Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ………. مشکل فیصلہ ……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

منتخب جمہوری حکومت نے ایک مشکل فیصلہ کرنا ہے یہ ایسا مشکل فیصلہ ہے جو پی پی پی اور پی ایم ایل این کی حکومتوں کے بس کاکام نہیں تھا مشکل فیصلہ یہ ہے کہ گذشتہ 20سالوں کے اندر ”اتھارٹی“کے لاحقے لگا کر جتنے سرکاری ادارے بنائے گئے ان کو یکسر ختم کر کے تمام کام پہلے سے موجود محکموں کے حوالے کئے جائیں یہ کام اس لئے ضروری ہے کہ قدرتی آفات کی اتھارٹی محکمہ موسمیات سے معلومات لیکر سیلا ب کی خبرداری (وارننگ) جاری کرتی ہے سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد نہیں کرتی حلال فوڈ اتھارٹی خوراک کے نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھیجتی ہے آگے کچھ نہیں ہوتا یہ کامDFCبہتر انداز میں کرتا تھاتعلیم کے محکمے میں قائم ہر اتھارٹی اپنی اتھارٹی استعمال کر کے تعلیم میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس کام کی جگہ محکمہ تعلیم کا متعلقہ شعبہ اطمینان، تسلی اور کامیابی کے ساتھ سکو لوں کی نگرا نی کا فریضہ انجام دیتا تھا صحت کے شعبے میں دو سے زیادہ اتھارٹیزبنائی گئی ہیں اور ان کو وہی کام دئے گئے ہیں جو کام ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر اور ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر بہتر طریقے سے انجام دیتے تھے نئی اتھارٹی اور اضافی اخراجات کی ضرورت نہیں تھی اس سلسلے میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)بنا کر ڈپٹی کمشنر کے اختیارات اور وسائل اسلام آباد میں گمنام دفتر کے اندر بیٹھے ہوئے بہت بڑے افیسر کو دیئے گئے ہیں سندھ، بلو چستان، کشمیر، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخواکے پہاڑی، میدانی یا ساحلی علاقوں میں سے کسی جگہ قدرتی آفت، سیلاب یا زلزلہ آئے تو موقع پر موجود انتظامیہ کے پاس اپنی گاڑی میں ڈالنے کے لئے تیل بھی نہیں ہے متاثرین کو دینے کیلئے خیمہ نہیں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کا منصوبہ (contingency plan)ہوتا تھا اُس کو ختم کر دیا گیا ہے این ڈی ایم اے کی طرح ایک اور سفید ہاتھی صوبائی دارلحکومت میں لاکر اس کا نام پی ڈی ایم اے رکھا گیا ہے دونوں کا کام یہ ہے کہ قدرتی آفت کی صورت میں متاثرین کی بحالی کے کاموں میں رکاوٹ ڈالیں طریقہ واردات یا SOPیہ ہے کہ این ڈی ایم اے کسی بھی ادارے کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتی اُس کے پاس کسی آفت کا جائیزہ لینے کے لئے وقت نہیں ہے بڑے صاحب کو ہر وقت مصروف رکھا جاتا ہے ماتحت عملہ کاغذ نہیں پڑھتا جب تک بڑے صاحب خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں کوئی کام ہونے نہیں دیتے اور بڑے صاحب کو کبھی فرصت نہیں ہوتی ڈپٹی کمشنر موقع پر موجود فیلڈافیسر ہے اُس کی باقاعدہ رپورٹنگ لائن ہے وہ کمشنر کو رپورٹ کرتا ہے کمشنر سے ہوم سکرٹری اور چیف سکرٹری کے پاس رپورٹ جاتی ہے حکومت نقصانا ت کے مطابق اقدامات اٹھاتی ہے متاثرین کے ساتھ انتظامیہ کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے کوتاہی کی صورت میں انگریزی محاورے کی رو سے ”موسیقی سننا“ پڑتا ہے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے والے غیر متعلقہ لوگ ہیں اس لئے بحالی کا جو کام دو مہینوں کے اندر ہونا چاہیے وہ 10سالوں میں بھی نہیں ہوتا 2005ء کے زلزلے سے متاثر ہونے والا بنیادی ڈھانچہ اب تک بحال نہیں ہوا نیو بالاکوٹ سٹی کا ہنگامی کام بھی ناکامی سے دوچار ہوا 2012ء او ر2015ء کے سیلابوں میں متاثر ہونے وا لے دیہات میں اب تک بحالی کا کام نہیں ہوا 2005ء سے پہلے مقامی انتظامیہ کے پاس اور ذمہ دار محکموں کے پاس فنڈ ہوتے تھے 2005ء کے بعد تمام وسائل این ڈی ایم اے کو دیدئے گئے دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ڈونر ایجنسیاں، سول سوسائٹی کے ادارے اور غیر سر کاری تنظیمیں متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے کام کرتی تھین ان پر یہ پابندی لگا ئی گئی کہ کام کرنے کے لئے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سے عد م اعتراض کا سرٹیفیکٹ (NOC)لے آئیں NOCکو اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا یا گیا ہے کہ 2015ء میں درخواست دینے والوں کو 2019ء تک NOCنہیں ملاان ناکام تجربات کی روشنی میں اب وقت آگیا ہے کہ ایک مشکل فیصلے کے ذریعے این ڈی ایم اے اورPDMAسمیت تمام اتھارٹیز کو ختم کیا جائے جن لوگو ں کو بڑے عہدے اور مراعات دینے کے لئے یہ اتھارٹیز بنائی گئی تھیں اُن کو کسی اور جگہ کھپایا جائے کم ازکم قدرتی آفت سے متاثر ہونے والی آبادی اُن کے شر سے محفوظ رہے گی موجودہ حکومت شفافیت اور بچت کے اصولوں پر کار بند ہے سادگی کے ساتھ کفایت شعاری کرتے ہوئے عوام کی خدمت کرنے پر یقین رکھتی ہے اس لئے مرکز اور صوبوں میں مخصوص افراد کو نوازنے کے لئے نواز دور سے لیکر آج تک جو اٹھارہ اتھارٹیا ں بنائی گئی ہیں ان سب کو ختم کرکے وسائل سول انتظامیہ کو دے دئیے جائیں یہ مشکل فیصلہ ہے مگر ناگزیر ہے اور عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کے مفا د میں بھی ہے


شیئر کریں: