Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش …………..مہنگائی کا جن………..تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

دن بھر کی شدید مصروفیت‘ بہت سارے مختلف مزاج اور نفسیات کے حامل لوگوں سے ملنے کے بعد شدید تھکاوٹ کے بعد میں اب گھر جارہا تھا میرا جسم جوانی توانائی کی سرحدوں کو عبور کر کے اب بڑھاپے کی طرف دھیرے دھیرے سرک رہا تھا جس کی وجہ سے اب جسم اور دماغ میں پہلے والی چستی پھرتی نہیں تھی بلکہ اب جسم آرام طلب ہو تا جارہاتھا میں بھی آرام دہ ٹھنڈی کار میں گھر کی طرف رواں دواں تھا کہ جاتے ہی شاور لے کر کھانا کھا کر خود کو بستر کے حوالے کر دوں گا تاکہ تھکاوٹ کا اثر ختم ہو اور جسم پھر چاک و چوبند ہو سکے‘ گرمی حبس اپنے جوبن پر تھے اِس لیے کار سے اترتے ہی میں ڈور بیل پر انگلی رکھ کر بھول گیا میں آگ برساتے سورج کے نیچے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونا چاہتا تھا جلدی دروازہ کھلے اور میں اندر ٹھنڈے کمرے میں جاسکوں اِسی دوران ایک شکستہ حال شنا سا چہرہ میرے قریب آیا جسے میں نے فوراً پہچان لیا پانچ سال پہلے یہ ہمارے گھر مالی کا کام کر نے آتا تھا ہفتے میں آکر پودوں درختوں کو سیدھا کر جاتا پھر یہ لاہور کے دوسرے کنارے چلا گیا اب بھی یہ کبھی کبھار سلام کرنے آجاتا آ ج اُس کے ساتھ اُس کا پانچ سالہ نواسہ بھی تھا میں جانتا تھا اِس کی صرف ایک بیٹی تھی جو اِس نے لے کر پالی تھی اور اولاد نہیں تھی‘ بیٹی اکلوتی تھی اِس لیے داماد کو گھر داماد بنا کر رکھا ہوا تھا اِس کا داماد بھی مالی کا کام کسی پرائیوٹ ادارے میں کر تا تھا اِسی دوران دروازہ کھلا تو میں مالی اور اُس کے نواسے کو لے کر اندر آگیا اندر آکر بیٹھتے ہی میں نے مالی کو بغور دیکھا تو دکھ کی لہر میری رگوں میں دوڑتی چلی گئی۔مالی کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی بڑھاپے نے امر بیل کی طرح اُس کے جسم کو چاٹنا شروع کر دیا تھا بڑھاپے کے عمل کو غربت اور مہنگائی نے اور بھی خوفناک اور تیز کر دیا تھا مالی اور اُس کے نواسے کو بٹھا کر میں گھر کے اندر چلا گیا کپڑے بدلنے اور دونو ں کی تواضع کا کہا‘ کپڑے بدل کر واپس آیا تو دونوں کے سامنے مشروب کا جگ گلا س پھل پڑے تھے جنہیں بچہ بہت شوق رغبت سے کھا رہا تھا بچہ جس تیزی سے شربت پی اور پھل کھا رہا تھا مالی خود بھی کھا رہا تھا اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میرے پاس بیٹھنے سے مالی شائد شرمندگی محسوس کر ے اِس لیے میں بہانہ بنا کر گھر کے اندر چلا گیا تاکہ مالی اور اُس کا نواسہ خوب دل بھر کر کھا سکیں اِسی دوران میں نے گھر والوں سے کہا بہت سارا پھل مٹھا ئی بسکٹ اور چائے اند ر بھیج دی جائے تا کہ دونوں خوب پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ جب میں نے محسوس کیا کہ دونوں نے خوب جی بھر کر پیٹ بھر لیا ہو گا تو دوبارہ پھر آکر مالی کے پاس بیٹھ گیا مالی کے چہرے پر بڑھا پا غربت بے چارگی بے بسی تھی اب وہاں پر اطمینان کے تاثرا ت نظر آرہے تھے مالی کی خستہ حالت بتا رہی تھی کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے بڑھاپا تیزی سے اُس کے جسم کو اپنی آہنی گرفت میں لے آیا ہے غربت بیماری مالی کے انگ انگ سے ٹپک رہی تھی بچے کی نظریں اب بھی پھلوں پر تھیں جبکہ مالی مجھے ممنون نظروں سے دیکھ رہا تھا اب میں نے مالی سے باتیں شروع کر دیں کہ آجکل کیا ہو رہا ہے تو مالی بولا جناب غربت اور مہنگائی کے دو پاٹوں میں بری طرح میں اور میر ا خاندان پس رہے ہیں‘ پہلے میں بھی کا م کر تا تھا لوگوں کے گھروں سے کھانے کی چیزیں اور مزدوری کے پیسے بھی مل جاتے تھے اب جسم بیماریوں اور بڑھاپے کی وجہ سے اِس قابل نہیں کہ مزدوری کر سکے اِس لیے اب صرف داماد ہی کماتا ہے وہ بھی پرائیویٹ نوکری کرتا ہے اگر بیماری یا گھریلومجبوری پر داماد چھٹی کر لے تو اُس کی تنخواہ سے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں بیٹی کے پانچ بچے ہیں اور ہم دونوں میاں بیوی مل کر گھر کے نو افراد اب داماد کی محدود کمائی پر پلتے ہیں مہینے کے آخری دنوں میں گھر پر فاقوں کا راج ہو تا ہے فاقوں کے دنوں میں ہم لوگ دووقت کے کھانے کی بجائے ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں‘ میرے نواسے نواسیاں جب پھل بسکٹ جوس کا تقاضہ کر تے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے تو دل خون کے آنسو روتا ہے جب بچے اِیسی ڈیمانڈ کر تے ہیں تو ماں باپ سے مار کھاتے ہیں میں بوڑھا شخص بھی اب ناکارہ پرزہ بن کر رہ گیا ہوں اوپر سے مہنگائی کا عفریت انسانوں کو نگھلتا جا رہا ہے داماد کی محدود تنخواہ سے بجلی گیس پانی کے بل اور پھر بچوں کی پڑھائی کے اخراجات پورے ہوتے ہیں باقی پیسوں سے آٹا آجاتا ہے جس سے روٹیاں بنا کر ہم پیٹ کے دوزخ کو بھرتے ہیں ہم اکثر فاقوں پر رہتے ہیں مجھ سے بچوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی اِس کا حل میں نے یہ نکالا کہ آپ جیسے پرانے چاہنے والے جو مُجھ غریب سے پیار کر تے ہیں ایک یا دو بچوں کو لے کر ان کے گھر پر جاتا ہوں جو چائے کھا نا پھل وغیرہ دیتے ہیں اِس طر ح بچوں کی بھوک کم ہو جاتی ہے میں ہر ہفتے کسی بچے کو لے کر کسی کے گھر جاتا ہوں چائے بسکٹ پھل یا کھانا کھا کرواپس آجاتا ہوں کیونکہ ایسا کھانا پھل بسکٹ جوس ہم بچوں کو نہیں دے سکتے‘ میں آپ سے بھی شرمندہ ہوں کہ آپ کو تنگ کر نے ملنے آگیاہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں ملنے نہیں اپنے نواسے کی بھوک مٹانے آیا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں کبھی کبھار اِسی طرح کسی نواسے نواسی کو لے کر آتا رہوں‘ مالی کی باتیں سن کر میری آنکھوں میں درد کی نمی تیرنے لگی اِس بیچارے نے تو پیٹ کے دوزخ کو بھرنے اور زندگی کے کچے دھاگے کو قائم رکھنے کا یہ طریقہ نکالا لیکن وطن عزیز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جو بھوک اُگ آئی ہے وہ انسانوں کو تیزی سے نگل بھی رہی ہے شہروں دور دیہات میں فاقہ زدہ انسان کس کے گھر جائیں کس کا دروازہ پیٹیں وہاں تو چاروں طرف مہنگائی غربت اور بھوک کا ہی راج ہے ریاست مدینہ کے دعوے دار جو صرف بھڑکیں لگانا جانتے ہیں باتوں خیالوں سے باہر کب آئیں گے غربت اور مہنگائی کی چتا پر جھلستی عوام کو سہارا کب دیں گے بھئی آپ امیروں کو سابقہ حکمرانوں کو نچوڑیں جیلوں میں ڈالیں جو مرضی کریں ہمیں کو ئی اعتراض نہیں لیکن بھوک فاقوں کی سولی پر لٹکے عوام کو روٹی کے بنیادی حق سے محروم نہ کریں اِن حکمرانوں سے کوئی بات کرو تو سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے قصے سنانے شروع کر دیتے ہیں خدا کے لیے اب یہ راگ الاپنا بند کر یں مہنگائی کے جن کو جو بوتل سے باہر آکر غریبوں کو دھڑا دھڑ ہڑپ کر تا جارہا ہے اِس پر کنٹرول کر کے اِس کو بو تل میں بند کر یں تاکہ عوام زندگی کے پہیے کو آگے چلا سکیں نہیں تو بھوک غربت مہنگائی سے تنگ آکر فاقہ زدہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے پھر دولت مندوں حکمرانوں کے گریبان ہونگے اور عوام کے ہاتھ آپ جو مرضی کر یں لیکن مہنگائی کے جن کو ضرور کنٹرول کریں میرے سامنے بیٹھا مالی اور بچہ غربت کی منہ بولتی تصویر تھے میں نے سارا پھل بسکٹ وغیرہ شاپروں میں بھر کر ما لی کے حوالے کئے ایک مخیر دوست کو فون کر کے مالی کا پتہ لکھوایا جو ہر ماہ مالی اور اسِ کی فیملی کو راشن دے دیا کرے گا۔مالی کے چہرے پر اطمینان آسودگی تھی مالی تو چلا گیا لیکن میں سوچ رہاتھا پتہ نہیں کتنے ایسے ہی غریب روٹی کے چند نوالوں کے لیے دولت مندوں کے گھروں پر جاکر میراثی بن کر بیٹھتے ہوں گے تب جاکر کھانے کے چند نوالے ملتے ہوں گے روز محشر یہ غریب ہونگے اور آج کے حکمرانوں کے گریبان جو دن بدن غریبوں کو مارنے پر لگے ہوئے ہیں۔


شیئر کریں: