Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ………میں ٹی وی کے سامنے ……….محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

گھر میں جب ٹی وی کے کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو ٹی وی لگی ہوئی ہوتی ہے۔۔بچے ہیں کہ اس کی سکرین پہ نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔۔ایک کے ہاتھ میں ریموٹ ہوتا ہے۔مجھے دیکھ کر کوئی کچھ نہیں کہتا نہ کوئی حرکت ورکت ہوتی ہے کہ ابو نام کا بندہ آگیا۔۔ابو کا کیا آئے گا جائے گا۔۔وہ جو فاصلے تھے مٹ گئے ہیں۔وہ بھی آکے ایک کونے کھدرے میں بیٹھ جائے گا۔۔یہی ایک کمرہ ہے گھر نام کی جھونپڑی میں اور کمرہ نہیں کہاں جائے گا۔۔میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں۔سکرین پہ نظرین جاتی ہیں اگر خیر سے کرکٹ کا میچ نہ ہو تو کوئی ڈرامہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ننگے تڑنگے پتلون پہنی بیٹیاں ہیں۔پھر بیٹے ہیں۔پھر ماں بہن بیٹی کا کردار بھی ہے۔۔ ایک بھائی ہے۔ایک باپ ہے۔۔معاشرے کی کوئی مجبوری ہے۔۔ کوئی ناسور ہے۔۔ ظلم و زیادتی ہے۔اس کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرکے لکھاری اس کے خلاف جد و جہد کرنا چاہتا ہے۔۔چلتے پھرتے کرداروں کے منہ سے جو الفاظ اور جملے ادا ہوتے ہیں۔۔معیاری نہیں ہیں کہ ماں بیٹے کو کیسے مخاطب کرے۔بہن بھائی سے کیسی بات کرے۔۔ابو کا جملہ حکم کہلائے یا نہ کہلائے۔۔بیوی شوہر کا احترام کیسے کرے۔شوہر بیوی کا کیسا خیال رکھے۔۔یہ سب ذرا”ماڈرن سٹائل“ ہیں۔اقدار تکنیکی ہیں۔۔سن کے لگتا ہے کہ بس ”اداکاری“ ہے۔۔نقل ہے۔جھوٹ ہے۔دل سے کوئی کچھ نہیں کرتا۔افلاطون نے ان کو دیس سے نکال دیا تھا۔۔کہ یہ نقل کی نقل ہے۔دل کرتا ہے کہ اس کردار کے منہ سے میں بولوں۔یہ جملہ یوں نہ ہو یوں ہو۔۔بس نہیں چلتا۔نہ قلم میں طاقت ہے کہ واقعی سے ڈرامہ لکھا جائے جس میں زندگی اپنی اصل شکل میں پیش ہو۔۔۔غربت غربت ہو۔۔۔امیری واقعی میں امیری ہو۔۔۔محبت محبت کے روپ میں ہو۔۔عشق عشق ہو کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھیں۔وقفہ ہوتا ہے تو ریموٹ والا چینل بدلتا ہے۔۔ breaking news ہے یعنی تازہ خبر۔یا تو چوری ڈکیتی کی خبر۔۔یا بارش سیلاب کی۔۔یا کسی حکمران کی نااہلی کی۔۔۔پھر جھوٹ پہ جھوٹ۔۔یا اللہ یہ معاشرہ ہے کہ جنگل ہے۔۔پھر نغمے ہیں کہ سننے سے متلی آجائے۔سیر سپاٹے ہیں۔ساتھ جو تبصرے ہوتے ہیں جی بے زار ہوتا ہے کہ تبصرہ کرنے والا کس زبان میں بات کر رہا ہوتا ہے پتہ نہیں چلتا کہ وہ انگریزی میں بات کر رہا ہے کہ اردو یا کسی دوسری زبان میں۔۔جلسے جلو س دکھائے جاتے ہیں۔۔ ایک بے ہنگم شور اور ایک بے ربط اجتماع ہے۔۔آگے سیاسی بیانات ہیں بس کہ جھوٹ کا پلندہ۔۔ ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کی مشق جو جتنا پروپیگنڈہ کرے وہ سیاسی مستنڈہ ہے۔۔ کا میاب لیڈر ہے۔۔سیاست کو گلی کوچوں میں لانی ہے۔۔بس افواہ کو۔۔ صداقت کو نہیں۔۔خلوص اور خدمت کو نہیں۔۔دوسرے کے اچھے کام بھی کوئی حیثیت نہیں رکھیں گے۔ماضی کو گالی دو۔مستقبل کا خواب دکھاؤ۔۔خواہ تعبیر ممکن ہو نہ ہو۔۔میں ٹی وی دیکھتا ہوں۔۔یہ لو جیو نیوز ہے۔۔یہ اے آر وائی ہے۔یہ سماء ہے۔یہ آج ٹی وی ہے۔یہ ہوم ہے۔یہ پیس ہے۔۔یہ لو ”ٹیبل ٹاک“ ہے مختلف پارٹیوں کے نمائندے ہیں۔ان سے سوال پوچھا جاتا ہے۔وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں اور غلطیوں کو دھراتے ہیں۔اپنا گریبان تار تار کرتے ہیں۔ایک دوسرے کو کیا کیا نہیں کہا کرتے۔۔یہ لو گ کہ جنہوں نے باری باری عنان اقتدار سنبھال چکے ہیں۔۔اگر چور ہیں تو اس حمام میں۔۔۔اگر صادق امین ہیں تو اللہ اللہ خیر صلا۔۔یہ کیسی قوم ہے۔۔یہ اس قوم کے کیسے بڑے ہیں۔بائیس کروڑ قوم کا وزیر اعظم بیرون ملک گیا ہے اگر اس کی عزت ہوتی ہے تو بایئس کروڑ قوم کی عزت ہے۔۔اگر اس کی خدا نخواستہ توہین ہو رہی ہے تو پوری قوم کی توہین ہے۔۔اپنے گھر کی بیدی لنکا ڈھائے۔یہ سوال ہے کہ ہم با شعور ہیں کہ شعور سے خالی روبوٹ ہیں۔اگر نمائندے نااہل ہیں توان کومنتخب کرنے والے کس کھاتے میں ہیں۔اگر اہل ہیں تو ان کو چننے والے مطمئین کیوں نہیں ہیں۔دل کرتا ہے کہ یہ ٹی وی ہی بند کیا جائے۔لوگ کہیں گے کہ اس سے آگاہی ہوتی ہے۔۔جواب ہے کس چیز سے آگاہی۔۔نااہلی سے۔۔نفرت سے آگاہی۔۔لگتا ہے کہ ہمارا ملک ہے۔۔ان کا نہیں ہے جو اس سے مخلص نہیں ہیں۔۔ اس سمے لگتا ہے کہ ان کا ملک ہے جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہمارا ملک تھوڑی ہے۔۔دونوں سوچیں زہر ہیں۔حب الوطنی کے جذبے کا قاتل۔۔ تو کیا ہمارا میڈیا حب الوطنی میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔۔جواب ہرمحب وطن کے پاس ہے۔۔۔شاید دینے سے معذور ہو۔۔سب اپنی ٹی ویاں بند کرکے ایک لمحے کوسوچا کریں۔۔


شیئر کریں: