Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گریہ بے اختیار………(مختصر افسانہ)…….. تحریر۔عائشہ علی۔پشاور

شیئر کریں:

اسے وہ وقت یاد آیا جب اس کے دادا جان کے انتقال پراپنی بین کرتی دادی پہ اسے بے تحاشہ ہنسی آئی تھی اور اس کی بچگانہ اور بے موقع ہنسی نے کیسے دوسروں کے چہروں پر بھی ہلکی پھلکی مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔ اس وقت کسی نے اسے چپ کر جانے کا نہیں کہا۔ پھر اسے یاد آیا کہ کیسے اپنے چچا کی شادی پر، جب ہر جانب خوشی کے شادیانے بج رہے تھے، وہ رورہا تھا۔ صرف اس لیے کہ اب وہ اپنے چچا کے ساتھ کمرے میں سو نہیں پائے گا۔ اس وقت کسی نے اسے چپ کرنے کا نہیں کہا۔ جو بھی اس کے رونے کی وجہ جانتا بیساختہ ہنس پڑتا۔اور پھر اسے یاد آیا کہ جب سال بعد چچا کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تو اسے گھر میں اپنی اہمیت کم ہونے کا ایسا احساس ہوا کہ وہ خوشیوں کے شادمانیوں اور مبارک مبارک کی صداؤں کے بیچ کسی سے بات بات پہ چیخ چیخ کر روتے ہوئے اپنا دکھ ہلکا کرتا۔ پھر اسے یاد آیا کہ کیسے دادی اماں کی وفات پر جب سب سوگوار تھے،وہ خوشیاں منا رہا تھا، صرف یہ سوچ کر کہ اب اپنے سال پہلے آئے ہوئے چچازاد بھائی کوخوب مارے گا۔ تاہم اس نے کبھی اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ کیسے دسویں کے نتائج آنے کے بعد پچھیاسی فیصد نمبر لینے پرگھر سمیت پورے محلے میں خوشیاں منائی گئیں، بس وہی تھا جو رورو کر ہلکان ہو رہا تھا کہ اس نے سو فیصد نمبر کیوں نہ لیے۔ اور اسے یہ دھڑکا لگ گیا تھا کہ اب شاید وہ طبیب (ڈاکٹر) نہ بن پائے۔ اور کیسے ہرجاننے والا یہ کہہ کر اس پرہنس پڑتا کہ یہ واحد لڑکا ہے جو اتنے ڈھیر سارے نمبر لے کر بھی رورہا ہے ورنہ لڑکے توصرف پاس ہونے پر بھی سو رکعت شکرانہ پڑھ لیتے ہیں۔
پھر اسے یاد آیا کہ کیسے اس کے والد کی ناگہانی موت پرجب وہ بارہویں جماعت کا امتحان دے چکا تھا، رونے لگا تو چچا جان نے یہ کہہ کر اسے چپ کرا دیا کہ ”مرد روتے نہیں“۔ اس نے یہ سن کر اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور باقی آنسو اندر ہی اتار لیے۔ پھر اسے یاد آیا کہ جب اسے پتہ چلا کہ باپ کے سائے سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے گا اور طبیب نہیں بن پائے گا تو کیسے ہر کوئی اسے یہ کہہ کر رونے سے روک رہا تھا کہ ”یہ کیا بچوں کی طرح رورہے ہو“ اور اس نے اپنے آنسو اندر اتار لیے۔ اس نے سوچا،شاید یہ اس کا آخری رونا تھا۔پھر اسے یاد آیا کہ کیسے جب وہ یتیم بہن کی شادی پر خوش ہونا چاہ رہا تھا مگر خوشی کا اظہار نہ کر پایا۔ اور وقت رخصت رونا چاہتا تھا لیکن رو بھی نہ پایا۔پھر اسے یاد آیا کہ کیسے ماں کی وفات پرشدت غم کے باوجود وہ اپنے آنسو پی گیا تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ جب اس کے بیٹے کی شادی تھی تو وہ کیسے ناچ گا کر اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا مگر وہ ایسا نہ کرپایا۔ اور ایسا ہی اس کے ساتھ پوتوں کی پیدائش اور بڑی بیٹی کی شادی پر بھی ہوا۔
آج بھی جب اس کا اکلوتا بیٹا بیوی بچوں کو لے کراسے اور اس کی بیوی کو اپنی جدائی کے غم کے ایک بحر بیکراں میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر الگ ہو رہا تھا، تو اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خوب روئے اور اپنا دل ہلکا کرے مگر وہ ایسا نہیں کر پا رہا تھا۔ ”بچے کتنے بااختیار ہوتے ہیں۔وقت ہم سے کتنے اختیارات چھین لیتا ہے۔“ اس نے سوچا۔وہ جو روزن حال سے ماضی کے باغیچے سے آنے والی یادوں کی خوشگوار مہک سے لطف اندوز ہو رہا تھا،پانچ سالہ پوتے کے بے ڈھنگے انداز میں رونے سے ماضی کے جھروکوں کو چھوڑ کر حال کے زندان میں قید ہونے پر پھر مجبور ہو گیا۔ حالات کا جائزہ لینے پر اسے علم ہوا کہ بڑے پوتے نے، جو کہ سات سال کا تھا، چھوٹے سے میٹھی گولی چھین کر کھا لی۔ اب اس کی دادی اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بچہ بہلنے لگا تو وہ اس کی دادی سے بولا، ”نیک بختا! رونے دے اسے۔ چند سال بعد ویسے بھی اس کا یہ اختیار بھی چھین جانا ہے۔“
ان کا 28 سال کا ساتھ تھا۔ وہ تو ایک دوسرے کے اندر جاتی اور باہر آتی سانس کا مطلب تک جان جاتے، بھلا وہ اس کے اتنے واضح بات کا مطلب کیسے نہ جان پاتی۔ جھٹ پوتے کو گود سے اتارا، اس نے پھر رونا شروع کر دیا۔ اور بڑے پوتے کو کھنچ کے دو تھپڑ رسید کر دیے۔ اس نے بھی گلا پھاڑنا شروع کر دیا۔ دونوں نے انھیں حسرت سے دیکھا۔اتنے میں بچوں کی ماں آئی اور بچے کی شکایت پر یہ کہہ کربچوں کو لے گئی کہ، ”یہ بڑھیا تو سٹھیا گئی ہے۔ میں الگ گھر میں کیا جا رہی ہوں اس کا تو دل جل جل کر کوئلہ ہوا جارہا ہے۔“
اس نے پچھلے کئی نشتروں کی طرح اس نشتر کو بھی خاموشی سے سینے میں پیوست کر لیا۔ان کا بیٹا انہیں الوداع کہنے آیا تو ماں نے بیٹی کو،جو بھائی کی جدائی میں گریہ کناں تھی، یہ کہہ کر بیٹے کے ساتھ بھیج دیا کہ بہو کے ساتھ گھر میں سامان لگا نے میں ہاتھ بٹالے گی۔وہ بھی سرخ اور سوجھی ہوئی آنکھیں لیے بھائی کے ساتھ چلی گئی۔
ماں نے ان کے جانے کے بعد دروازہ بند کیا اور دونوں ایک دوسرے کی گود میں سر دے کروقت سے اپنا ضبط شدہ اختیار چھین کر اب خوب دل کھول کر روئے۔
طے ہوچکیں شکست تمنا کی منزلیں
اب اس کے بعد گریہی بے اختیار ہے


شیئر کریں: