Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تاریخ ساز انتخابات کا اصل امتحان باقی ہے……… پیامبر……. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان کی تاریخ میں اہم باب قبائلی علاقوں میں کامیاب انعقاد ہونا ہے۔ سابق فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام اور پھر صوبائی اسمبلی کے لئے اُن علاقوں میں جمہوری روایات کے مطابق انتخابات منعقد ہوئے۔ جہاں سے شدت پسندوں کی مرضی کے بغیر پَر بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ جن علاقوں کی پہچان دہشت گردی، شدت پسند، ڈرون حملوں میں ہلاکتیں اور مبینہ ٹریننگ کیمپ ہوا کرتی تھی۔ قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد صوبائی انتخابات ایک ایسا مرحلہ تھا جس کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ سیکورٹی چیلنج کے حوالے سے پوری دنیا کی نظریں اس اہم خطے پر تھی کہ قانون نافذ کرنے والوں نے قبائلی علاقوں میں قدامت پسندی کی جگہ جمہوریت کے لئے راستہ کتنا وسیع کیا ہے تو آج ثابت ہوگیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قبائلی علاقوں کی محب الوطن عوام نے جتنی تکالیف برداشت کیں، جان و مال کی قربانیاں دیں آج سے ان کے حقوق کی نئی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے کہ اب قبائلی عوام ایف سی آر کے غلامی کے طوق کے بجائے مملکت پاکستان کے اُس قانون و حقوق تک مکمل رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جتنا پاکستان کے کسی بھی دوسرے علاقے کے شہری کو حاصل ہیں۔ یہ سفر طویل، صبر آزما اور دقت طلب تھا۔ اس سفر کو طے کرنے کے لئے 7 دہائیوں سے زاید کا سفر کانٹوں پر چل کر طے گیا ہے۔ فرد واحد کے کالے قانون کے تحت قبائلی عوام کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا ہوا اور انہیں اذیتوں سے گذرنا پڑا۔

قبائلی علاقوں میں انتخابات کے دوران دو واضح اظہار رائے سامنے آئی ہے۔ ایک روایتی و ثقافتی قبائلی رجحانات پر مشتمل آزاد اراکین کی کامیابی اور دوئم مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کی جانب عوامی اعتماد۔ یعنی اگر اسے یوں کہا جائے کہ قبائلی روایات کی بنیاد پر مذہب اور قوم پرستی غالب رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے یہ بات یقینی حوصلہ افزا ہے کہ قبائلی عوام نے بڑی تعداد میں پہلے صوبائی انتخابات میں حصہ لیا۔خواتین کو گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشن آنے تک کی سہولت دی گئی۔ بلکہ اس انتخابات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ قدامت پرستی کی سوچ کے مقابلے میں دو خواتین نے بھی حصہ لیا۔ انہیں اپنی کامیابی کا یقین ہرگز نہ ہوگا لیکن انہوں نے پس ماندہ روایات کو توڑ کر اخلاقی فتح حاصل کی۔ قبائلی علاقوں کی ثقافت کے پیش نظر با اثر و رسوخ کے حامل امیدواروں کی بڑی تعداد میدان میں اتری۔ قوم پرستی، مذہب اور قبائلی وابستگی سے مزین ان انتخابات نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا جس کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے مبارک باد و تحسین کے مستحق ہیں جن کی دن رات کی کاوشوں اور ملک دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود ناممکن کو ممکن کردکھایا۔قبائلی عوام نے دنیا کے سامنے ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کے شہری ہیں، ان کی شناخت پاکستان ہے اور وہ اپنی سرزمین سے پیار کرتے ہیں۔ ملک دشمن عناصرکی سازشیں ناکام ہوئیں۔ ممکنہ صورتحال کا یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آزاد اراکین کا اسمبلی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کے بجائے حکمراں جماعت کی جانب رجحان ہو، کیونکہ حکومت کا حصہ بن کر ہی وہ اپنے علاقوں میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں، تاہم تحریک انصاف کو اس وقت آزاد اراکین کی شمولیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن قبائلی انتخابات میں آزاد اراکین کے بعد زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تحریک انصاف ضرور خواہشمند ہوگی کہ آزاد اراکین ان کے حلیف بن جائیں تاکہ عددی قوت کی وجہ سے انہیں مزید قبائلی علاقوں میں سیاسی اثر رسوخ بڑھانے کا موقع ملے جس سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران سیاسی پوزیشن بہتر ہوسکے۔

قبائلی علاقوں میں صوبائی انتخابات کے بعد ریاست کی ذمے داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ اراکین صوبائی اسمبلی اپنے علاقے کے حقوق کے لئے صوبائی اسمبلی جائیں گے، آواز اٹھائیں گے۔انہیں اپنے اپنے علاقوں کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی، مواصلاتی نظام، تجارت، روزگار اور سیکورٹی سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہوگا اور ووٹر چاہیں گے کہ اُن کے پس ماندہ و احساس محرومی کے شکار علاقے جلد ازجلد پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں کے ترقیاتی و سہولت کے حوالے سے قریب تر آسکیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ساتھ ہسپتال اور سماجی سرگرمیوں کے لئے وسیع پُرامن میدان کی فراہمی ریاست کی اولیّن ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ گو کہ وفاق نے قبائلی علاقوں کے لئے خصوصی پیکچ کا اعلان کیا ہے تاہم مسائل کے انبار کے حوالے سے دیا جانے والا پیکج انتہائی ناکافی ہے۔ ریاست کی اہم ترین فرائض میں پاک۔ افغان تعلقات کی بہتر بحالی و سرحدوں کے دونوں اطراف رہنے والے سینکڑوں برسوں سے رشتوں و خاندانوں میں ڈھل جانے والے قبائل کی ثقافت رسم و رواج سمیت انہیں سرحد پار دہشت گرد عناصر کی بزدلانہ کاروائیوں سے بچانے کے لئے مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ سرحد پار ملک دشمن عناصر کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں کہ قبائلی عوام اپنی ثقافتی شناخت کے ساتھ پاکستان سے جڑے رشتے میں مزید مضبوط ہوچکے ہیں لہذا ان کی جانب سے کسی بھی ناخوشگوار سازش کا کئے جانے خارج ازامکان نہیں ہوسکتا۔ قبائلی نوجوانوں کو نام نہاد جعلی نعروں و ریاست کے خلاف بھڑکانے والوں کے شر انگیز پروپیگنڈے سے نکالنے کے لئے اب اراکین صوبائی اسمبلی کی نمائندگی بھی شامل ہوگئی ہے اس لئے حکومت اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانے میں کسی سستی یا کوتاہی کا مظاہرہ نہ کرے۔

صوبائی انتخابات کے بعد اگلا مرحلہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے اور یہ جمہوری نظام کی ایک ایسی نرسری ہے، جو مستقبل میں ایک بہتر معاشرے کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک انصاف اس وقت خیبر پختونخوا میں بلا شرکت غیرے برسراقتدار سیاسی جماعت ہے۔ یقیناََ ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں ان کے بلدیاتی نمائندوں کا اسٹرکچر ہو۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام ہونے والے نئے اضلاع سے تحریک انصاف کو توقعات وابستہ ہیں۔ قبائلی علاقوں میں حالیہ صوبائی انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں قبائلی علاقوں میں سازگار سیاسی ماحول نہیں دیا۔ ان کے جلسے، جلوس و ریلیوں سمیت ان پر غیر اعلانیہ سیاسی نقل وحرکت کی پابندیاں بھی رہیں۔تاہم تمام تر تحفظات کے باوجود قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات اس حوالے سے اہم ہیں کیونکہ قبائلی عوام جمہوری حقوق کے حصول کے ایک نئے راستے پر چل نکلے ہیں، اگر یہاں کچھ غلطیاں دانستہ یا غیر دانستہ ہوچکی ہیں تو مستقبل میں اس کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر صوبائی انتخابات کے بعد علاقائی اراکین اسمبلی اور عوام اپنے بنیادی حقوق و آئینی اختیار سے محروم رہتے ہیں تو یہ یقینی طور پر یہ ریاست کے لئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔

تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی اظہار رائے اور سیاسی سرگرمیوں کی یکساں مواقع فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔ ان کے کسی عمل سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ اُن کا کوئی مخصوص گروہ پسندیدہ ہے۔ ان علاقوں میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کے تصور نے پہلے ہی کافی بگاڑ پیدا کردیا تھا۔ اب اگر گڈ پولیٹیکل پارٹی اور بیڈ پولیٹیکل پارٹی کے نظریہ کو فروغ دیا گیا تو یہ مملکت کی نظریاتی اساس کے لئے نقصان دہ بن سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ قبائلی علاقوں کے مسائل ان کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں حل کرائے جائیں گے، نیز سیکورٹی مسائل و حل کے حوالے سے انہی عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جاتا رہے گا۔ قبائلی علاقوں (سابق فاٹا) کا قومی دھارے میں شامل ہونا سیاسی جماعتوں اور عسکری ادارے کی مشترکہ کاوشوں کی اجتماعی کوشش ہے۔ جس کے لئے سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستانی عوام اپنے قبائلی بھائیوں کی کامیابیوں کے لئے دعا گو ہیں کہ جس طرح پُر امن انتخابات سے عالمی برداری کو مثبت پیغام گیا اس سے ہر پاکستانی کو فخر ہے۔اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے۔


شیئر کریں: