Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش…..مدینے کا بابا (پارٹ 01)……..تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بابا جی میرا نام دعا ہے اور میں مدینہ شریف سے آپ سے ملنے کے لیے آئی ہوں‘میرے سامنے جوان سمارٹ طویل قامت خوبصورت ترین لڑکی چادر میں لپٹی سر جھکائے کھڑی تھی تا کہ میں اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دے سکوں‘ مدینہ شریف کا نام آتے ہی مجھے خوشگوار حیرت اور ایمانی حرارت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا میری سستی چُستی میں بدلتی چلی گئی خو شگوار حیرت سے پھیلی آنکھوں سے سامنے کھڑی پیکر جمال کو دیکھا خوبصورت دلکشی اُس پر موسلا دھار بارش کی طرح برسی تھی وہ سر سے پاؤں تک حسن و رعنائی کا دلکش ترین مجسمہ تھی‘ روحانیت اور نورانی ایمانی نور کی کرنیں اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھیں‘ اوپر سے روحانیت کے تڑکے نے اُس کے دل کش ترین نقش و نگار کو پاکیزگی کی تہہ میں لپیٹ اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا میں سحر انگیز ہو کر اُس کی طرف دیکھنے لگا تو پاکیزگی اور ایمانی جذبوں میں لپٹی اُس کی شیریں آواز ماحول کو سحر انگیز بنا نے لگی‘ بابا جی میں دنیاوی کسی مقصد کے لیے آپ کے پاس نہیں آئی میں صرف اور صرف خدا کی تلاش خدا کی رضا کے لیے آپ کے پاس آئی ہوں یہ دنیا چند دن کی ہے جو گزر ہی جائے گی میری کھوج تلاش جستجو صرف اور صرف خدا کی ذات ہے میں اُس ذات پیکراں کے سمندر تک رسائی چاہتی ہوں‘رنگ الٰہی میں خود کو رنگنا چاہتی ہوں قطرہ عشق الٰہی سے صدیوں کی پیاسی اپنی روح اور جسم کی پیاس بجھا نا چاہتی ہوں میرے جسم کا انگ انگ قرب الٰہی کی تپش میں جھلستے سلگتے ریگستان کی طرح جھلس رہا ہے کیا عشق الٰہی قرب الٰہی کی برسات میرے قلب و روح کو سیراب کر سکتی ہے۔ میری ساری بھاگ دوڑ تلاش صرف اور صرف رب کائنات کی ذات ہے مجھ جنموں کی پیاسی کو عشق الٰہی قر ب الٰہی کے سمندرتک راہنمائی کردیں اگر مجھے قرب الٰہی کے جام کا ایک قطرہ بھی مل گیا تو میں سمجھوں گی جنت کو زمین پر پالیا میرے لیے ایک قطرہ ہی سمندر ہوگا میری تلاش کی منزل ہو گا‘ میرے سامنے جوان خوبصورت لڑکی خدا کے ہجر تلاش کی باتیں کر رہی تھی تو مجھے اپنا روگ یاد آگیا میں خود بھی تو اِس کھوج میں برسوں صحرا گر دی کر تا رہا تھا میں نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی اور بولا نیک بیٹی تم بیٹھ جاؤ میرے بس میں جو ہو گا میں تمہاری راہنمائی کر نے کی پو ری کو شش کروں گا تو چادر میں لپٹی بیٹی میرے سامنے بیٹھ گئی مادیت پرستی اور خود پرستی میں غرق انسانوں سے تو روزانہ ہی ملا قات ہو تی ہے عرصے بعد مادی جانوروں کے درمیان جب کو ئی قرب الٰہی کی تپش میں حرارت زدہ آتا ہے تو اُس کی کھوج کی حرارت سے خاص قسم کی آسودگی اور اطمینان کی حرارت کو محسوس کر رہا تھا مجھے اچھا لگ رہا تھا کوئی خدا کی تلاش میں میرے پاس آیا میں شفقت سے لبریز لہجے میں بولا بیٹی مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ تمہیں اللہ تعالی نے اپنے عشق کے لیے چُنا ہے تم جس ہجر روگ تلاش کی حرارت میں پگھل رہی ہوتو مقدر والوں کے نصیب میں آتی ہے میری بات سن کر اُس کی آنکھوں کے کنارے باطنی کرب سے چھلکنے لگے، بیٹی اگر خدا تمہیں ہجر کی آگ میں جھلساتا تو تم بھی مادی جانوروں کی طرح کھایا پینا افزائش نسل کا حصہ بن کر مٹی کے ڈھیرمیں تبدیل ہو جاتی تم تو مقدر والی ہو جو عشق کی آگ میں جھلس رہی تو وہ بولی بابا جی لیکن دنیا والے میرے اِس روگ تلاش کو نہیں سمجھتے وہ مجھے پاگل نفسیاتی مریضہ قرار دیتے ہیں۔ بابا جی میرا وجود بنا ہی خدا کے عشق کے لیے ہے دنیا داری مُجھ سے نہیں ہوتی میں دنیا داری کے کاموں میں مکمل طور پر ان فٹ ہوں اور نہ ہی میرا دل لگتا ہے دنیا داری کے کاموں میں دنیا نے مجھے بہت زیادہ اذیتیں دی ہیں تڑپا یا ہے رلایا ہے یہ دنیا والے میرے ہجر روگ تلاش کو نہیں سمجھتے اِس لیے میں یہ ملک چھوڑ کر سعودی عرب مدینہ شریف چلی گئی تھی میں مقدس نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا اور بولا بیٹی مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تم خدا کے قرب کے لیے میرے پاس آئی ہو یہ روگ تلاش کیسے شروع ہو ئی باطن میں دبی چنگاری آگ کا بھانبھڑ کیسے بنی حق تعالی تم پر کیسے مہربان ہو ئے تو وہ بولی بابا جی میری پیدائش فیصل آباد کے قریب گاؤں میں ہو ئی۔ بچپن میں ہی باپ کا سایا سر سے اُٹھ گیا تو نانا جی کے گھر والدہ کے ساتھ آگئی ابھی دس سال کی ہو ئی تو ماں بھی بے رحم زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملیں اب غم دکھ جدائی کی امر بیل نے مجھے ڈسنا شروع کر دیا غم میرے اندر اترتا چلا گیا اداسی نے میری روح کو تڑپا کر رکھ دیا تو میں نے نماز میں پناہ ڈھونڈی میں ساری ساری رات نماز نوافل قرآن مجید کی تلاوت کرتی میری والدہ کے بعد اب میری خالہ میری دیکھ بھال کر تی تھیں وہ صوفی برکت علی صاحب ؒ کے دربار پر ریگولر جایا کرتی تھیں اُن کے ساتھ میں بھی صوفی برکت علی صاحب ؒ کے آستانے پر جاتی تومجھے بہت زیادہ سکون ملتا اب میری عقیدت صوفی صاحب کے آستانے سے جنون کی حد تک ہو گئی تھی وہاں جاکر گھنٹوں بیٹھا کر تی اگر خالہ کبھی جانے میں دیر کر دیتی تو میں رو رو کر آستانے پر جانے کی ضد کرتی آخر کار میری ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ مجھے صوفی صاحب ؒ کے آستا نے پر لے جاتی اِس دورا ن میں سالوں کی منزلیں بھی طے کر تی چلی گئی جوانی کے آنگن میں قدم رکھا تو میری خوبصورتی کے چرچے پو رے خاندان میں ہو نے لگے میں اچھی طالبہ تھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن میرٹ پر نہ آسکی تو نرسنگ میں داخلہ لے لیا میری خوبصورتی کی وجہ سے ہر کوئی مجھ سے شادی کر نا چاہتا تھا لیکن میرے تایا کا بیٹا جو بہت بڑے زمیندار کا بیٹا بھی تھا اُس نے اعلان کیا کہ وہ مُجھ سے شادی کر ے گا اُس کے اعلان کے بعد باقی امیداوار خود ہی پیچھے ہٹ گئے وہ پیار کے بہت دعوے کر تا لیکن میرے دل میں اُس کے لیے بال برابر بھی محبت نہیں تھی بلکہ کسی کے لیے بھی نہیں تھی میں دن رات روتی رہتی‘صوفی برکت علی صاحب ؒکی کتابیں پڑھنے کے بعد تصوف اور روحانی بابوں کی باقی کتابیں دن رات پڑھتی جہاں بھی کوئی مزار دربار آستانہ یا نیک زندہ بزرگ ہو تا اُس سے ملنے چلی جاتی جاکر اپنا حال دل بتا تی لیکن دکھ اُس وقت بہت زیادہ ہو تا جب کسی زندہ اہل روحانیت کے دعوے دار کے پاس جاتی تو وہ چند دن بعد ہی خود میرے اوپر عاشق ہو جاتا اور الٹی سیدھی باتیں شروع کر دیتا نرسنگ پاس کی تو میری شادی میرے کزن کے ساتھ کر دی گئی وہ دنیا دار شرابی زانی تھا میں عبادت گزار راتوں کو نوافل عبادت میں وقت گزارنے والی وہ رات کو جب شراب کے نشے میں دھت گھر آتا تو میں اُس کے پاس بیٹھنے سے انکار کر دیتی تو وہ مجھے وحشیانہ طریقوں سے مارتا تشدد کر تا‘ بہن بھائی ماں باپ تھے نہیں ہر کوئی مجھے ہی قصور وار ٹہراتا کہ تم اپنے خاوند کی ہر جائز ناجائز بات مانوں لیکن میں کیا کر تی میں چوبیس گھنٹے وضو میں رہنے کی کو شش کر تی خاوند دن رات نشے میں دھت رہتا ایک سال تک تو میں شرابی خاوند کا تشدد برداشت کر تی رہتی لیکن جب اُس کی سزا میں میری برداشت سے باہر ہو گئیں تو میں نے لاہور جاکر این جی او میں پناہ لے لی پھر اُس این جی او کی مدد سے خلع بھی لے لی اور ساری عمر کے لیے شادی سے تو بہ بھی کی نرسنگ کا کورس کیا ہوا تھا این جی او والوں کی مدد سے جلد ہی سرکاری ہسپتال میں نو کری مل گی اب میں خوش تھی کہ یہاں پر آزادی سے نوکری اور مریضوں کی مدد کیا کروں گی لیکن میری خوشی کے یہ دن بہت تھوڑے تھے جو بھی ڈاکٹر مجھے دیکھتا میرے حسن پر عاشق ہو کر ڈورے ڈالنا شروع کر دیتا میرے انکار پر مجھے تنگ کر نا شروع کر دیا ڈیوٹی سخت لگانی شروع کر دی میں زندگی کے دن پو رے کر نے کے لیے نوکری کر رہی تھی جب بھی موقع ملتا داتا حضور ؒ یا لاہور کے دوسرے درباروں پر جاکر سلام کر تی لیکن ہسپتال کی انتظامیہ کے لوگوں نے اور بھی تنگ کر نا شروع کر دیا تو اچانک اللہ کی مدد آئی ایک مریض ہسپتال آیا جب اُسے میرے حالات کا علم ہوا تو اُس نے ایک دن مجھے کہا وہ سعودی عرب میں نوکری کر تا ہے اگر تم راضی ہو تو تمہیں کسی ہسپتا ل میں نو کری دلا سکتا ہوں میں نے فوری ہاں کر دی یہ تو میری بہت بڑی خواہش تھی کہ ارض مقدس میں زندگی گزاروں اِس دوران میں مختلف بابوں سے بھی ملتی رہی جو میری انگلی پکڑ کر عشق الٰہی کے پل صراط سے گزار سکیں لیکن فراڈی دھوکے بازوں سے ہی پالا پڑا پھر میری نو کری مدینہ کے قریب ہی ایک ہسپتال میں ہو گئی وہاں بھی میری بابوں کی تلاش جاری تھی کہ کسی نے ایک دن بابا رحیم کے بارے میں بتایا جو پینتس سال سے مدینہ شریف روضہ رسول ﷺ پر تھے اب میں اُن سے ملنے کا پلان بنانے لگی۔

……………………………………………….
مدینے کا بابا (پارٹ 02)

میری دعاؤ ں کا ثمر تھا۔ میری راتوں کے نوافل میں کو ئی سعد گھڑی قبولیت کی ایسی آئی تھی جو بارگاہ الٰہی میں قبولیت کے چبوترے پر فائز ہو ئی اور میری نو کری سعودی عرب میں لگ گئی‘میں خوشی سے نڈھال ہو کر سعودی عرب آگئی تھی میری نوکری مدینہ شریف سے کچھ دور ہسپتال میں لگی تھی ہسپتال میں ایک پاکستانی میاں بیوی ڈاکٹر بھی تھے جو عشق ِ رسول ﷺ اور عشق ِ مدینہ کی وجہ سے وہاں نو کری کر رہے تھے میری جلد ہی اُن سے دوستی ہو گئی جو ہر چھٹی پر مدینہ شریف جاتے جہاں پر وہ برسوں سے مقیم بابا رحیم سے ملتے‘ بابا جی کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن اپنے حلقے میں بابا رحیم کے نام سے مشہور تھے‘ بابا جی مزدوری کر نے مدینہ شریف آئے تھے ایک بار گنبد خضرا کو پینٹ کر نے کا موقع کیا ملا کہ دل کی دنیا ہی بد ل گئی اشکوں سے دھو دھو کر گنبد خضرا کو پینٹ کیا چوم چوم کر باوضو رنگ کیا لیکن دل کی دنیا میں ایمانی رنگوں کے فوارے پھوٹتے چلے گئے‘ دل کی دنیا کیا بدلی کہ دنیا کی ساری سرگرمیاں تر ک کر دیں‘ آپ کاکام صرف عبادت نوافل اور مسجد نبوی ﷺ کی صفائی تھی سعودی کفیل بھی خدا ترس تھا اُس نے بابا جی کی یہ تبدیلی دیکھی تو کہا آج سے تم عبادت کرو اور میرے خاندان کے لیے دعائیں کرو‘ اب بابا جی کاکام شب و روز صرف اور صرف عبادت اور گنبد خضرا کو لگاتار تکنا تھا دن رات کی عبادت اور گنبد خضرا کا مراقبہ ایسا کیا کہ ظاہر و باطن کے تمام تضاد ختم ہو تے چلے گئے کثافتیں دھل کر لطافتوں میں بدلتی چلی گئیں بابا جی کا جب دل کر تا مکہ شریف جا کر عمرے کی سعادت کر آتے باطن میں نور الٰہی ٹھاٹھیں مارنے لگا تو حالت کن فیکون کا مقام ملتا چلا گیا جو دعا منہ سے نکلتی قبول ہو جاتی اِسطرح حلقہ احباب بھی بنتا چلا گیا اب بابا جی کے چند جانثار چاہنے والے بھی پیدا ہو گئے تھے‘ میرے ہسپتال میں کام کر نے والے یہ دونوں میاں بیوی بھی اُن چاہنے والوں میں سے ہی تھے بابا جی کے بارے میں یہ ساری باتیں ان دونوں میاں بیوی نے مجھے بتائیں تو بابا جی سے ملنے کا اشتیاق میرے اندر ٹھاٹھیں مارنے لگاکہ کب جاکر بابا جی کے قدموں کو چھونے کی سعادت حاصل کروں گی آخر کار جمعہ کے دن میں اُن میاں بیوی کے ساتھ مسجد نبوی سبز گنبد کے نیچے بابا رحیم کے سامنے دامن مراد پھیلائے بیٹھی تھی بابا جی کی عمر ستر سال سے زائد تھی‘ بڑھاپے کثرت عبادت اور مسلسل اندو فاقہ کشی کی وجہ سے بابا جی بہت کمزور لگ رہے تھے بابا جی نے مُجھ جنموں کی پیاسی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو لگا برسوں آگ برساتے صحرا میں ننگے سر ننگے پاؤں چلنے کے بعد ٹھنڈے چھاؤں بھرے نخلستان میں آگئی ہوں باطن کے نہاں خانوں کے عمیق ترین بعید ترین گوشوں میں برفیلے کستوری مشک و عنبر میں لپٹے خوشبوؤں کے قافلے سر گرداں نظر آئے ٹھنڈک اور آسودگی کا نشاط انگیز احساس کہ جیسے منزل مل گئی ہو باطن کی ویران ہجر کی تلاش کھوج بے قراری بے چینی بے صبری قرار میں ڈھلتی چلی گئی میرے جسم کا رواں رواں آسودگی کی بارش میں بھیگ رہا تھا اور میں سر شاری کے نقطہ عروج پر تھی یہ میری بابا جی سے پہلی ملاقات تھی پھر ملاقاتوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میری منزل مجھے مل گئی تھی میری صدیوں کی مسافت اب ادھورے پن سے مکمل پن میں ڈھل گئی تھی جب بھی بابا جی سے ملاقات ہو تی تو وہ سبز گنبد سے نظریں ہٹا کر سیدہ کائنات حضرت فاطمہ ؓ کی طرف منہ کر کے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر تے پھر دعاؤں کی پو ٹلی کھول کر سیدہ کائنات ؓ کے وسیلے سے شہنشاہ ِ مدینہ سرکار دو جہاں ﷺ کے حضور پیش کر تے پھر بابا جی اورہم حضرت حمزہ ؓ کی قبر مبارک پر جاتے‘ بابا جی کے بقول آقاکریم ﷺ حضرت حمزہ ؓ سے بہت زیادہ پیار کر تے تھے اِس لیے ہمیں بھی حضرت حمزہ ؓ سے بہت پیار کر نا چاہیے‘ مہینے دو مہینے کے بعد جنگ بدر کے قریب ابوا کے مقام پر شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ کی قبر مبارک پر پہاڑی کے اوپر جاکر عرق گلاب پھولوں کے ہار اور چادر چڑھا کر دعا کر تے‘ آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر تے‘ مدینہ شریف میں حضرت عثمان غنی ؓ کے باغات اور حضرت فاطمہ ؓ جگر گوشہ رسول ﷺ کے گھر جاکر دعاکر تے‘دیدار کر تے‘ بابا جی کو مدینہ شریف کے تمام مقدس مقامات کا پتہ تھا ہمیں بھی اپنی نگرانی میں اُن مقدس مقامات کی زیارت کراتے معلومات کا خزانہ تھے بابا جی ہر جگہ اور مقام کے بارے میں ایمان افروز گفتگو کرتے‘ بابا جی کے زیادہ مرید نہیں تھے اوپر سے سعودی گو رنمنٹ کا بھی اپنا خاص مزاج ہے ا ِ س لیے بابا جی محتاط بھی تھے اور ہم دس سے بارہ لوگوں کا قافلہ کبھی غارِ حرا پر جا پہنچا جہاں پر بابا جی صحت مند ہو تے تو اوپر غار میں تشریف لے جاتے ورنہ وہ نیچے بیٹھ جاتے ہم غار حرا میں جاکر نوافل کی سعادت حاصل کر تے‘ غار حرا کے درودیوار پتھروں کو چومتے کہ یہاں پر آقا کریم ﷺ کی نظر پڑی ہو گی آ پ ﷺ کے جسم مبارک نے چھوا ہو گا پھر ہم غار ثور کی طرف نکل جاتے‘ وہاں پر یار غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی وفا کی اداؤں کو یاد کر تے‘ نذرانہ عقیدت پیش کر تے‘ میں جو بچپن سے کسی ولی کامل کی تلاش میں تھی وہ میری منزل مجھے مل گئی تھی بابا جی تھے اورہم ان کے دیوانے تھے بابا جی مثنوی روم کے حافظ تھے جب وہ مثنوی روم کے اشعار خدا کے ہجر کی باتیں کرتے تو ہماری آنکھوں سے بھی حق تعالیٰ کی یاد کے آبشار آنسوؤں کی شکل ابل پڑتے‘ مجھے بچپن سے بزرگوں کے حالات زندگی اور تعلیمات پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا پاکستان سے جو بھی آتا میں فرمائش کر کے بزرگان دین کی کتابیں منگواتی پھرجو چیز اُن کتابوں میں سمجھ نہ آتی بابا جی سے جاکر پوچھ لیتی‘ بابا جی اُس روحانی نقطے کی وضاحت اتنی شاندار کر تے کہ دل باغ باغ ہو گیا بابا جی کے پاس ہندوستان حیدر آباد سے ایک حکیم بزرگ آیا کر تے تھے جن کی ساری عمر غلام محی الدین ابن عربی کی کتابیں فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم پڑھنے اور سمجھنے میں گزری تھی وہ جب بھی آتے تو ابن عربی کی مشکل ترین کتابوں پر کھل کر بیان کر تے‘ ابن عربی کے مشکل ترین نقطوں کو حکیم صاحب جس طرح آسانی سے بیان کرتے روح سیراب ہو جاتی۔ پھر امام غزالی ؒ کی کیمیائے سعادت مکاشفتہ القلوب احیائے العلوم ابن خلدون کا مقدمہ پڑھ کر روح جھوم جھوم جاتی کتاب رعانیہ الحقوق۔ کتاب اللمع، کتاب التصرف، قوت القلوب، رسالہ قیشیریہ، کشف المعجوب، طبقات الصوفیہ، فتوح الغیب، غنیہ الطالبین، الفتح الربانی، تذکرہ الاولیا، عوارف المعارف، بابا بلھے شاہ ؒ، میاں محمد بخش‘ ؒبابا فریدؒ‘ شاہ حسین ؒ‘ سلطان باہوؒ اور بے شمار تصوف کی کنیت تھیں جو میری ذاتی لائبریری کی زینت بن چکی تھیں میں جن کتابوں کو بار بار پڑھ کر نہ سمجھ پائی تھی اب باباجی نے مجھے وہ سمجھائی تھیں وہ نقطے یا مشکل مقامات جن کی سمجھ نہیں آتی تھی وہ بابا جی مجھے لمحوں میں سمجھا دیتے تھے‘ بابا جی کے سنگ ہم خاک مدینہ کو آنکھوں کا سرمہ لگاتے ماتھوں پر لگاتے‘ مدینہ کی ہواؤں میں لمبے لمبے سانس لیتے خو دکو دنیا کے خوش قسمت ترین لوگ سمجھتے جو جب چاہتے تھے گنبد خضرا کو دیکھ سکتے تھے اُن ہواؤں کو اپنے سینوں میں بھرتے تھے جو روضہ رسول ﷺ کی جالیوں کو چھو کر سبز گنبد کے بوسے لے کر آئی ہو تی تھیں مجھے تین سال بابا جی کی صحبت میں گزارنے کا حق تعالیٰ نے موقع دیا میں نے بابا جی کی زیر نگرانی ہر لمحہ جنت کی طرح گزارا‘میں پاکستان اور یہاں کے رشتے داروں کو بھول چکی تھی مجھے کوئی یاد نہ تھا میں بابا جی کی عقیدت کے نشے میں گم تھی پھر چھ ماہ پہلے بابا جی ہمیں چھوڑ کر حق تعالیٰ کے پاس چلے گئے تو میں خواب سے بیدار ہو ئی، بابا جی نے جنت البقیع کی مٹی کی مقدس چادر اوڑھ لی تو میری زندگی ویران ہو گئی لیکن پھر میں سنبھل گئی بابا جی کی باتیں مجھے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں پاکستان تین سال بعد آئی تو آپ کی کتاب پر نظر پڑی تو مطالعہ کے بعد آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا اور آج آپ کے پاس ہوں میرے بابا جی تو آسودہ خاک ہو گئے ہیں کیا میں آپ کو اپنا بابا جی کہہ سکتی ہوں اس کے ساتھ ہی دعا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیریں اُس کے رخساروں کو بھگونے لگیں میرے اندر ایمان کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگا میں نے دعا کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا بیٹی میں نے زندگی میں کوئی نیکی کی ہے جو اللہ نے آپ جیسی نیک بیٹی کا بابا بننے کا موقع دیا جب بھی پاکستان آؤ تو اپنے اِس بابا سے ملنے ضرور آنا اور خاک مدینہ کو چوم کر میرے لیے دعا کر تے رہنا۔(جاری ہے)


شیئر کریں: