Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہندرپ نالے کا قضیہ…………………..دامنِ شندور سے تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:

اُس زمانے میں ہندرپ جھیل تھا۔بدغشان سے ہجرت کرکے آنے والے ”ٹونگ بابا“ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ ہندرپ جھیل کے کنارے پڑاؤ ڈالا۔جھیل کے کنارے بیٹھے بیٹھے باپ،بیٹے اور بیٹی کئی روز تک تذبذب کا شکار رہے۔ایک دن باپ، بیٹے اور بیٹی میں مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ طے ہوا کہ جھیل کے کنارے میں ہی کوئی ٹھکانا بسایا جائے۔اُسی شام کو اچانک میر شاہ نے اپنے بابا سے کہا، تم بہن کو لے کر یہی رُکو، میں شونجی نالے میں شکار کھیل کر آؤں گا۔میر شاہ کے شونجی نالہ جاتے ہی ایک درویش ٹونگ بابا کے پاس حاضر ہوا اور دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔بیٹھتے ہی درویش نے بابا سے پوچھا: یہاں کیسے آنا ہوا؟ ٹونگ بابا بولا: سکونت کے لئے مستقبل جگہ ڈھونڈ رہا ہوں۔یہ سُن کر درویش نے کہا، ہندرپ کے سُنسان جھیل کے کنارے پاؤں جمانا مشکل نہیں ہے؟ ٹونگ بابا تھوڑی دیر کے لئے رُکا اور پھر بولا: جو کشتیاں جلا کر نکلتے ہیں وہ ہر مشکل کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔درویش نے اِدھر اُدھر دیکھا، تھوڑی دیر کے لئے توقف کیا پھر سرگوشی میں پوچھا: آپ کے پاس بیٹھی یہ خاتون بیٹی ہے یا بہو۔۔؟ ٹونگ بابا بولا: یہ میری بیٹی ہے، یہ کہنے کی دیر تھی۔ درویش نے نقد ہی رشتے کی پیشکش ظاہر کردی۔اگردوشیزہ اُس کی نکاح میں دے دی جائے تو وہ اپنی دُعاؤں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ فرمائیں گے اور جھیل کی پانی کا نکاس ممکن بنانے میں کوئی نہ کوئی سبیل نکالیں گے۔ٹونگ بابا تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا: جب تک بیٹا شکار سے واپس نہیں آتا تب تک کچھ کہنا بے سود ہے۔یہ سنتے ہی درویش نے ایڈوانس ہی آسمان کی طرف منہ کرکے ہاتھ اُٹھایا اور زیر لب کچھ بھڑبھڑانے کے بعد رخصت ہوا۔جب صبح ہوگئی تو ہندرپ میں جھیل کے پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔دوسرے روز ابھی سورج کے شعاعوں سے زمین گرم بھی نہیں ہوئی تھی میر شاہ تھکے تھکے قدموں سے نالے سے واپس آیا اور حیرت و خوشی کے ملے جُلے جذبات سے بابا سے جھیل کی پانی کے غائب ہونے کی وجہ معلوم کی تو ٹونگ بابا نے بولا: یہاں ایک درویش نمودار ہوا تھا اور اُس نے آپ کی بہن کے ساتھ نکاح کی شرط میں جھیل کا پانی غائب کردیا۔اب بیٹی کی رشتے کا کیا کریں۔۔۔؟ یہ کہتے ہوئے ٹونگ بابا میر شاہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔میر شاہ نے کہا۔درویش پھر آجائے تو دیکھا جائے گا۔یہ کہتے ہوئے اُس نے دور دور تک پھیلی ہوئی ہندرپ کی زرخیز زمین پر نظریں جمادیں۔وہاں ہر طرف خاموشی اور سکون تھا۔درویش دوسرے دن پھر حاضر ہوا۔