیٹ میں آئل مصنوعات کی فروخت کو روکنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ اس سے ایران کو اپنے دفاعی اخراجات پر قابو پانے میں دشواری ہوگی۔ گذشتہ مہینوں ایران میں مہنگائی، بے روزگاری سمیت ایرانی وسائل کو بیرون ملک جنگ و خانہ جنگی میں جھونکنے کے خلاف ہنگامہ آرائی اور احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ جس کا الزام ایران نے امریکا پر عاید کیا تھا کہ امریکا، ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ تاہم ان احتجاجی مظاہروں سے یہ بات سامنے ضرور آئی تھی کہ ایرانی عوام معاشرتی مسائل کا شکار ہیں، انہیں بھی عالمی اور امریکی پابندیوں سے آزادی کی ضرورت ہے، لیکن اس حوالے سے ایرانی ریاست کے سخت موقف و مختلف ممالک میں جنگجو ملیشیاؤں کی پشت پناہی سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید گھمبیر اور الجھتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب اور ایران تنازع جنگ میں بدل جاتا ہے تو پھر ایران کے ساتھ ترکی اور روس کھڑے ہونگے اور عرب کے امریکا اور چھوٹے حلیف ممالک۔ جس سے خطرہ ہے کہ عرب و عجم کی اس جنگ کے اثرات سے دنیا بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ لیکن اس جنگ کو روکنے کے لئے عالمی برادری کا کردار مایوس کن نظر آتا ہے۔ پاکستان نے ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی تھی، لیکن پاکستان اس وقت جن نامساعد حالات اور مشرقی سرحدوں کے ساتھ شمال مغربی سرحد پر ملک دشمن عناصر سے الجھا ہوا ہے، ان حالات کی وجہ سے پاکستان خطے میں اپنا موثر کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ خاص طور مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جس طرح پاکستان کی سرحدوں پر حملوں کی منصوبہ کی ہوئی ہے اس سے پاکستان چاہتے ہوئے بھی ایسا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جس سے خطے میں اہم ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ یا تلخی کو کم کیا جاسکے۔ پاکستان، ایرا ن کے پڑوسی ملک ہونے کے حیثیت سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان کے سامنے افغانستان کی بدترین مثال سامنے ہے کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ میں سہولت کار بننے سے اتنا متاثر ہوا کہ اب بھی کئی عشرے پاکستان کواپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں لگیں گے۔ ان حالات میں سعودی عرب و عرب ممالک کا اتحادی بن کر ایران کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا حصہ بننے کے بعد پاکستان بڑی مشکلات میں گھر سکتا ہے اس لئے پاکستان نے غیر جانبدارملک رہنے کا عزم ظاہر کیا ہوا ہے تاہم سرزمین حجاز پر اگر خدانخواستہ ایسا حملہ ہوتا ہے کہ بیت اللہ اور مقدس مقامات کو تحفظ دینے میں پیچھے نہیں رہے گا۔ پاکستان اس امر کا اظہار بارہا کرچکا ہے کہ سرزمین حجاز کا تحفظ مملکت کا دینی فریضہ ہے۔ اس وقت سعودی اتحاد کی سربراہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف راحیل شریف کررہے ہیں۔مسلم اکثریتی ممالک کوموجودہ حالات کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کے لئے اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وہ 34ممالک جو سعودی عرب کے اتحادی فوج کا حصہ ہیں،انہیں مسلم امہ کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے سفارتی بنیادوں پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر جنگ کا اختتام، مذاکرات سے ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم اکثریتی ممالک کو مذاکرات اور باہمی اتفاق کی جتنی ضرورت ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26330