Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ……….. برن اینڈ ٹرا ما یو نٹ ………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

وزیر اعلیٰ محمود خان نے مرا کز صحت کو آ لات کی فرا ہمی کا حکم دیا ہے اس خبر کے ساتھ دوسری خبر چھپی ہے جو بیحد اہم ہے شافیہ بی بی بنت حسن خان نویں جما عت میں پڑھتی تھی آتشز دگی میں بری طرح جھلس گئی اس کو چترال سے پشاور لے جا یا گیا مگر جا نبر نہ ہو سکی ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر قریبی ہسپتال میں برن سنٹر ہو تا اور 6گھنٹے کے اندر علا ج ہو تا تو اس کی جا ن بچائی جا سکتی تھی مگر 15سالہ بیما ر کو 10گھنٹے کا سفر کر کے صو بائی دار لحکومت پہنچا یا گیا تھا حقیقت یہ ہے کہ پشاور میں بھی سپیشلائز ڈ علا ج کی سہو لت آگ میں جھلسنے وا لی بیمار کے لئے مو جو د نہیں ہے ایسے بیما روں کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کھا ریاں ریفر کیا جا تا ہے تا ہم شافیہ بی بی نے پشاور کے ہسپتال میں جان دیدی برینس چترال سے تعلق رکھنے والی شافیہ بی بی کی کہا نی دلچسپ مر حلے میں اُس وقت دا خل ہوئی جب اخبار نو یسوں کے ایک وفد کو بتا یا گیا کہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں امیر حیدر خان ہو تی نے انٹر نیشنل این جی او WISHکے ما لی اور تکنیکی تعاون سے ملک کا جدید ترین برن اینڈ ٹرا ما یو نٹ (Burn and Trauma Unit)تعمیر کرا یا تھا مشینری بھی منگوا ئی تھی تمام سہو لتیں دی ہو ئی تھی یہاں تک کہ بجلی کی کمی سے بچنے کے لئے سو لر سسٹم بھی لگوا لیاتھا 2013ء میں نئی حکومت آگئی 2015ء میں یو نٹ کی تعمیر اور مشنری کی تنصیب کا کام مکمل ہوا لیکن نئی حکومت نے برن اینڈ ٹرا ما یو نٹ کا چارج لینے، ڈاکٹر مہیا کرنے اور اس شعبے کو چلا نے سے انکار کیا انگریزی محا ورے کی رو سے ”سٹیٹ آف دی آرٹ“ عمارت 4سا لوں سے خا لی پڑی ہے اسی طرح 2014ء میں تعمیر ہو نے وا لی دو عمارتیں خا لی پڑی ہیں ایک عمارت دل کے مریضوں کے یونٹ کے لئے تعمیر ہوئی تھی دوسری عما رت میں یو را لوجی یونٹ قائم ہونے وا لا تھا 2003ء میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کو کٹیگری ”بی“ کا درجہ دینے کے بعد ہسپتال کو 4نئے یو نٹ دیئے گئے تھے کارڈ یک کیر یونٹ، یورا لو جی اینڈ کڈنی یونٹ، آرتھو پیڈ ک یو نٹ اور برن اینڈ ٹرا ما یو نٹ ان نئی سہو لیات میں شامل تھے 2014ء میں امراض چشم کا پرانا یونٹ بھی بند کر دیا گیا 2013ء میں ہسپتال کے فضلے کو ٹھکا نے لگانے کے لئے آغا خان ہیلتھ سروس نے 3کروڑ روپے کی جدید مشینری یعنی انسے نی ریٹر (Incenirater)کا تحفہ دیاتھا اس کی تنصیب کر کے فضلے کو ٹھکانے لگانے پر دو لاکھ روپے کے معمو لی اخرا جا ت کا تخمینہ تھا گذشتہ 6سالوں میں ہسپتال کے لئے تخفے میں دی گئی مشنیری کی تنصیب نہیں ہوئی یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے اس کے لئے 2013سے پہلے دو اہم کمیٹیا ں کام کر تی تھی ایک کمیٹی ڈیڈک کے نا م سے پہچانی جا تی ہے اس کمیٹی میں بجٹ کے لئے تجا ویز اور بجٹ کو خرچ کرنے کے اصول و ضوابط پر عملدر آمد نیز تر قیاتی تر جیحا ت طے کی جا تی ہیں یہ کمیٹی گذشتہ 6سا لوں سے غیر فعال ہے برائے نا م میٹنگوں میں نئی ضروریات، عوا می مسائل اور انتظا می محکموں (Line departments) کے مسا ئل پر بات کرنے اور صو بائی حکومت کو تجا ویز دینے کا سسٹم بند کر دیا گیا ہے صوبائی حکومت کا خیال ہے کہ نئی تجا ویز آنے سے نئے و سائل کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے کوئی تجویز اوپر نہ بھیجی جائے وزیر اعلیٰ محمود خان کے علم میں سوات کے عوامی مسا ئل باربار لائے جاتے ہیں دوسرے اضلاع کے سلگتے مسا ئل نہیں لائے جا تے گزشتہ 6سالوں سے جو تر قیاتی کام بند پڑے ہیں یا ادھورے چھوڑدیے گئے ہیں، ان کا تذکرہ نہیں ہو تا ضلع کے اندر صحت کے مسا ئل پر نظر رکھنے کے لئے ڈپٹی کمشنر چترال، ڈسٹرک ہیلتھ افیسر اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پر مشتمل خصو صی کمیٹی امیر حیدر خان ہو تی کے دور میں قائم ہوئی تھی اُس کمیٹی کو بھی غیر فعال کردیا گیا ہے کیونکہ کمیٹی میں صحت کی سہو لیات کا ذکر ہوتا تھا نئی تجا ویز آتی تھیں صو بائی حکومت کو تعا ون، گرانٹ، نئی آسا میوں کی منظوری وغیرہ کے لئے سفا رشات بھیجی جا تی تھیں چھوٹے مو ٹے مسائل انتظا می اقدا م ات کے ذریعے حل کئے جا تے تھے اگر یہ کمیٹی فعال ہو تی تو برن اینڈ ٹرا ما سنٹر کی رپورٹ صوبائی حکومت کو بھیجی جا تی نئی آسامیوں کی منظوری لی جا تی یا پہلے سے دستیاب آسا میوں پر سپیشلائز ڈ سٹاف کا تقرر کیا جا تا 15سالہ شافیہ بی بی دختر حسن خان کی طرح سینکڑوں مریضوں کا علا ج ہو چکا ہووتا DHQہسپتال چترال کے برن اینڈٹرا مایونٹ کے تا لے اگر کھول دیئے جا ئیں تو یہ ایسا یونٹ ہے جو ملا کنڈ ڈویژن کے 9اضلاع کو جھلسے ہوئے مریضوں کے علا ج کی سہو لت فرا ہم کر سکتا ہے لیکن،لیکن کے بعد بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیا وزیر اعلیٰ کے حکم سے DHQہسپتا لوں میں صحت کی بنیا دی سہو لیات فرا ہم کی جائینگی؟ مو جو دہ حا لا ت میں جواب مشکل ہے اگر کور کمانڈر پشاور، جی او سی ملا کنڈ اور کمانڈر ٹا سک فورس چترال نے جرمن امداداورWISH انٹر نیشنل کے تعا ون سے DHQہسپتال چترال میں 4سال پہلے مکمل ہونے والے برن اینڈ ٹرا ما یو نٹ کو کھلوا نے اور اس میں علا ج کی سہو لیات مہیا کرنے میں دلچسپی نہیں لی تو اگلے 4سالوں تک یہ یونٹ بند رہے گا ؎
میں نے چاند اورستاروں کی تمنا کی تھی
مجھے رات کی سیا ہی کے سوا کچھ نہ ملا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
24471