Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انسان،اسلام کی نظر میں……….محمدآمین گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

انسان جسم و روح سے مرکب ایک مخلوق ھے۔مرنے کے بعد تو اس کا جسم گل سڑ جاتا ھے لیکں اس کی روح ذ ندہ رہتی ھے۔موت انسان کے لیے فنا و نوبودی نیہں ھے اس لحاظ سے انسان قیامت تک برزخی ذندگی گزارتا ھے انسانی زندگی کے مختلف مراحل خصوصا اس کا آخری مرحلہ کہ جو اس کی روح کو دوبارہ بدن میں پھونک دیے جانے سے شروع ھوتا ھے کےحوالے سے قران مجید فرماتاھے
،،پھر ہم نے ایک دوسری مخلوق بنادیا (المومنوں :14)
اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ھے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ھے ،،(المومنون:100)
ہر انسان توحیدی اور خدا کی پاک فطرت پر خلق کیا جاتاھے وہ اسی لحاظ سے اگے بڑھے اور بیرونی اسباب کو منحرف نہ کریں تو وہ راہ حق کو طے کرے گا ۔کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر خطا کار،گنہگار اور بدخو نیہں ھوتا بلکہ ناپاکی اور بری خصلتیں عارضی،اتفاقی اور بیرونی اثرات کا سبب ھوتی ھیں ،اسکی مورثی قبیح عاداتیں اور ذہنیتین بھی ایسی نیہں ھیں جو انسانی ارادہ و خواہش کے نتیجے میں تبدیل ھونے والے نہ ھوں ۔لہذا آج کل کے عیسائیوں کا یہ اعتقاد کہ ،، گناہ فرزندان ادم کی فطرت میں ھے،، بالکل بے بنیاد ہے۔ قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ھے۔

،، اپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں، یہ دین وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے اور خلقت الہی میں کوئی تبدیلی نیہں ہوسکتی ھےیقینا یہی سیدھا اورمستحکم دین ھے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بلکل بے خبر ھے ،، (الروم:30)
پیغمبر ﷺ نے اس سلسلے میں فرمایا ،،کوئی نومولود ایسا نیہں جو پاک فطرت ( خدائے یکتا کی پرستش کرنے والا ) پیدا نہ ھو،،۔(توحید صدق)
انسان ایک مختار اور قدرت والا اور صاحب انتخاب مخلوق ہے ۔یعنی وہ عقل کی طاقت سے کسی کام کو مختلف پہلوون پرجانچ پڑتال کے بعد انجام دینے یا ترک کرنے کا فیصلہ کرتا ھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ھے

،،اور کہدو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ھے اب جس کا جی چاہے ایمان لے ائے۔ اور جس کا جی چائے کافر ھو جائے ،،۔( الکہف:29)
انسان عقل کی طاقت کا مالک ھے اس لیے برے بھلے کی تمیز کرسکتا ھے اس کے علاوہ اختیارو انتخا ف کا بھی مالک ھے اس لحاظ سے انسان تربیت و تہذیب کو قبول کرنے والا مخلوق ھے اور ہر وقت اس کے لیے نشونما،ترقی اور خدا کی طرف لوٹنے یعنی توبہ کرنے کا دروازہ موت کی گھڑی تک کھلا رہتا ھے۔لیکن موت کا لمحہ آن پہنچنے کے بعد توبہ قبول نیہں ھوتی۔اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ھے

رحمت خدا سے ناامید نہ ھونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ھے۔،،(سورہ الزمر:53)آ
انسان چونکہ نور عقل اور اختیار کی نعمت کا مالک ھے اس سے ایک زمہ دار اور جواب دہ مخلوق ھے ۔قرآن مجید نے بشر کی اس حثیت کے سلسلے میں وضاحت فرمائی ھے کہ
اپ اپنے عہدوں کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (اسرار:34)
کوئی بھی انسان دوسرے انسان پر برتری وفضلیت نیہں رکھتا ۔زندگی کے ہر شعبے میں فضیلت وبرتری کا واضح اور روشن میعار تقوی اور پرہیز گاری ھے جیسا کہ قران مجید فرماتا ھے

،،اے انسانو:ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ھے اور تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیے ھیں تاکہ آپس میں ایکدوسرے کو پہچان سکو ۔بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرہیز گار ھے۔،،(الحجرات:13)

اخلاقی قدریں درحقیقت میں انسانیت کے اصول ہیں اور فطری بنیادوں کے حامی ھیں یہ اصول محکم اور ابدی ھیں زمانہ کا بدلاو اور سماجی تغیرات ان میں تبدیلی نیہں لاسکتے ۔ان اخلاقی اصولوں کے علاوہ بھی ادابو رسومات کا سلسلہ پایا جاتا ھے کسی زمان و مکان کے شرائط ان پر اثرانداز ھوکر ان کو تغیرو تبدیل سے دوچار کرتے ھیں ان کا بدی اور ناقابل تغیر اصولوں سے کسی قسم کا ربط نیہں ھے ۔قران مجید محکم و پیدار اخلاقی و عقلی اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ھوے فرماتاہے
،،کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ھوسکتا ھے،،(الرحمن:60)
اللہ نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نیہں کرتا ۔(یوسف:90)

چند بیرونی عوامل کو چھوڑ کر قوموں کی ترقی یا پسماندگی ایسے اسباب ،علتوں کا نتیجہ ھے کہ جن کی جڑیں خود ان قوموں کے عقائد،اخلاق و کردار میں پیوست ھیں یعنی مجموعی طور سے مشیت الہی کا انحصار اس پر ھے کہ قومیں اپنے عقائدو رفتار و کردار کے زریعے اپنی قسمتوں کا تعین کریں ۔جیسا کہ قرآن فرماتا ھے

،،جب تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمہارے ہی لیے ہیں اور ہم تو (کامیابی اور شکست کو ) زمانے کے لوگوں کے درمیاں الٹتے پلٹتے رھتے ھیں،،(آل عمران:140،139)

تاریخ بشر کا مستقبل روشن اور خوفناک ھے یہ بات صحیع ھے کہ انسانی زندگی نا انصافیوں اور نا منظم حالات سے دوچار رہی ھے لیکں یہ حالات پائدار نیہں ھے بلکہ تاریخ بشر ایک روشن مستقبل کی طرف جارھا ھے جس میں عدل و انصاف کی بیناد پر حکمرانی ھوگی اور قرآن مجید کی تعبیر میں صالح و نیک بندے زمین پر حکمرانی کریں گے جیسا کہ فرماتاھے

،،اور ھم نے زکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ھے کہ ھمارے زمین کے وارث ھمارے نیک بندے ھی ہوں گے،،(انبیاء:105)
قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ھے کہ انسان خصوصی عظمت کا مالک ھے اس حد تک کہ فرشتوں کو اس سے سجدے کرنے کا حکم ہوا ھے
،،اور ھم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی اور انہیں خشکی اور دریاوں میں سواریوں میں اٹھایا ھے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ھے اور اپنی مخلوقات میں بہت سوں پر فضلیت دی ھے ،،(بنی اسرائیل :70)
انسانی نقطہ نظر سے انسان کی عقلی حیات خصوصی مقام و منزلت کی حامل ھے کیونکہ انسان کا دیگر حیوانات سے فضلیت و امتیاز کا میعار اسی کی عقل و قوت فکر ھےجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ھے
،،جو لوگ اٹھتے،بیٹھتے اور لیٹے خدا کو یاد کرتے ھیں اور اسمان و زمین کی تخلیق میں غورو فکر کرتے ھیں کہ خدایا تو یہ سب کچھ بیکار میں پیدا نیہں کیا (ال عمران :191)

اسلام میں انفرادی ازادی کا ایک نمونہ یہ بھی ھے کہ دین کو قبول کرنے میں کسی طرح کا جبرواکراہ نہیں ھے جیسا کہ ارشاد ھے۔
،،دین میں کسی طرح کا جبر نیہں ھے ہدایت گمراہی سے واضع اور الگ ھوچکی ھے،،۔(البقرہ:256)

کیونکہ اسلام میں دین سے مراد ایمان اور یقین قلب ھے اور یہ ایسی چیز نہں ھے کہ تشدد اور زور زبردستی سے انسان کے دل میں ڈال دی جائے بلکہ اس کا دارومدار مقدمات کے طور پر چند سلسلہ وار شرائط کے حاصل ھونے پر منحصر ہے کہ ان میں سے اہم تریں حق و باطل کا واضع ھونا ھے ۔یہ امر مسلم ھے کہ عام حالات میں انسان حق کا انتخاب کرتا ھے۔

اسلام میں اقتصادی ،سیاسی اور اس طرح کے دیگر مسائل کی قلمرو میں انفرادی ازادیاں اس آمر پر مشروط ھیں کہ یہ اخلاقی و معنوی عظمتوں اور قدروں سے ٹکراؤ نہ رکھتی ھو اور عمومی مصلحتوں کو پامال نہ کریں حقیقت میں اسلام میں فریضہ کا فلسفہ یہی ھے کہ انسان کو قوانین کا پابند کرکے اس کی انفرادی عظمت کی حٖفا ظت کی جائے اور عمومی مصلحتون کی ضمانت فراھم کی جائے اسلام میں بت پرستی اور شراب نوشی اور اسی طرح کی دوسرے چیزوں کی ممانعت انسان کی عظمت اور اس کی تقدس کی حفاظت کے لیے ھے اسی سے انسان کی تعزیراتی قوانین کا فلسفہ بھی واضع ھے۔جیسا کہ قرآن حکیم نے قصاص کے نفاذ کو انسان کی حیات کے اسباب سے تعبیر کیا ھے ۔ارشاد ھے
صاحبان عقل:تمہارے لیے قصاص میں ذندگی ھے،،(البقرہ:178)

رسولﷺ کا ارشاد ھے کہ اگر کوئی شخص مخفی طور پر کسی گناہ کا مرتکب ھو جائے تو اسکا نقصان اسکی ذات تک محدود ھے لیکں اس سے کھلم کھلا انجام دے اور کوئی اس پر اعتراض نہ کرے تو اس کا نقصان عوام و الناس کو پہنچے گا۔اسطرح صادق آہل بیت آطہار، امام جعفر الصادق،کا فرمان ھے اس امر کی علت یہ ھے کہ گناہ کو کھلم کھلا اور لوگوں کے سامنے انجام دینے والا اپنے اس طرزعمل سے دین خدا کے تقدس کو پامال کرتاھے اور خدا کے دشمن اسکی اطاعت کرتے ھیں۔(وسائل الشیعہ)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
24736