Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“محمد ظفر شاکر ؔ…..چراغ تھا ہما را جو بُجھ گیا ” تحریر: محمد شراف الدین فریاد ؔ

شیئر کریں:

محمد ظفر شاکر ؔجس کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنے کو دل ہی نہیں چاہتا مگر اللہ کی مرضی کے آگے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ آپ رشتے میں میرے
کز ن تھے۔ 04 اکتوبر 1982؁ء کو کھر برمس گلگت میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک کی ابتدائی تعلیم بوائز ہائی سکول امپھری گلگت سے حاصل کیں آپ میں تعلیمی قابلیت اور صلاحیتیں اس قدر شاندار تھیں کہ قاعدہ کلاس سے لیکر جماعت پنجم تک سکول کے بچوں میں ٹاپر کی پوزیشنز لیتے رہے، پھر آپ نے تعلیمی سفر کا رخ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر1 گلگت کی طرف موڑ دیا اور جماعت ششم سے جماعت نہم تک مسلسل سکول ٹاپر کا اعزاز برقرار رکھا جس پر انہیں محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان کی جانب سے شاندار تعلیمی قابلیت کے اعتراف میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ بعد اذاں آپ نے پبلک سکول اینڈ کالج جوٹیال سے بہت ہی شاندار نمبرات کے ساتھ F.Sc مکمل کیں اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے تحت ہونے والے امتحانا ت میں پرائیوٹ طالب علم کی حیثیت سے حصہ لیکر گریجویشن کی ڈگری حاصل کیں اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ہی ایم اے انگلش میں داخلہ لیا اور شاندار پوزیشن میں یہ مرحلہ بھی طے کرلیا۔

ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا رخ کر لیا اور وہاں سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرلی۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) اسلام آباد سے انگریزی زبان کا کورس بھی مکمل کرلیا اور گلگت واپسی پر ایک پرائیوٹ سکول ” پبلک سکول اینڈ کالج ” میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ اسی دوران آپ رشتہ ازدواج سے بھی منسلک ہوئے اور جگلوٹ کے معزز خاندان میر قبیلے کے داماد بن گئے۔

درس و تدریس کے اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے آپ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں لیکچرار بن گئے چونکہ آپ کے پاس ایم اے لسانیات کی اضافی ڈگری بھی تھی جس کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعینات کیا۔ کہتے ہیں کہ روپیہ پیسہ کی دولت خرچ کرنے سے اس دولت میں کمی واقع ہوجاتی ہے مگر علم وہ واحد اور لازوال دولت ہے جس کو جتنا زیادہ خرچ کروگے اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ میں گورنمنٹ ملازمت ملنے کے بعد بھی علم کا شوق کم نہ ہوسکا، کلاس رومز مینجمنٹ سے متعلق امریکہ میں منعقد ہ ایک تعلیمی تربیتی کورس میں بھی حصہ لیا اور شاندار نمبرات پر مبنی سرٹفیکٹ حاصل کرلیا۔

اس کے علاوہ فرانس میں علاقائی زبانوں سے متعلق بین الاقوامی ٹریننگ ورک شاپ اور سیمنار میں حصہ لیتے ہوئے گلگت بلتستان کی مادری زبان” شینا” میں مقالہ پیش کیا اور زبردست اندا ز میں پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کی بھرپور نمائندگی کا حق ادا کیا۔ اس کے علاوہ علاقائی زبانوں اور ثقافت سے متعلق امریکہ میں 06 ماہ کا جو تربیتی کورس رکھا گیا تھا اس میں بھی محمد ظفر شاکر ؔکو ہی پاکستان اور گلگت بلتستان کی نمائندگی کا موقع ملا جن کی شاندار تعلیمی قابلیت پر امریکی حکومت کی جانب سے اعزازات و اسناد سے نوازا گیا۔

اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں منعقدہ علاقائی زبانوں کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس میں بھی آپ نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پورے خطے کا نام روشن کیا۔ محترمہ ماروی میمن صاحبہ کی کوششوں سے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آبا دمیں علاقائی زبانوں سے متعلق جو سیمنار منعقد کی گئی تھی اس میں بھی برادر محمد ظفر شاکرؔ ہی تھے جنہوں نے بھرپور انداز میں شینا زبان کی نمائندگی کا حق ادا کردیا اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد میں منعقدہ انٹرنیشنل یوتھ کنونشن میں میرے اس عظیم بھائی کو نہ صرف یوتھ کی قیادت کرنے کا اعزاز ملا بلکہ اس پورے عمل میں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا مثبت اور خوبصورت چہرہ دنیا بھر کو دکھانے کا موقع بھی حاصل ہوا اور شاندار انداز میں اپنے خطے کی نمائندگی کیں،

ان دنوں آپ ائیر (Air) یونیورسٹی اسلام آباد سے شعبہ لسانیات میں Ph.D کر رہے تھے، تین سال کا کورس مکمل کیا تھا اور آخری ایک سال رہ گیا تھا کہ آپ اللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔ معلوم ہوا ہے کہ ائیر یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامیہ نے آپ کو Ph.D کی اعزازی ڈگری دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔کہتے ہیں کہ کوئی انمول انسان جب تک زندہ و سلامت رہتا ہے اس کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے اور جب وہی انسان دنیا سے کوچ کرجاتا ہے یا پھر گمنام ہوجاتا ہے تو لوگوں کو یاد آنے لگتا ہے۔ آ ج مجھے بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ میں نے اپنی 19 سالہ صحافت میں تقریباً ہزاروں کی تعدا دمیں مختلف ایشوز پرکالم نگاری کی ہوگی مگر اپنے اس عظیم بھائی کی زندگی میں ان سے متعلق ایک لفظ بھی تحریر نہ کرسکا

۔مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ اتنے جلدی ہی ہم سے الگ ہوجائیں گے بہرحال یہی احساس مجھے ہر وقت ستاتا رہے گا۔ 30 جولائی 2019؁ کو جب آپ اس دنیا سے کوچ کرگئے تو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ایک ہنگامہ برپا ہوا تھا،آپ یقین کرلیں کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا لمحہ کبھی نہیں دیکھا تھا،پھر آپ کا نماز جنازہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا اجتماع تھا،

گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا گراؤنڈ جو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور ہر آنکھ کو میں نے اشک بار دیکھا۔۔۔یہی ہوتی ہے ایک اچھے اور نفیس انسان کی پہچان۔۔۔محمد ظفر شاکرؔ جن کو ہم فیملی والے ” ظفر خان ” کہتے تھے نہ صرف قابلیت و علم کا سمندر تھے بلکہ آپ جس قدر انتہائی سمارٹ اور خوبصورت تھے آپ کا اخلاق اس سے بھی کئی گنا زیادہ خوبصورت تھا گویا کہ آپ صورت وسیر ت دونوں لحاظ سے عظیم تھے۔

آپ کی رحلت کے بعد اخبارات میں بے شمار تعریفی پیغامات پڑھنے کو ملے ان میں سابق وزیر اطلاعات عنایت اللہ خان شمالی کا یہ بیان کہ علم و ادب کے لحاظ سے کھر برمس کی سرزمین ویسے بھی بہت ذرخیز ہے مگر ان میں محمد ظفر شاکرؔ ایک بہت ہی انمول ہیرا تھے جس کی وفات سے نہ صرف کھر برمس ویران سا ہوگیا ہے بلکہ پورے گلگت بلتستان کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ صدیوں تک ممکن نہیں۔ واقعی آپ نہ صرف ہماری فیملی کے چمکتاہوا ستار ہ تھے بلکہ پور ے خطے کے عظیم اثاثہ تھے۔ یہاں اس انمول ہیرے کو تراشنے میں ان کے دو عظیم اور بڑے بھائیوں محمد عالم اور محمد یونس سروش کا اگر ذکر نہ کروں تو یہ ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔

محمد ظفر شاکر ؔکی کامیابیوں میں جہاں ان کی خدادادصلاحیتوں اور قابلیت کا کمال ضرور ہوگا مگر آپ کے دونوں بڑے بھائیوں محمد عالم اور محمد یونس سروش ؔجو کسی تعارف کے محتاج نہیں اور ان کا بھی معاشرے میں بڑا نام ہے کی مالی معاونت اور بہتر اخلاقی تربیت کا عمل دخل بھی شامل ہے۔ ان دونوں عظیم بھائیوں کے لیے بس اتنا ہی کہوں گا کہ دنیامیں بہت ہی کم خوش نصیب بھائیوں کے نصیب میں ایسے ہی بھائی شاید قدرت تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہوتے ہیں۔ محمد ظفر شاکرؔ ہمارے کلچرل پروگراموں میں بھی رونق ہوا کرتے تھے میں آج تک ان کے الفاظ کو بھول نہیں پایا ہوں کہ جب وہ اسٹیج پر مجھے بلاتے تو تعریفی الفاظ کا ایسا جملہ کس دیتے تھے جیسے سمندرکو کوزہ میں بند کردیا جاتاہے۔

آپ مجھ سے یہ گلہ بھی کرتے تھے کہ” ککا ” ہماری گلگت بلتستان کی کلچر میں پشتو و انڈین دھنوں کی جو یلغار ہورہی ہے اس کی روک تھام کے لیے بھی کچھ کریں اور خواتین کو جی بی کلچر کے نام پر ناچ گانے جو ہورہے ہیں اس سے ہماری قدیم ثقافت مسخ ہورہی ہے خدا کے لیے اس پر بھی آواز اُٹھائیں۔ آپ سے اکثر اتنی ملاقات تو نہیں ہوتی تھی البتہ جب شینا زبان کے قدیم الفاظ سے متعلق پوچھنا ہوتو وہ کبھی کبھارفون پر مجھ سے بات کرلیتے تھے اور آپ کی اخلاق سے بھری گفتگو سن کر یقین کرلیں کہ جسم میں جو تھکاوٹ ہوتی وہ دور ہوجاتی تھی۔

موت کی نیند میں سب نے سوجانا ہے اکثر اوقات ہم نے دیکھ لیا کہ ایسے عظیم اور نایاب لوگ بہت جلدی ہی سوجاتے ہیں وہ ہمارا چراغ تھا پوری قوم کا روشن باب تھا جو بُجھ گیا اور بند ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہے۔ آخر میں گلگت بلتستان کی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن سے اپیل کروں گا کہ میرے اس مرحوم بھائی کو ان کی بے شمار علمی، ادبی صلاحیتوں کے اعتراف میں سول حکومتی ایوار ڈ کا اعلان کریں۔

کہتے ہیں کہ جو والدین قابلیت کے بادشاہ ہوتے ہیں ان کی اولاد بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔ میر ے اس بھائی کو اللہ پاک نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے نوازا ہے اگر حکومت ان کی تعلیم و تربیت میں معاونت کرے تو محمد ظفر شاکر ؔکی طرح وہ بھی قیمتی ہیرے بن کر سامنے آسکتے ہیں جو ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ محمد ظفر شاکرؔ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے اور اہل خانہ سمیت پورے خاندان کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔


شیئر کریں: