Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوحہ افغان امن مذاکرات سے وابستہ امیدیں ………پیامبر……قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

وزیر اعظم پاکستان کا 21 جولائی کو امریکا کا تین روزہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان ، امریکی صدر سے تین روزہ دورے میں 45منٹ کی ملاقات بھی کریں گے ۔ وزیر اعظم کے دورے کو حتمی شکل دے جا رہی ہے ۔ جس میں امریکی حکام سے مصروفیت کا شیڈول طے کیا جارہا ہے ۔ ذراءع کے مطابق 22جولائی ٹرمپ سے عمران خان کی ون ٹو ملاقات ہوگی ۔ اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سہیل محمود اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو وفود کی سطح کی ملاقات کا حصہ ہوں گے ۔ ملاقات میں پاک امریکا تعلقات اور افغان امن عمل پر بات ہوگی جبکہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا تعاون اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوگا ۔ ذراءع کے مطابق صدر ٹرمپ وزیراعظم عمران خان سے افغان طالبان کو حتمی مذاکرات کے لئے رضامند کرنے کی درخواست کریں گے ۔

وزیر اعظم کے دورے سے قبل 6/7جولائی کو قطر و جرمنی کے تعاون سے دوحہ میں انٹر ا افغان ڈئیلاگ کے حوالے سے امریکی صدر کے خصوصی معاون برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی جانب سے ٹوءٹ کی جانے والی خبر کی افغان طالبان نے تردید نہیں کی ہے ۔ اس سے فی الوقت یہی وسمجھا جاسکتا ہے کہ انٹر افغان ڈائیلاگ کے حوالے سے جرمنی فارمیٹ کا یہ اہم دور ماسکو کے بعد دوحہ قطر میں افغانستان میں امن کی راہ متعین کرنے میں معاون ہوگا ۔ ماسکو میں جرمنی فارمیٹ کے تحت افغانستان کی سیاسی و اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دو مذاکرات ہوچکے ہیں اور بعد ازاں طے پایا تھا کہ ملاقات کا اگلا دور دوحہ میں ہوگا ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل افغان طالبان اور افغانستان کے اہم سیاسی لیڈروں و اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دوحہ قطر میں اہم مذاکراتی دور ہونا تھا لیکن کابل انتظامیہ نے 250افراد کی ایک فہرست مرتب کردی ۔ جس پر افغان طالبان نے اعتراض کیا کہ کابل انتظامیہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ناقابل قبول عمل اختیار کررہی ہے ۔ یہ مذاکرات ہیں کوئی شادی کی تقریب نہیں ہے ۔ ماسکو میں منعقدہ ہونیوالی کانفرنس فیصلہ ہوا تھا کہ دوسری کانفرنس کا انعقاد قطر میں ہوگا ۔ افغان طالبان آج تک اپنے مؤقف اور وعدے پر قائم ہے،کہ ایسی کانفرنس منعقد کی جائے، بلکہ افغان طالبان نے قطر کانفرنس میں ماسکو کانفرنس کی نسبت کئی گنا زیادہ مرد اور خواتین ہموطنوں کی شرکت سے اتفاق کیا ۔ کانفرنس کے شرکاء افغان تنازع کے حل کے متعلق اپنی ذاتی رائے بیان کریگی، مگر کابل انتظامیہ کے حکام نے کوشش کی، کہ اس کانفرنس کو کابل انتظامیہ اور امارت اسلامیہ کے درمیان مذاکراتی اجلاس بنا دے،جس نے کانفرنس کی پالیسی سے موافقت نہیں کی جس کے بعد انٹرا افغان کانفرنس کا اہم سیاسی دور تعلطل کا شکار ہوگیا ۔ اسی طرح پاکستان میں امریکی ایما پر ایک مذاکراتی عمل کرانے کی کوشش کی گئی لیکن کابل انتظامیہ نے اقوام متحدہ میں افغان طالبان پر سفری پابندیوں کو جواز بنا کر افغان طالبان کو پاکستان آنے سے روک دیا ۔ وا ضح رہے کہ اُس وقت سعودی عرب کے ولی عہد بھی پاکستان کے دورے پر تھے اور توقع کی جا رہی تھی کہ غیر اعلانی طور پر سعودی ولی عہد کے ساتھ افغان طالبان کی ملاقات کرائی جاسکتی ہے جس میں افغان طالبان کو اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنے کے لئے راضی کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن کابل انتظامیہ کی جلد بازی نے اہم پیش رفت ہونے کی توقعات کو آگے بڑھنے میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا ۔ حالاں کہ سعودی ولی عہدسے شیڈول میں افغان طالبان کے ساتھ ملاقات شامل نہیں تھی ۔ تاہم بیک دوڑ سفارتی ذراءع میں ایسی ملاقاتوں کو ظاہر نہیں کیا جاتا ۔ ایک دوسری کوشش امیر قطر کی پاکستان کے دورے کے سامنے بھی آئی لیکن گلبدین حکمت یار کے ساتھ جو وفود آیا تھا اس میں خلاف توقع اہم شخصیات نے شرکت نہیں کی ۔ خاص طور پر سابق صدر حامد کرزئی سمیت کئی افغان شخصیات شامل تھی جنہوں نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جو پہلی بھوربن کانفرنس میں ممکن نہیں تھی ۔ وگر ممکن تھا کہ صدارتی عشائیہ میں امیر قطر سے غیر رسمی ملاقات کا اہتمام ممکن بنایا جاسکتا ۔ لیکن یہاں بھی فروعی مفادات نے پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ سعودی ولی عہد اور امیر قطر کی آمد کے موقع پر افغان طالبان اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی پاکستان میں بیک وقت مدعو کرنا اتفاقی نہیں تھا ۔

6/7جولائی کو دوحہ قطر میں انٹرا افغان کانفرنس کا اہم دور منعقد ہورہا ہے اور اس بات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کا حتمی مرحلہ طے ہوجائے گا ۔ گو کہ ذراءع کے مطابق اپریل2019 میں ایک غیر حتمی معاہدہ طے پا چکا ہے لیکن اس وقت امریکا کو افغانستان سے انخلا کے بعد افغان طالبان سے ضمانت درکار ہے ۔ قطر میں افغان طالبان کے تمام مذاکراتی عمل بذات خود اس بات کی ضمانت ہیں کہ وہ افغان طالبان کی ضمانت دینے میں سر فہرست ہے ،لیکن امریکا کے نزدیک پاکستان کی ضمانت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ کیونکہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکراتی دور میں پاکستان کا اہم کردار واضح ہے کہ پاکستان واحد مملکت ہے جس پر امریکا کچھ شکوک و شبہات کا شکار ہے ۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات افغان طالبان پر اپنا اثر نفوذ کھو چکے ہیں ، خاص طور پر سعودیہ کی جانب سے جب علما اکرام نے فدائی ( خودکش) حملوں کے حوالے سے فتوی جاری کیا اور افغان طالبان کے ایران و قطر کے ساتھ بہتر تعلقات کو پسند نہیں کیا تو افغان طالبان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات مثالی نہیں رہے ۔ اس وقت پاکستا ن واحد ایسی مملکت کی صورت میں سامنے آیا ہے جو افغان طالبان کو بہتر سیکورٹی معاہدے کے لئے کسی حد تک راضی کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ پاکستان واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے لئے اب کوئی فیورٹ نہیں ہے نیز پاکستان نے افغانستان میں بھارتی کردار کے حوالے سے بھی نرمی پیدا کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ جس کے بعد افغان طالبان کے لئے سوچ و بچار کا مقام ہے کہ ماضی کے اتحادیوں کی ناراضگی کے بعد پاکستان سے بھی درخو اعتنا اختیار کرنا ان کے لئے مسائل پیدا کرسکتا ہے ۔ ایران ، افغان طالبان کی عسکری مدد ضرور کررہا ہے لیکن ایران بھی واضح طور پر اعلان کرچکا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کسی ایک گروپ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا ۔ روس ، افغانستان کی جنگ میں افغان طالبان کا اتحادی بننے کی دوبارہ غلطی نہیں کرنا چاہتا ۔ اس لئے روس کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کا بامعنی حل نکل آسکے ۔

پاکستان افغانستان کے حل کے لئے انتہائی سنجیدہ ہے کیونکہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین ٹیکس نظام میں ضم نہیں ہیں اور لاکھوں افغانی مہاجر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور پاکستان کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو اُس کا حق نہیں دے رہے ۔ اس لئے افغانستان میں امن کے قیام کے بعد آئین کے مطابق افغانی ، پاکستان میں تجارت ، رہائش و دیگر قانونی سہولیات حاصل کرکے خود کو محفوظ اور پاکستان کو منی لانڈرنگ سے بچا سکتے ہیں ۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد منی لانڈرنگ میں ملوث ہے ۔ کیونکہ ان کے تمام اثاثے قانونی طور پر حکومت سے پوشیدہ ہیں ۔ اربوں روپوں کے کاروبار سے ھاصل شدہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے افغانستان منتقل کردی جاتی ہے ۔ اسی طرح غیر قانونی اسمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ کی آڑ میں پاکستان کو کھربوں روپوں کا ٹیکس چوری سے نقصان الگ ہورہا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان کی امریکا کے تین روزہ دورے میں صدر ٹرمپ کا بنیادی نکتہ امریکی افواج کے انخلا کے لئے پاکستان سے بھرپور ضمانت اور افغان طالبان کی مبینہ سرپرستی سے ہاتھ اٹھانا یا محدود کرنا ہے ۔ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات میں براہ راست ملوث کردیا ہے ۔ اس لئے پاکستان جو بار بار مذاکرات کا کریڈٹ لے رہا ہے اب اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹا سکتا ۔ چیف آف آرمی اسٹاف ماضی میں غلط پالیسیوں کا اظہار کرتے ہوئے کسی بھی ملک کے لئے نئی جنگ میں پاکستان کو ملوث کرنے کے شدید مخالف ہیں ۔ اس لئے امریکا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی افواج کے انخلا میں پاکستان سے کلیدی کردار چاہتا ہے ۔ سب سے پہلے پاکستان ، افغانستان کے مستقبل میں اپنا کردار سفارتی رکھے ۔ دوئم ایران کو افغان طالبان کی درپردہ حمایت کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے ، سوئم سعودی عرب اور متحدہ امارات کے ساتھ افغان طالبان کی سرد تعلقات کو متوسط سطح پر لائے ۔ کیونکہ مصر کا سابق صدر مرسی کے انتقال پر افغان طالبان نے جس طرح تعزیتی بیان جاری کیا تھا اس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا ۔

امریکی صدر 2020انتخابات میں کریڈٹ کے لئے افغان اور ایران کے ساتھ نئے سیکورٹی معاہدے کا ہر ممکن حل چاہتا ہے ۔ شمالی کوریا میں صدر ٹرمپ نے پہلے امریکی صدر کی حیثیت سے قد م رکھ تاریخ رقم کرڈالی ہے ۔ اب امریکی صدر چاہتا ہے کہ وہ امریکی عوام سے انتخابات میں کئے جانے والے وعدوں کو پورا کرکے اگلے انتخابات کے لئے مضبوط امیدوار و بڑی کامیابی حاصل کرے ۔

وزیر اعظم عمران خان کے لئے بھی یہ ایک بہت سنہری موقع ہے کہ کئی برسوں بعد امریکی صدر کی دعوت پر جانے کے بعد وہ اہم فیصلے کرکے خطے میں قیام امن کے لئے کلیدی کردار اختیار کرسکتے ہیں ۔ گو کہ امریکی صدور کا رویہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ غیر معاوندانہ رہا ہے ۔ امریکا نے فروعی مفادات کے تحت پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے ۔ تاہم 22جولائی کو اگر امریکی صدر اوروزیر اعظم کے ساتھ مثبت ملاقات میں کامیابی کا کسی حد تک امکان حاصل کرلیتے ہیں اور ڈو مور کی لسٹ لے کر نہیں آتے تو ممکنہ طور پر اگلے برس تک پاکستان کی روکی گئی فوجی امداد اور امریکا ، افغان طالبان جنگ کے درمیان کولیشن فنڈ کا معاملہ بھی حل ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس حوالے سے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سب ایک ملاقات میں طے ہوجائے گا ۔ لیکن اس بات کی قوی امید ہے کہ دونوں سربراہوں کی ملاقات کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔

یہاں ہ میں اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ پاکستان ، امریکا سے ایسے کوئی وعدے نہ کرلے جس سے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا ہوجائیں ۔ کیونکہ اس سے قبل کئی مواقع پر افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تعلقات کو خراب کرنے کوششیں کی جاسکیں ہیں ۔ ملا عمر مجاہد مرحوم کی وفات کو قبل ازوقت ظاہر کرنا ، کابل میں امن کانفرنس کے انعقاد کو سبوتاژ کرنا ، پاکستان میں غیر اعلانی ملاقاتوں کو افشا کروانا ، ملا منصور پر ڈرون حملہ میں جاں بحق ہونا ، اور خاص طور پر ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی کی جانب سے کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات یا دوحہ مذاکرات میں شرکت کے لئے زور ڈالے کی روش نے افغان طالبان کو محتاط رہنے پر مجبور کردیا ہے ۔ زلمے خلیل زاد امریکی صدر کے نمائندے بن کر افغان طالبان کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کے لئے معمور ہوئے تھے لیکن وہ بھی اپنے مینڈیٹ سے ہٹے اور کابل انتظامیہ کے دباءو پر انہوں نے دوحہ میں مذاکرات کے لئے کابل انتظامیہ کو شریک کرنے پر دباءو دالا ، جس پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ۔ لیکن امریکا کی درخواست پر پاکستان نے پھر کوشش کرکے مزاکرات بحال کرادیئے ۔ زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں مذاکرات کی خواہش ظاہر کی لیکن افغان طالبان نے انکار کرتے ہوئے دوحہ میں مذاکرات جاری رکھنے پر اکتفا کیا ۔

امریکا28 ستمبر تک افغان صدارتی انتخابات سے نئے سیکورٹی معاہدے کو پایہ انجام تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ لیکن کابل انتظامیہ و افغان طالبان مخالف دھڑے دوحہ مزاکرات میں شرکت کے بغیر کسی سیکورٹی معاہدے کو قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ امریکا ، فوجی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لئے انٹیلی جنس سطح تک محدود ہونے کا عندیہ بھی دے چکا ہے ، لیکن کابل انتظامیہ عندیہ دے چکی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھی افغان سیکورٹی فورسز ، افغان طالبان کے خلاف کاروائیاں جاری رکھی گی ۔ ایران ، تمام تر سہولیات مہیا کرنے کے باوجود افغان طالبان کو افغانستان حوالے کرنے پر راضی بھی نہیں ہے ۔ بھارت افغانستان کے قدرتی وسائل اور سیاست میں مداخلت کے ساتھ ساتھ کابل انتظامیہ کو عسکری امداد فضائیہ کے شکل میں دینے کو تیار ہے اور بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ افغان طالبان کے مدد کررہا ہے ۔ لیکن زمینی جنگ میں بھارت کبھی بھی شامل نہیں ہونا چاہتا ۔ قطر افغان طالبان کا اُس وقت تک حلیف ہے جب تک امریکا چاہتا ہے ۔ ان حالات میں کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات امریکا کے بڑے اتحادی بن چکے ہیں اور ماضی کے برعکس اب ان کی ترجیحات امریکا اور یورپی ممالک ہیں ، وژن 2030کی کامیابی کے لئے سعودی عرب ایک بار پھر نئے تنازعے میں نہیں الجھنا چاہتا اس لئے افغان طالبان روس کی جانب راغب ہوسکتا ہے ۔ داعش کو منظم انداز میں افغانستان میں مربوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس لئے افغان طالبان کا نیا اسٹریجک اتحادی ، جرمنی کے بعد روس بن سکتا ہے ۔ اور یہ اس لئے بھی خارج از امکان نہیں ہوگا کیونکہ امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی تجارتی و عسکری کشیدگی کی وجہ سے افغانستا ن سرزمین سے امریکا انخلا روس کو افغانستان میں داعش کے خلاف مدد کے لئے جنگی اتحادی بن سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ امریکی افواج کے سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل فرنک میکنزی نے جرمنی میں ذراءع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے دعوہ کیا کہ افغانستان میں داعش بڑا خطرہ ہے ۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکنزی نے کہا ہے کہ داعش امریکا کے لیے سنگین خطرہ ہے ۔ انہوں نے خاص طور پر افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سرگرم داعش کے جنگجو امریکا پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک داعش پر ہمارا دباؤ برقرار رہے گا، وہ امریکا پر حملہ نہیں کر سکتی ۔ جبکہ افغان طالبان کا موقف ہے کہ مریکی فوج اور کابل انتظامیہ افغانستان میں داعش کو پروان چڑھانے اور اس فتنے کی حفاظت کے لیے وقتا فوقتا ریسکیو آپریشن کرتے ہیں ۔ اس کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں ۔ اس کی تقویت کے لیے پروپیگنڈے کا سہارا بھی لیتے ہیں ۔

افغان طالبان جب امریکی وفد سے قیدیو ں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا یہ موقف سامنے آتا ہے کہ افغانستان میں امریک کابل انتظامیہ کے عقوبت خانوں میں 23ہزاروں افراد ایسے اسیر ہیں جنہیں افغان طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی رابطے کی بنیاد پر بغیر مقدمے چلائے رکھا ہوا ہے یہ مکمل طور پر یک ایسا اہم اور حساس انسانی موضوع ہے، جس پر جنگ اور صلح مباحث کی طرح بنیادی توجہ دی جانے کی ضرورت ہے کہ اس اہم معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جائے ۔ برسوں اور مہینوں انہیں قید میں رکھے جاتے ہیں ۔ اپنے ہی گھر میں افغان عوام کی آزاد زندگی گزارنے کے حق کو سلب کیا جارہا ہے ۔ اب تک عقوبت خانوں کے متعلق کوئی غیرجانبدارانہ تفتیش اور سروے نہیں ہوئی ہے، تاکہ اس حوالے سے خفیہ حقائق سامنے نہ آجائیں ۔ مگر چند روز کابل انتظامیہ کے وزارت داخلہ کے جیل خانہ جات کے ایک عہدیدار جنرل حبیب اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ فی الحال ان کے ہاں 33 ہزار افغانی قید میں ہیں ، جن میں سے 22 ہزار جیلوں اور 11 ہزار مختلف النوع عقوبت خانوں میں قید ہیں ۔ ۔ قیدیوں کو قیام، خوراک، علاج، ملاقات اور عدالتی سلسلے کے متعلق حقوق نہیں ملتے اور اس طرح ان کے تمام انسانی حقوق یہاں تک کہ ان کی زندگی خطرے سے روبرو ہوجاتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ تین دہائی قبل کمیونزم رژیم نے اب سے زیادہ افغانوں کو پابندسلاسل کیا ہوا تھا، مگر آخرکار عوام کے خلاف یہی ظلم کمیونزم رژیم کے زوال کا سبب بنا ۔

وزیر اعظم عمران خان امریکا کے اہم ترین دورے کی تیاریوں میں مصروف ہونگے ۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام ان سے اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ امریکی صدر کے ساتھ اس بات پر اتفاق رائے پیدا کی جائے کہ امریکا نے 17برسوں کی جنگ میں 1ٹریلین ڈالر کا نقصان کرچکا ہے ہزاروں فوجی مارے جاچکے ہیں ،افغانستان کی جنگ میں کامیابی ناممکن ہے ۔ ان حالات میں کہ صدر ٹرمپ اپنے انتخابی منشور میں افغانستان سے اپنی فوجوں کو بلانے کا امریکی عوام سے وعدہ کرچکے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے امریکی صدر اپنے وعدے کے مطابق عزت کے ساتھ افغانستان سے فوجی انخلا کرے ۔ افغان عوا م کو اپنی منشا کے مطابق حکومت قائم کرنے کے لئے خود مختاری کرے ۔ واضح رہے کہ افغان طالبان روایتی و غیر روایتی جنگوں میں ابھی تک تھکے نہیں ہیں ۔ ان کی جانب سے عندیہ آچکا ہے کہ وہ اپنی کاروائیاں اُس وقت تک بند نہیں کریں گے جب تک غیر ملکی افواج افغانستا ن سے انخلا نہیں کرتی ۔ پاکستان خطے میں امن کے لئے پہلے بھی تعاون کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا ۔ افغانستان کی حکومت کا فیصلہ افغان عوام کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس لئے پاکستان کے لئے کوئی فیورٹ نہیں ہے ، پاکستان بس خطے میں امن و آشتی چاہتا ہے ۔ امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان وقیانوسی و غیر ضروری معاملات میں الجھنے کے بجائے اس اہم مسئلے کے اس اہم موقع کو ضائع نہیں کریں گے ۔ بصورت دیگر دوحہ مذاکرات اور امریکی دورے میں ڈیڈ لاک برقرار رہا تو افغان طالبان امریکی کی نئی حکومت کے آنے کا انتظار کرے گی ۔ تاہم قوی امید یہی ہے کہ صدر ٹرمپ اس تاریخ ساز موقع کو ضائع نہیں کریں گے اور عمران خان کے دورے کے بعد امریکی فوج کے انخلا کے ٹائم فریم اور نئے سیکورٹی معاہدے کو منظر عام پر لا کر خطے میں امن قائم کرنے لئے بردباری کا مظاہرہ کریں گے


شیئر کریں: