Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن‘‘………..عبدالکریم کریمی

شیئر کریں:

وہ دن اپنی تمام تر مصروفیات کے ساتھ طلوع ہوا تھا جب میں غذر میں دوچار دن بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد گلگت پہنچا تھا۔ کسی پروگرام میں اتنی مصروفیت ہوئی کہ شام تک فون ہی اٹنینڈ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ شام کو جب فرصت ملی تو جونہی سوشل میڈیا پر آن ائیر ہوا۔ ہر طرف ایک ہی خبر چھائی ہوئی تھی کہ پروفیسر ظفر شاکر ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے آغا خان ہیلتھ میں زیر علاج ہے لہذا دوست احباب سے صحت یابی کی دُعا کی درخواست کی گئی تھی۔ میں حیران بھی ہوا کہ موسمی بخار کی وجہ سے تھوڑا مسلہ ہوا ہوگا لیکن یہ لوگ اس معمولی بیماری کو اتنا ہائی لائٹ کرکے پریشانی کیوں کریئٹ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس خبر کی سنگینی کا علم شام کو کسی اور میٹنگ میں ہوا۔ ابھی میٹنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ کسی دوست نے پوری صورت حال سے آگاہ کیا یہ معمولی بخار نہیں پروفیسر صاحب غالباً سانس کی تکلیف کی وجہ سے ہوسپٹیلائز ہوئے ہیں۔ خیر اسی دوران میں نے ان کے بڑے بھائی ہمارے اچھے دوست یونس سروش صاحب کا نمبر ملایا۔ مگر جواب ندارد۔ دوستِ محترم حفیظ شاکر صاحب کا نمبر ٹرائی کیا ان کا نمبر بھی مسلسل مصروف جا رہا تھا۔ اس لیے کسی سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
دوسرے دن مجھے واپس گاؤں جانا تھا بچوں کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں ان کو واپس گلگت لانا تھا سو میں آفس آٹنینڈ کرنے کے بعد سرِ شام سوئے غذر رواں دواں تھا۔ میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا گلگت کے دوسرے دن کی یہ شام قیامت بن کے گلگت پر ٹوٹے گی۔ گلگت کا یہ ہونہار بیٹا اس شام اپنی آخرت کے سفر پر پابہ رکاب ہوگا۔
prof zafar shakir
پروفیسر ظفر شاکر کو میں زیادہ قریب سے نہیں جانتا تھا ہاں ان کے بڑے بھائی یونس سروش اور ان کے چچا عبدالحفیظ شاکر ہمارے اچھے دوست ہیں۔ ایک علمی خاندان اور خصوصا مولوی عبدالفراح (مرحوم) جیسے شب زندہ دار انسان سے واسطہ بھی ان احباب کی علم دوستی کا ایک وسیلہ تھا۔ ورنہ پروفیسر تو بہت سارے ہیں، پی ایچ ڈیز تو دنیا جہاں کے آپ کو ملیں گے لیکن ادب، سلیقہ اور علم گستری شاید کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔
مولا علیؑ کا فرمان پاک ہے: ’’علم جن کے اندر سے گزر جائے وہ حلیم ہوتے ہیں لیکن علم جن کے سر سے گزر جائے وہ مغرور۔‘‘
پروفیسر مرحوم سے ملتے ہوئے گمان ہوتا تھا کہ یہ علم حاصل نہیں کرچکے ہیں بلکہ پی چکے ہیں۔ ان سے ایک آدھ بار ہی ملاقات ہوئی تھی وہ بھی حلقہ اربابِ ذوق کے ماہانہ طرحی مشاعروں میں یا قراقرم یونیورسٹی میں کوئی کانفرنس ہوتی تو وہ خلوص و محبت سے بغلگیر ہوتے۔ ان کی انسان دوستی دیکھئے مجھے اچھی طرح یاد جب میری بیٹی آغا خان ہسپتال کراچی میں زیر علاج تھیں تو پروفیسر صاحب مسینجر پر پل پل کی خبر لیتے۔ پوچھتے سر! ہمارے لائق کوئی خدمت ہوتو ضرور بتا دیجیئے گا۔ ان کا یہ جملہ اب بھی سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔ ’’سر! بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ناں۔ آشا آپ کی ہی نہیں ہماری بھی بیٹی ہے۔‘‘
ان کی موت کی خبر نے اہلِ دل کو اندر سے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ آج صبح جب میں دوست محترم جمشید دُکھی صاحب سے یونس سروش صاحب کے گھر کا پتہ پوچھ رہا تھا۔ دکھی صاحب گلگت بلتستان کے چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ انہوں نے فون پر مجھے ان کے گھر کا لوکیشن بتا دیا۔ ان کے بتائے ہوئے ایڈریس کو میں نے جب اپنے ڈرائیور کو بتایا تو میرے گھر سے ان کے گھر تک غالباً دس منٹ کا فاصلہ تھا۔ یونس بھائی اکثر کہا کرتے تھے ’’کریمی صاحب! ہم بھی آپ کی ہمسائیگی میں سونیکوٹ میں رہتے ہیں۔ کبھی گھر تشریف لائیں۔‘‘ لیکن اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں شاید ہم زندگی میں ایک دوسرے کے پاس جانے کے لیے وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔ ہمیں ملانے کے لیے بھی موت سبب بنتی ہے۔ ایسے وقت میں بس ایک ہی حسرت دُعا بن کے لبوں پر پھسلتی ہے اللہ کرے ہم زندگی میں ایک دوسرے کو وقت دے۔ خیر تعزیت کی غرض سے جب میں ان کے گھر پہنچا تھا یونس سروش بھائی جو کافی مضبوط اعصاب کے مالک انسان ہیں، آج ہزار کوشش کے باوجود جب مجھ سے بغلگیر ہوئے تو اپنے آنسو نہیں چھپا سکے۔ جوان بھائی کی موت آسان کام نہیں اللہ پاک انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔
ذرا ٹھہرئیے! کیا واقعی یہ ایک عام سی موت تھی یا شہادت۔ موت اور شہادت میں بڑا فرق ہے۔ موت کا ذائقہ تو ہر ذی نفس کو چھکنا ہے لیکن شہادت کے لیے تو رب اپنے خاص بندوں کو چنتا ہے۔ پروفیسر ظفر شاکر وفات نہیں پائے ہیں شہید ہوئے ہیں۔
یہی ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے:
’’علم حاصل کرنے کی راہ میں موت واقع ہوجائے تو وہ موت نہیں شہادت ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
’’شہید کے خون سے کسی طالب علم کے قلم کی سیاہی بہتر ہوتی ہے۔‘‘
پروفیسر ظفر شاکر بھی پی ایچ ڈی کے دوسرے سال کا طالب علم تھے۔ وہ ائیر یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ یونس بھائی کے بقول وہ چھٹیاں گزارنے اپنے فیملی کے ساتھ خود ڈرائیو کرتے ہوئے کچھ دن پہلے ہی بابو سر اور ناران کاغان سے ہوتے ہوئے گلگت پہنچے تھے۔ یہ فیملی کے ساتھ ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔
یونس بھائی کہ رہے تھے کہ ان کو نمونیا کی تکلیف پچھلے سال سے تھی۔ پھر اسلام آباد میں بھی وہ کافی علیل رہے تھے۔ گلگت پہنچ کر بھی سانس کی تکلیف کچھ زیادہ رہی جو بالآخر ان کی ناگہانی موت کی صورت اختیار کر گئی۔ قالو انا للہ و انا الیہ راجعون!
جب تعزیت کے بعد امر الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور صبر کی تلقین کے ساتھ میں یونس بھائی سے اجازت لے رہا تھا تو انہوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا ’’سر! وہ ہمارے بھائی ضرور تھے لیکن اس سے کئی زیادہ وہ قوم کے فرزند تھے ہم اس لیے بھی اس کی جدائی برداشت کرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے زندگی میں بھی ہمیں کم ٹائم دیا اس کا اکثر وقت مطالعہ، درس و تدریس اور علم کے حصول کے لیے گھر سے باہر گزرتا تھا۔‘‘
جزاک اللہ و احسن الجزا! شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی جدائی کے غم میں صرف گلگت نہیں بلکہ پورا گلگت و بلتستان نڈھال ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے خوب ہی کہا ہے؎
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
اللہ پاک علم کے اس مجاہد کی روح کو اپنے اصل میں واصل کرے اور پسماندگان خصوصاً ہماری بھابھی، ان کے دس سالہ شہزادے اور ان کی ننھی پری کو پاپا کی جدائی کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
وقت بڑا مہربان ہوتا ہے ہر زخم وقت کے ساتھ مندمل ہوتا ہے۔ لیکن ان کے ننھے بچے اس کیفیت سے ضرور دوچار ہوں گے۔ کسی دل جلے نے اس شعر میں اپنا دردِ دل ہی نہیں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں؎
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اُداس، بہت بے قرار گزرے گی


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
24569