Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خواتین کی خود مختاری کے دعویدار………رحمت کریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر جانے کی ضرورت پڑی اور وہاں گھومتے ہوئے مجھے ایک بل بورڈ نظر آیا جس میں خواتین کی خود مختاری کے بارے میں فقرے درج تھے اس سے پہلے بھی ہم نے خواتین کی Empowerment کے بارے میں کئی جگہ ورکشاپس اور سیمینار ہوتے دیکھے ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا تھا کہ اس کوشش کے زریعے خواتین کو روایتی حدود سے نکال کر میدان میں اتارا جائے کہ وہ بھی مرد کے شانہ بشانہ کام کرکے مرد کے ہاتھ استحصال ہونے سے آزاد ہوجائے اور شہر، بھائی، بیٹے، چچا وغیرہ کے اوپر مالی بوجھ بننے کی بجائے مالی طور پر خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔ اچھی بات ہے کہ اس کے پاس کچھ رقم ایسی ہو کہ وہ خونی رشتوں پر بوجھ نہ بنے بلکہ اس قابل ہوجائے کہ اپنی کمائی سے وہ بھی کسی غریب کی مدد کرنے کے قابل ہو اور مالی طور پر معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے اور مفید شہری ثابت ہو۔ہماری سمجھ میں Empowerment کی یہ تشریح بار بار آتی تھی مگر اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی سوچتے تھے کہ مان لیتے ہیں کہ اس تبدیلی سے معاشرے میں غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر جب ایک خاتون آٹھ گھنٹے دفتر میں کام کرنے کا پابند ہوگی تو شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس دوران بچہ یا بچوں کا کون خیال رکھے گا۔یا تو بچے سکول جائیں گے مگر وہ اپنی ماں سے بہت پہلے گھر واپس آجائیں گے،اگر گھر میں کوئی بوڑھا یا بڑھیا یا کوئی اور بیکار بندہ ہے تو ان کا خیال رکھ سکتا ہے مگر یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ خاندانی نظام مشترکہ چلتا تھا اور دادا دادی بچوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے،ان کو سنبھالتے بھی تھے اور ان کو پیار بھی دیتے تھے مگر آج کل ہر شادی شدہ جوڑا آزادی چاہتا ہے اور بوڑھوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگے ہیں تو یہ بچے سکول سے واپسی کے بعد

۱۔ چند گھنٹے ماحول کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں
۲۔ ماں کی قدرتی شفقت سے محروم رہتے ہیں
۳۔ ایسے بچے ماں کی دودھ سے محروم ہو کر بوتل کی دودھ پر پلتے ہیں اور اگر ماں نے اپنے بچے کو اپنی دودھ سے محروم رکھا ہے تو اس کے بچے پر حقوق بھی کم پڑ جاتے ہیں وہ اس ماں کے برابر حقوق رکھنے کا دعوی نہیں کرسکتی جو اپنے بچے کو دو سال دودھ پلاکر اس کا دودھ چھڑاتی ہے اور یہ اس بچے پر ماں کی طرف سے ایک ظلم ہے.

اپنی خود مختاری کی تحریک میں ایک خاتون گھریلو زمہ داریوں سے پہلو تہی اختیار کر جاتی ہے اورگھر کے اندر اس کا وہ مقام نہیں بنتی جو روایتی حکومت اور اقتدار کی صورت میں ہوتی تھی اس دوڑ دھوپ میں اس کی ساری توانائی خاندانی نظام کی مضبوطی کے بجائے اس جگہ صرف ہوتی ہے جہاں سے وہ کماتی ہے اور وہ شوہر کی مالی مدد کرنے کے جنون میں اس پر بوجھ بن جاتی ہے، اس کی توانائی وقت سے پہلے کام دے جاتی ہے اور خو د مختاری حاصل کرتے کرتے وہ ان عوارض کا شکار ہوجاتی ہے جس سے اس کو نکالا گیا تھا۔ اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو اس کا معاملہ الگ ہے،وہ مذکورہ بالا جھنجٹ سے توآزاد ہوگی مگر ہمارا معاشرہ ایسی صورت حال کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے اس کا سب کو علم ہے، کئی خواتین ایسے ہیں جو اپنی جوانی کھو نے کے بعد شادی پر مجبور ہوئے جس کی وجہ وہ خود بتا سکتی ہیں اور کئی ایک شادی نہ کرنے پر اب بھی کف افسوس مل رہی ہیں۔

   عورت کی خود مختاری کا وسوسہ تحریک نسوان کی شکل میں مغرب سے نمودار ہوا اور آج یہ تصور فرسودہ ہوچکا ہے کیوں؟  اس لئے کہ عورت کی خود مختاری اس کے اپنے لئے بھی  ایک مسئلہ  بن چکا ہے اور سماج کے لئے بھی کہ  خود مختاری کے نشے میں پیدا ہونے والے بچے  اس معاشرے  کا ایک بڑا طبقہ بن چکے ہیں اور  ان کو جنم دینے کے بعد  ریاست پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہماری ریاست اس مقام پر نہیں پہنچی کہ ان کو سنبھال سکے ان کو ایک سال پہلے تک street children    کہا جاتا تھا اور اس سال سے وہ State Children   کہلانے لگے ہیں۔  

کیا آپ آپنی آئیندہ نسل کو اس زمرے میں لانا پسند کریں گے؟ خواتین کی خود مختاری کا واویلا! یاد رکھیں ان کی empowerment کانہیں خود مختاری کا نعرہ اور اسکے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلی ان کی Devaluation پر منتج ہوگی اور ان کا جو مقام ابھی برقرار ہے وہ اگر ایک بار گر جائے تو اس کو بحال کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگی۔ اور میرا آخری نکتہ یہ ہے کہ خواتین کے خود مختاری کے داعی حضرات پہلے اپنی خواتین کو خود مختاری دیکر اپنی عزم، خلوص اور مقصد سے لگاؤ عملی طور پر دکھا ٰئیں اور بسمل اللہ کریں، اپنے گھروں سے اس کار خیر کی ابتدا کریں اور ان کے جتنے حقوق ہیں وہ ان کو بر سر عام ادا کریں اور جو اس causeکے داعی خواتین ہیں وہ اپنی شوہروں کو طلاق دیکر اپنی اپنی خود مختاری کا برملا اعلان کریں تو اس کے فوائد دیکھ کر اور لوگ بھی ان کی تقلید کریں گے ورنہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ مغرب کےDonorsسے ڈالر کمانے کی ایک چال ہے اور کوئی اس دعوی میں مخلص نہیں بقول پشتون: دا گز دا میدان۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
23572