میر شاہ نے نظروں ہی نظروں میں درویش اور اپنی بہن کی شخصیت کا موازنہ کیا۔تو اُسے درویش حُور کے پہلو میں لنگوُر دِکھنے لگا۔میر شاہ نے درویش کا غور سے جائزہ لینے کے بعد رشتہ دینے سے انکار کردیا۔لیکن درویش ضِد پر اُتر آیا اور بولا: جھیل کی پانی کے اخراج میں رشتہ مشروط ہے۔یہ سُن کر میر شاہ کا چہرہ غصے سے تمتا گیا اورہ وہ نیام سے تلوار نکال کر کھڑا ہوا اور جارحانہ انداز میں درویش کو مخاطب کیا کہ ”واپس جھیل بھرو یا کچھ بھی کرو، مجھے یہ رشتہ منظور نہیں“ یہ سُن کر درویش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔اُس نے چمکتی آنکھوں سے میر شاہ کو دیکھا اور بولا: میری ایسی کوئی تمنا ہی نہیں، تو میرا خون کر اور نہ ہی مجھے تیری بہن کی ضرورت ہے۔یہ کہتے ہوئے درویش ڈھیروں بددُعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوا۔میر شاہ گہری سوچوں میں گُم سُم ہوکر کبھی ہندرپ کے کیچڑ میں درویش کے قدموں کے نشانات کو اور کبھی دریائے شندور میں کوہِ ہندوکش کے پہاڑوں کے عکس کو دیکھتا رہا۔اُس کے بعد وہ دن اور آج کا دن وہ درویش تو کبھی واپس نہیں آیا۔لیکن دہشت گرد۔۔۔۔۔ آفریں خان کی صورت میں درپیش ضرور آیا۔
معزز قارئین۔۔۔۔۔اس افسانوی کہانی کو یہی روک کر اصلی کہانی کا رُخ کرتے ہیں۔ہندرپ دس ہزار فٹ بلندی پر دو آبہ بستی کا نام ہے۔۔اس کے دائیں جانب دریائے شندور بہتا ہے اور بائیں جانب دریائے شونجی خِراما ں خِراماں گزرتا ہے۔دریائے شونجی دریائے شندور کی نسبت جہاں کئی گُنا صاف اور شفاف ہے وہاں انتہائی یخ اور مزیدار بھی ہے۔دریائے شونجی میں موجود ٹراؤٹ کی نسل میں سونے کے ذرات چپکے ہوتے ہیں۔ان دونوں دریاؤں کے سنگم میں ہرکش کا سبزہ زار واقع ہے۔ہرکش کے جنوباََ مٹی کے دیوہیکل ٹیلے پر گلاغتوری کی حُسن و دلکشی اپنی مثال آپ ہے۔گلاغتوری اور گلاغمولی کے مابین”گاچھرکِش“ نامی ندی کے بہاؤ پر دودھ کے ابشار کا گمان ہونے لگتا ہے۔جو حد درجہ دیدنی ہے۔اس ندی کی نسبت سے ندی کے فرازی حصّے کا نام گلاغتوری جب کہ نشیبی حصے کا نام گلاغمولی پڑگیا ہے۔
ہندرپ میں داخل ہونے کے لئے گلاغتوری کے مرکزی مقام اور برلبِ شاہراہِ شندور میں واقع مسجدِ جامع الانبیاء کے سامنے سے یوٹرن(U-Turn)لیا جاتا ہے۔چند منٹوں کی مسافت کے بعد کئی ہزار فٹ بلندی پر واقع ہندرپ کے پُلِ صِراط پُل سے واسطہ پڑتا ہے۔اس پُل میں قدم رکھتے ہی کمزور دل گردوں کے مالک سیاحوں کے اعصاب پرکپکپی طاری ہوجانا فطری ہے۔یہی پُل سَر کرنے والے دُنیا میں موجود سیاحوں کی جنت ہندرپ میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ہندرپ کی وجہ شہرت ہندرپ جھیل کے علاوہ شونجی نالہ ہی ہے جو مختلف ادوار میں کبھی شریف النفس انتہائی نرم مزاج مقامی لوگوں اور کبھی بدمست اور بدمعاش تلخ مزاج غیر مقامی ”گُھس بیٹھیوں“ کے مابین تنازعہ کا شکار رہا ہے۔وہ جو کہتے ہیں جاہل معاشروں میں کسی انسان کے اندر بے شمار خصوصیات اُس انسان کے لئے باعثِ عذاب اور وبالِ جان بن جاتی ہیں بالکل اسی طرح نالہئ شونجی اپنی تمام تر حُسن و رعنائی اور خوشنمائی کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باؤجود کبھی مقامی لوگوں اور کبھی غیرمقامی دراندازوں کے مابین رسہ کشی کا ”رسا“بنا ہوا ہے۔نالہ شونجی کے بے شمار قدرتی وسائل میں نیلے پانیوں کا منبع گلیشئرز، عمارتی اور ہینزم سوختنی سے بھرپور ہرا بھرا جنگل،جنگلی حیات میں مارخور، ہرن، بھیڑیا، برفانی ریچھ، آبِ حیات میں ٹراؤٹ مچھلیاں، معدنیات میں اساسی دھاتی(Base Metals)جن میں کوبالٹ(Cobalt)، نکل(Nickle)، زنک(Zinc)، کوپر(Copper)، سلور(Silver) بِسمتھ(Bismit)، لیڈ(Lead) اورانٹی مونی(Antimony) شامل ہیں۔

ہندرپ سے ہندرپ جھیل تک پیدل تین گھنٹے کی مسافت ہے۔ہندرپ جھیل سے آمبیج(Ambaje)چھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔پورے شونجی نالہ میں صرف آمبیج(Ambaje) دوراہا مقام ہے۔جہاں دو راستے آپس میں بغلگیر ہوجاتے ہیں۔دائیں ہاتھ والا راستہ بشقاروآن(Bashkaro Aan)کی طرف نکلتا ہے۔بشقاروآن (Bashkaro Aan)خطر ناک گلیشئرز اور دوہیکل چٹانوں پر مشتمل درّے کا نام ہے۔گلیشیئر زکے اوپر سے گزرنے کا خطرہ مول لیئے بغیر بشقاروآن کراسڈ کرنا ناممکن ہے۔یعنی وادیئ سوات میں داخل ہونے والے سیاح بشقاروآن (Bashkaro Aan) کے اوپرے سے ہی گزرتے ہیں سوات میں داخلے کے لئے اس کے علاوہ اس نالے میں کوئی اور متبادل راستہ موجود نہیں ہے۔جب کہ بائیں ہاتھ والے راستے میں دو سے ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد غئی بیو کھول (Ghaibio’s Cave)میں پہنچا جاسکتا ہے۔یہاں سے دادریلی درہ (Dadarili Pass)جو انتہائی پُرخطرہ گلیشئرز پر مشتمل پہاڑی درہ ہے دو سے ڈھائی گھنٹے میں عبور ہوسکتا ہے۔دادرّیلی درّہ(Dadarili Pass)سے دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کلام(Kalam)کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔جبکہ دادرّیلی درّہ(Dadarili Pass) سے کِھلی گلی درّے(Khali Gali Pass)میں پہنچنے کے لئے تین سے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ کِھلی گلی (Khali Gali)کو ہندرپ نالہ اور کوہستان ڈسٹرکٹ کے مابین باؤنڈری لائن بھی کہا جاسکتا ہے۔مغویوں کے جو دو ساتھی واپس ہندرپ آگئے ہیں اُن کا کہنا یہی ہے مسلع افراد نے اُن کے چار ساتھیوں کو بائیں ہاتھ والے راستے دادرّیلی درّے (Dadarili Pass)کی جانب لے کر گئے ہیں۔جہاں سے کوہستان میں ہی دُخول ممکن ہے۔وہاں سے مغویوں کی بازیابی غذر کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی بس سے باہر ہے۔عوام کی نظریں صرف اور صرف پاک فوج پر جمعی ہوئی ہیں۔ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے مغویوں کی بازیابی اور اغواکاروں کی گرفتاری کی آس پر میر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

میر کیا سادہ ہے بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

ہندرپ کا شونجی نالہ دریائے شندور کے آر پار کے عوام کے مابین نصف صدی سے متنازعہ چلا آرہا ہے۔مقدمہ بازی میں تقریباََ پچاس سال بیت گئے حقِ ملکیت اور حقِ مراعات کے مقدمات میں فریقین کے کتنے سال ضائع ہوگئے اور کتنا سرمایہ پانی کی طرح بہایا گیا یہ ایک طویل بحث ہے۔البتہ اس نالے کا یہ انوکھا مقدمہ کہ”پہاڑ نالے کا حصہ نہیں“نے بھی کم و بیش پانچ سال کھا گیا۔یہی پچاس سال پُرانا مقدمہ اب تک سول، سیشن، چیف کورٹ اور اپیلٹ کورٹ کے مابین مسلسل گردش میں ہے۔اس مقدمے کے پہلے مقدمہ باز نسل اور پہلی نسل و وکلاء قبروں میں پہنچ چکے ہیں۔دوسری نسل اور دوسری نسل کے وکلاء ضعیف العمری کے عالم میں موٹے شیشوں والے عینک کے سہارے اُس کیس کے مطالعے میں غرق ہیں۔جب کہ تیسری نسل یعنی نیو جنریشن پچاس سال پُرانے مقدموں کو ٹچ موبائل سسٹم سے عکس بندی کرنے کے بعد زوم آؤٹ(Zoom Out)کرکے حقیقت تک پہنچنے کے لئے طالع آزمائی کرنے میں سرگرداں ہیں۔ان تینوں نسلوں کی مجموعی کاوشوں سے مرتب کردہ مقدمے کو فتح ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا اس کو سردست ہم تاریخ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔البتہ اس وقت دریائے شندور کے طرفین فرقین کے تمام تر مقدمے، دعوے، جواب دعوے اور جواب الجواب دعوے یعنی یہ ساری چیزیں آفرین ملک کی دہشت زدہ کاروائیوں کی دُھول میں گُم ہوئی ہیں۔
یہ آفرین ملک کون ہے، یہ کہاں سے آیا کیسے آیا، اُس کے لئے اس نالے میں راہ کس نے پیدا کی۔شونجی نالے تک اُس کو گزر اور رسائی کیسے ملی۔یہ نالے کے ذرّے ذرّے سے لے کر ہندرپ اور اس کے گردونواح کے علاقوں کے چپے چپے تک سے کیسے واقف ہوا۔معلومات کس نے فراہم کی۔گزرگاہ اور راستہ کس نے دیا یہ وہ تمام جنیؤیں سوالات ہیں جو اس وقت ہر ایک باشعور اور ذی شعور انسان کے ذہن میں بار بار کلک کررہے ہیں۔طب کی دُنیا کا یہ قول بڑا مشہور ہے اور ساری دُنیا کی مہذب قومیں اس قول کو سماجی اور ملکی معاملات میں اُتار چڑھاؤ کے دوران ریاضی کے کُلیّے کی طرح استعمال کرتے ہیں ”کہ دنیا میں ہر بیماری کا اعلاج آسان ہے لیکن تشخیص بُہت مشکل ہے“ اور دُنیا کے تمام طبیبوں کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ”جس بدن میں صحت مند خون دوڑ رہا ہو اس پر وائرس کا حملہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔“سونے کے پانی سے دُھلے ہوئے اِن طِبی اقوال کی روشنی میں اگر اِن ساری چیزوں کو سائنسی بنیادوں پر باریک بینی سے دیکھا جائے تو حقیقت از خود اظہر مِن الشمس کی طرح واضح ہوجائے گی۔

ورنہ ہر بار سانپ ہمیں ڈَس کر بھاگ نکلتا جائے گا اور ہم ہر بار اندھا دُھند راستہ پیٹتے رہیں گے۔


شیئر کریں: