Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ……….. اے پی سی کے بعد ……….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

کسی زمانے میں سر درد کے علاج کے لئے اے پی سی نا م کی گو لی کھا ئی جا تی تھی آج کل سر درد میں اضا فے کے لئے اے پی سی نام کی مجلس بلائی جا تی ہے اُس کا پورا نا م اسپرین پیرا سیٹا مول اور کیفین کا مر کب تھا اس کا پورا نام آل پارٹیز کانفرنس ہے اور سچی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی اے پی سی بلائی گئی اس کے نتیجے میں ضرور کوئی بڑی آفت آئی اس تنا ظر میں جب مو لا نا فضل الرحمن، بلا ول بھٹو اور میاں شہباز شریف نے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا تو ہمیں کوئی خو شی نہیں ہوئی اے پی سی میں بجٹ کو روکنے، اسمبلی کے اندر حکمرا ن جما عت کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسمبلی کے با ہر حکمران جما عت پر اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے دباؤ ڈالنے کے امکا نا ت کا جا ئزہ لیا جا رہا ہے ان سطور کی اشا عت تک اس سلسلے میں کوئی پیشرفت سامنے آچکی ہو گی ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ملک و قوم کے لئے اس کے اثرات منفی نہ ہوں بلکہ مثبت اور تعمیری نو عیت کے ہوں مگر ہماری دعا ئیں آج کل راستے ہی سے واپس لو ٹادی جا تی ہیں کیونکہ ہم جن ہاتھوں کو دعا کے لئے اُٹھا تے ہیں ان پرسودی سر مایے کا روغن چڑ ھا ہوا ہے آسمان وا لوں کو یہ رنگ و روغن پسند نہیں چنا نچہ اے پی سی ہو گی اور اس کے نتیجے میں ”دما دم مست قلندر“ ہو گا یہ پیشگوئی تین وجو ہات کی بناء پر کی جا رہی ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت میں قوت برداشت کی کمی ہے زرداری اور نواز شریف اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے با ہر تنقید کو برداشت کرتے تھے تحمل کا مظا ہرہ کرتے تھے مو جودہ حکمران جما عت ایسا نہیں کرتی دوسری طرف حزب اختلاف 5سال یا 4سال یا 3سال یا 2سال انتظار کرنے پر امادہ نہیں گویا شاعر کے بقول ” دونوں طر ف آ ٓگ ہے برابر لگی ہوئی“ دوسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ایک سال کے اندر ملک کی معا شی حا لت دگر گوں ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طو فان آیا ہوا ہے جو عام آدمی کو محسوس ہورہا ہے اس لئے حکمران جماعت کا حا می اور کٹر ووٹر بھی ما یو سی کا شکار ہوا ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ سال2019-20کے بجٹ میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے جو مزید مہنگائی کو جنم دے گا تینوں وجو ہات ایسی ہیں جو بے چینی پھیلاتی ہیں اور عوام کی بے چینی میں اضا فہ کرتی ہیں اس کا آسان حل یہ تھا کہ پار لیمنٹ کو با اختیار بنا یا جا تا عوامی مسا ئل پر منتخب نمائندوں کو کھل کر بات کرنے کی اجا زت دی جا تی اس طرح مثبت اور تعمیری انداز میں مکا لمہ پر وان چڑ ھتا عوامی مسائل زیر بحث آجا تے اور ان کے حل کی آئینی گنجا ئش نکل آتی لیکن ہم نے اس پارلیمانی روا یت کو ٹھکرا دیا ہے قومی اسمبلی میں حکمران جما عت کے ارکان بھی شور مچا کر ایوان کی کاروائی چلنے نہیں دیتے حا لانکہ حکمران جما عت بجٹ اجلاس میں بہت احتیاط سے کام لیتی ہے اور کم سے کم وقت میں بھاری سے بھاری ایجنڈا نمٹا لیتی ہے حزب اختلاف اگر شور مچائے تب بھی حکمران جما عت اپنی اچھی حکمت عملی کے ذریعے اس شور کو ایوان کی کاروائی میں خلل انداز ہونے نہیں دیتی مگر یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے حزب اختلاف کی غلطی یہ ہے کہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے تک انتظار کرنے پر اما دہ نہیں اس کے مقا بلے میں حزب اقتدار کی دو غلطیاں نظر آرہی ہیں ایک غلطی یہ ہے کہ حزب اختلاف کو جینے کا حق دینے پر رضا مند نہیں ہرقا بل ذکر لیڈر کو پکڑ کر جیل میں ڈالتی ہے خواتین کو بھی نہیں بخشتی وزرائے کرام کی طرف سے قو می لیڈروں کے خلاف نا زیبا الفاظ استعمال کئے جا تے ہیں دوسری غلطی یہ ہے کہ اسمبلی کے فلور پرچیف وہپ کا عہدہ خا لی ہے تجربہ کار لو گوں کی جگہ نا تجربہ کار لو گوں کو بات کرنے کا مو قع دیا جا تا ہے اور نا تجربہ کار لو گوں کا کمال یہ ہے کہ اُن کو آگ لگا نا آتا ہے آگ بجھا نا نہیں آتا گویا سیا سی بلو غت کی کمی ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ادوار میں 2008اور 2013کی اسمبلیوں نے تحمل،برداشت اور اسمبلی کے اندر سے تبدیلی لانے کی حکمت عملی کے ذریعے اپنی آئینی مدت پوری کی ”مائنس ون“ اور اسمبلی کے اندر سے آنے والی تبدیلی کوآئین میں با قاعدہ شامل کرنے کا یہی مقصد ہوتا ہے بر طانوی وزیر اعظم تھر یسا مے کو بریکزٹ کے مسئلے پر استعفٰی دینا پڑا تو قیا مت نہیں آئی یوسف رضا گیلانی مستعفی ہوگئے تو کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا نواز شریف کو گھر بھیجدیا گیا تو اسمبلی نہیں ٹو ٹی، اس کا نام جمہوریت اور آئینی حکومت ہے اس میں حزب اختلاف کو جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا حزب مخا لف سے تعلق رکھنے وا لوں کی بہنوں، بیٹیوں کو حراست میں نہیں لیا جا تا، ان کے بیٹوں، بھا نجوں اور بھتیجوں کے وارنٹ گرفتاری جا ری نہیں کئے جا تے پُر امن بقائے با ہمی کے اصول پر ”جیو اور جینے دو“ کا پیغام دیا جا تا ہے آل پارٹیز کا نفرنس سر درد کا علاج نہیں یہ بجا ئے خود ایک سردرد ہے اگر حکمران جما عت فراخد لی، تحمل، بر داشت اور روا داری کا مظاہرہ کرے اسمبلی کے اندر سنجیدہ اور تجربہ کار اراکین کو ذمہ دا ریاں سو نپے تو بجٹ بھی پا س ہوگا فنا نس بل بھی منظور ہو گا اسمبلی اپنی مدت بھی پوری کرے گی ورنہ اے پی سی کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے .


شیئر کریں: