Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قربانی:فکروفلسفہ………….. ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

دنیائے مذاہب میں دین اسلام کی پہچان عقیدہ توحیدہے۔توحید ’’ایک ہونا‘‘کو کہتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ذات باری تعاکی اپنی ذات میں ’’ایک‘‘ہی ہے لیکن اسکا بھیجاہوادین بھی اپنی تمام تر خصوصیات میں دنیا بھر میں اور کل انسانی تاریخ میں ایک اور اکیلاہی ہے۔دنیاکے کسی کونے میں دن میں پانچ دفعہ عبادت نہیں کی جاتی،پورامہینہ مشرق سے مغرب تک امت کاروزوں میں پرویاجاناکی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملے گی،محض ثواب کے لیے لاکھوں خرچ کردینااور پرصعوبت سفر اختیارکرنادنیامیں ناپید ہے،زکوۃ،عشر،خمس اور صدقات کا تصور سن کر تو دوسری دنیاؤں کے لوگ حیران ہی ہو جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ یہ امور کتابوں میں ہی درج ہیں بلکہ حالات کے عروج و زوال کا شکار اس امت نے کبھی بحیثیت مجموعی ان اعمال کو قضا نہیں کیا۔
قربانی کا عمل جس باقائدگی کے ساتھ اور جن جن شرائط کے ساتھ اور جن جن اثرات و نتائج کے ساتھ امت کے اندر جاری و ساری ہے اسکی مثال بھلا کہاں ملے گی؟۔سال خیریت سے گزر جانے پر کل دنیاکے صاحب نصاب مسلمان جن پر زکوۃ فرض ہوتی ہے شکرانے کے طور پر قربانی کرتے ہیں ۔سب مسلمان اس عمل بابرکت میں یوں شریک ہوتے ہیں کہ صاحب نصاب قربانی کرتے ہیں اور جوصاحب نصاب نہیں ہوتے وہ قربانی میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور وہ لوگ جو غربت کی وجہ سے ساراساراسال گوشت جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں اب کی دفعہ وہ بھی پیٹ بھرکے اور دل سیر کر کے گوشت کھا لیتے ہیں اور رب تعالی کا شکر بجالاتے ہیں۔قربانی کا تصور گزشتہ امتوں سے جاری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل جب باہم اختلاف کا شکار ہوئے توانہیں حکم دیا گیا کہ اپنی اپنی قربانی پیش کریں ،ہابیل بھیڑیں لے آیا اور قابیل جو کاشتکاری کرتا تھا،اپنے اگائے ہوئے غلے میں سے ایک حصہ لے آیا۔دونوں نے اپنی اپنی قربانی ایک میدان میں پیش کر دی۔گزشتہ امتوں میں قربانی کی قبولیت کا پتہ اس وقت چلتا تھا جب آسمان سے ایک آگ آکرتو اسکو جلا دیتی تھی۔دونوں کی قربانیوں میں سے ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلادیااور قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی اور یوں انکے اختلاف کا فیصلہ اﷲ رب العزت کی طرف سے چکا دیا گیا۔
گزشتہ امتوں سے بنی اسرائیل تک میں قربانی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔بنی اسرائیل کو انکی ناشکریوں کی جو سزا ملی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انکی شریعت مشکل بنا دی گئی تھی۔چنانچہ ان کے ہاں قربان گاہ ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی اور کہیں قربانی نہیں کی جا سکتی تھی،وہ لوگ قربانی کاگوشت بھی کھا نہیں سکتے تھے،جس کی قربانی قبول ہو جاتی تو وہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتی اور جس کی قربانی قبولیت کے مقام پر نہ پہنچ پاتی تو ویسے ہی نادم اورخائب و خاسرہوجاتا کہ اﷲ تعالی نے اسکی قربانی کو قبولیت کاشرف نہیں بخشا جبکہ ہماری شریعت میں قربانی کا وہی طریقہ رائج کیا گیاجو ملت ابراہیمی یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے جاری تھا۔محسن انسانیت ﷺنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کے مطابق قربانی کا طریقہ دوبارہ رائج کیااور درمیان کی مدت میں جو خرافات و بدعات اس عمل میں داخل ہو چکے تھے انہیں ختم فرمادیا۔
ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنی پیاری چیز اﷲ تعالی کے راستے میں قربان کر رہے ہیں۔نبی کا خواب چونکہ وحی کا حصہ ہوتا ہے اس لیے وہ محض سچی پیشین گوئی نہیں ہوتا بلکہ اﷲ تعالی کا حکم ہوتا ہے جسے پورا کرنا نبی کے لیے ضروری ہوتاہے۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پیاری چیز اپنا بیٹا اﷲ تعالی کے راستے میں قربان کردیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہ سے فرمایا کہ بیٹے کو تیار کردیں کہیں جانا ہے،باپ بیٹا مکہ کی وادی سے نکلے اور منی کے میدان کی طرف چل دیے۔راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے تذکرہ کیا کہ مجھے بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا ہے،سعادت مند بیٹا قربان ہونے کے لیے تیارہوگیااور حضرت اسمئیل علیہ السلام نے فرمایاکہ باباجان آپ کو حکم ہوا ہے اسے پوراکر ڈالیے ۔آسمان نے دیکھاکہ باپ نے اپنی اور اپنے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی تا کہ حکم الہی کے پوراکرنے میں فرط محبت آڑے نہ آجائے اوربیٹے کی گردن پر چھری چلادی ۔ اﷲ تعالی نے اس قربانی کو’’ذبح عظیم‘‘کہ کریادکیاہے۔بیٹے کی جگہ جنت سے ایک مینڈھالاکررکھ دیاگیاجس کے ذبح کی یاد میں ہر سال قربانی کی جاتی ہے۔
اس ذبح عظیم کی یاد میں اسلام نے مسلمانوں کو عید الاضحی کا تہوار دیاہے،یہ خوشی کے تین ایام جن میں روزہ رکھناحرام ہے اور کھانا پینامستحب ہے،پوری دنیاکے مسلمان اﷲ کے نام پر قربانیاں کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔ان دنوں میں اﷲ تعالی کو جانور ذبح کرنے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے کیونکہ یہی اس کے پیارے نبیوں کی سنت ہے۔روایات میں لکھاہے کہ یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں،کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے اور ان کے ایک ایک بال کے بدلے نیکی ملے گی۔قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھااور صحت مند جانور خریدے کیونکہ پل صراط سے انہیں جانوروں پر سواری کرتے ہوئے گزاراجائے گا چنانچہ صحت مندجانور اپنے سوار کو بحفاظت اور سرعت کے ساتھ اس پار جا اتارے گا۔قربانی کے لیے ضروری ہے کہ بالغ اور بے عیب جانور خریداجائے ،لنگڑا،لولااور نابالغ جانورکی قربانی سے منع کیاگیاہے۔قربانی کے جانور کی رقم کسی اورمقصد کے لیے استعمال کرنے سے قربانی کااجرحاصل نہیں ہوگااور قربانی کاوجوب بھی ادانہیں ہوگا۔تاہم اپنے سے دور قربانی کی رقم اس لیے بھیج دینا کہ وہیں قربانی کر دی جائے،جائزہے۔رشتہ داراس حسن سلوک کے زیادہ حق دار ہیں کہ جو لوگ امریکہ یا یورپ سمیت دنیاکے دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں اور انہیں وہاں قربانی کرنے میں دقت پیش آتی ہے یا نہیں آتی تو بھی وہ اپنے مادر وطن میں قربانی کی رقم ارسال کردیں اور یہاں انکے عزیزواقرباانکے نام کی قربانی کر دیں تو قربانی کاوجوب اداہوجائے گا۔
ایک بکرے یا مینڈھے میں ایک فرد قربانی کرسکتاہے جبکہ گائے،بیل یااونٹ میں سات حصے دار اپنی قربانی کر سکتے ہیں۔بہتر ہے کہ قربانی کاجانور خود ذبح کیاجائے لیکن قصاب کی خدمات لے لینا بھی جائز ہے لیکن اس صورت میں کوشش کی جائے کہ گردن پر چھری چلانے کا عمل خود کیاجائے ،یا پھر کم از کم اتناتو ضرور ہی کیاجائے کہ قصاب جب گردن پر چھری چلائے تو اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھر دیاجائے۔ذبح کرنے سے پہلے جانور کو پانی پلانا،بوقت ذبح جانور کا منہ قبلہ رخ کرنا،مسنون دعاپڑھنااور چھری کی دھارکو خوب تیزکرکے چھری چلانا پسندیدہ امور ہیں جن کی پابندی باعث ثواب ہے۔قصاب کو مزدوری کے طور پر کھال دینایاگوشت کا کچھ حصہ دیناجائز نہیں ہے،تاہم مزدوری اداکرچکنے کے بعد ہدیہ کے طورپریاصدقے کی نیت سے قصاب کو کچھ بھی دے دیناجائز ہے۔قربانی کی کھال ان اداروں کو دینی چاہیے جو شرعی پابندیوں کے ساتھ معاشرے میں غرباومساکین کی بھلائی میں کوشاں ہیں۔اگر کسی مجبوری کے باعث قربانی کے جانور کی کھال بیچ دی گئی ہوتوپھراس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا ممنوع ہے تب لازم ہے کہ وہ رقم کسی مستحق کو تھمادی جائے۔آپ ﷺ کا طریقہ مبارکہ تھاکہ قربانی کے جانور کا گوشت پکنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے اور دن کے کھانے کا آغاز قربانی کے گوشت سے ہی کرتے تھے۔یہ اس جانور کا احترام ہے کہ جو ہماری خاطراپنی جان سے گزر گیااور ہم کم از کم اسکے گوشت کے پکنے تک کاتوانتظار کریں۔عیدالاضحی کو بڑی عید کہتے ہیں کیونکہ اس کی عمر کم و بیش چار ہزار سالوں پر محیط ہے۔
قربانی ان دس سنتوں میں سے ہے جن کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا، انہوں نے سب سے پہلے بت خانے کی مورتیوں کو اپنی ٹھوکروں سے پاش پاش کیا اور جھوٹے خداؤں کی قربانی دی ۔ہمارے لیے یہ سبق ہے کیا ہم نے اپنے سینے میں جمائے ہوئے ناجائزخواہشات کے بت توڑ ڈالے ہیں؟؟اولاد کا بت بہت بڑا بت ہوتا ہے جس کی گردن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری چلا دی تو کیا آج ہم اپنی اولادکی ناجائز خواہشات کوقربان کرتے ہیں؟؟کیاہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے یہ سبق سیکھاکہ اولاد کی خاطر ہر جائزوناجائز،حلال و حرام اور صحیح وغلط کی پابندیوں کو توڑ دینا درست نہیں؟؟حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر نبی کی طرح اپنے وطن کی قربانی دی اور دین کی خاطر اﷲ تعالی کے حکم سے ہجرت کی کیاہم نے اپنے وطن کا بت توڑا؟؟’’سب سے پاکستان‘‘کا نعرہ لگا کر امت کو پس پشت ڈال کر اور اپنے وطن کا بت پوج کر ہمیں کیاملا؟؟۔قرآن نے واضع طور پر فرمایا کہ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے منہ موڑا اس نے گویا اپنے آپ کو دھوکا دیا۔سوقربانی کا سبق ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جس طرح ایک نبی علیہ السلام نے اپنی محبتوں کا مجموعہ اﷲ تعالی کے راستے میں پیش کردیاہم بھی اپنی خواہشات کو نبی ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے تابع کر دیں،جانورکی گردن پر چھری چلانا دراصل اپنی ناجائز خواہشات پر چھری چلانا ہے جس کو تقوی کانام دیا گیاہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالی تک قربانی کا گوشت نہیں پہنچتا بلکہ تقوی پہنچتا ہے ۔قربانی تو تمام تر شرعی قوائدوضوابط کے ساتھ کر ڈالی لیکن خواہشات نفسانی کے جانور کو بے لگام چھوڑ دیاتو پھر گویا قربانی چہ معنی دارد؟؟عملی زندگی ہر ہر قدم پر قربانی مانگتی ہے اور نبیوں کے طریقے کے مطابق ہر ہر قربانی کواﷲ تعالی کے حضور پیش کیے جانا یہ سبق ہے جو ہر سال کے آغاز سے پہلے سنت ابراہیمی ہمیں یاد کراتی ہے۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: