Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوحہ قطر مذاکرات کا ساتواں فیصلہ کن مرحلہ جلد متوقع ……! پیامبر…….قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

افغانستان امن تنازع حل میں کئی اہم معاملات رکاؤٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے چھ دور ہوچکے ہیں۔ دونوں فریقین کا کسی بھی مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کا جاری نہ ہونا مسلسل ابہام کا سبب بنا ہوا ہے۔ اسی ضمن میں افغان طالبان کے دوحہ سیاسی دفتر کے ذرائع کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا ہے کہ امریکا اور امارات اسلامیہ افغانستان کے درمیان افغان امن عمل کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ معاہدے کے مطابق امریکا افغانستان سے اپنی تمام فوجیوں کا انخلا کرے گا اور مستقبل میں افغانستان کے داخلی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ تاہم امریکی ذرائع نے ابھی اس کی تصدیق نہیں کی بلکہ چار نکاتی معاہدے پر مزید بات چیت کا اظہار کیا ہے۔ افغان طالبان بھی دوحہ مذاکرات میں یقین دہانی کراچکے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کو امریکا سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی پناہ گاہ کے طور پراستعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ نیز داعش سمیت عالمی امن کے لئے خطرات کے خلاف عملی اقدامات کرے گا۔ توقع ہے کہ قطر مذاکرات کے بعد افغان طالبان اور افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان باہمی اتفاق رائے بھی جلد سامنے آجائے گا۔واضح رہے کہ قطر مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان کی جیلوں میں ہزاروں ایسے قیدیوں میں سے سینکڑوں اسیروں کو رہا کردیا گیا ہے جو کابل انتظامیہ کی جانب سے شکوک کے نام پر حراست میں لئے گئے تھے۔ سینکڑوں قیدیوں کی رہائی پر افغان طالبان نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔

توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا مزید قیدیوں کو رہائی کرائے گا۔ کیونکہ افغان طالبان کے مطابق ان اسیروں کو صرف شک شبے کی بنیاد پر ماورائے قانون حراست میں لیا گیا تھا، جن کا قصور یہ تھا کہ کسی نے افغان طالبان کو انسانی ہمدردری کے نام سے کبھی پانی پلایا تھا یاکھانا کھلا یا تھا۔ سست روئی کا شکار مذاکرات دور کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے سامنے آئی ہے۔ اس وقت افغان طالبان کے سیاسی امور کے نائب امیرملا عبدالغنی بردار سے اہم ممالک کے وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ماسکو میں روس اور افغانستان کے درمیان صد سالہ تعلقات پر روس اور بعدازاں سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں الحاج غنی بردار کے ساتھ مذاکرات نے پوری دنیا میں توجہ حاصل کی۔ اس سے قبل افغانستان کے لئے جرمنی کے خصوصی نمائندے MARKUS POTZEL نے بھی قطر میں طالبان کے ساتھ ایک ملاقات کی جو افغانستان میں امن کوششوں کا حصہ ہے۔افغان طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ MARKUS POTZEL نے طالبان کے نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ بات چیت کی جو امن کوششوں میں افغان طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔انہوں نے ممکنہ امن معاہدے کے مختلف پہلوؤں اور اس حوالے سے جرمنی کی کوششوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ قطر میں طالبان کیسیاسی دفتر کے اور تنظیم کے سیاسی معاون ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے گذشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا تھا۔ طالبان کے وفد نے چینی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات اور بات چیت کی۔اگرچہ طالبان کے ذرائع نے وفد کے دورہ ایران کا دعویٰ کیا ہے تاہم ایران نے سرکاری طور پراس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ قطر میں طالبان کے ذرائع کے مطابق تہران دورے کے دوران ایرانی حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں قیام امن پر بات چیت کی گئی۔ افغان طالبان سے عالمی رہنماؤں کی ملاقاتوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کرغیزستان میں منعقد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اشرف غنی نے کہا کہ”خطے اور دنیا کے بعض ممالک طالبان کے ساتھ سیاسی تعلقات اور سفارتی رابطے منقطع کریں“

افغانستان سے امریکی انخلا میں سست روئی ماضی میں 80کی دہائی کے دوران جنیوا مذاکرات کے معاہدے کے بعد سوویت یونین کی عجلت میں انخلا کے بعد پیدا شدہ حالات کا تلخ تجربہ بھی ہے۔ جنیوا مذاکرات اور معاہدے میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے وقت بھی امریکی نمائندے شریک تھے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں 14اپریل1988کو جنیوا میں معاہدے و فیصلے پر دستخط ہوئے تھے کہ سوویت یونین 9مہینے میں افغانستان سے انخلا مکمل کرلے گا۔ روسی حکام افغانستان میں ہر سال کم از کم پانچ ارب ڈالر خرچ کرتے تھے۔ جبکہ صورتحال یہ تھی کہ روس معاشی طور اتنا بڑا مالی نقصان برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ روسی صدر گورباچوف نے مزید تباہی سے بچنے کے لئے فوری انخلا کو ترجیح دی اور 9 ماہ کے واپسی کا عمل محض تین ماہ میں مکمل کر لیا۔سوویت یونین کی جلد بازی کی وجہ سے افغانستان میں سیاسی نظام فراہم نہ ہوسکا، روس اور امریکا نے سیاسی نظام و حل پیش کرنے کے بجائے 9برس تک لڑی گئی گوریلا جنگ کے بعد افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ معاہدے کے بعد جو عبوری حکومت قائم کی گئی اس میں اختلافات اس قدر شدید نوعیت کے پیدا ہوگئے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

روس نے واپسی کے بعد تین سال تک کابل انتظامیہ کے ساتھ مالی اور سیاسی تعاون جاری رکھا۔ جب بوریس یلسن نے روسی سیاست میں قدم رکھا تو اس نے ستمبر 1991 میں اعلان کیا کہ وہ کابل انتظامیہ کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے چناں چہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت روس کے عدم تعاون کے نتیجے میں دم توڑ گئی۔ اب امریکا افغانستان میں سوویت یونین جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔وہ بھی اسی طرح منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے جس سرعت کے ساتھ سیاسی عمل شروع کیا ہے، وہ سمجھتے ہیں افغانستان امریکا کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سیاسی مفاہمت کے بغیر امریکا کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ا مریکا کے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کسی حتمی معاہدے کو منظر عام لانے پر دونوں فریقین کو تحفظات کا سامنا ہے۔ امریکا، اپنا انجام سوویت یونین کی طرح نہیں چاہتا اور شکست کے تاثر کو دور کرنے کے لئے مذاکرات کو طوالت دے رہا ہے تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ امریکا، سوویت یونین کی طرح عجلت میں نہیں بلکہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر کے متفقہ معاہدے کے بعد اپنے اہداف حاصل کرنے بعد نکلا ہے۔ امریکا کی جانب سے کابل انتظامیہ کو مذاکرات میں شریک کرانے کی تمام تر کوششوں کا مقصد بھی یہی رہا ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں جو بھی حالات ہوں اس کی ذمے داری امریکا کے بجائے کابل انتظامیہ اور افغان طالبان پر عاید ہو۔ دوسری جانب افغان طالبان کابل انتظامیہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کئے لیکن کابل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دوسرے مرحلے کو بڑی صفائی کے ساتھ سبوتاژ کردیا تھا، تاہم ماسکو میں روس کے تعاون سے پھر امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جو پوری دنیا میں بھرپور توجہ کا مرکز بنا۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے حامد کرزئی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں او ر ملا عبدالغنی بردار کی سربراہی میں اتفاق رائے پایا گیا۔ فیصلہ کن اجلاس جلد ہی دوحہ قطر میں منعقد ہوگا۔ جس میں امریکی انخلا کے بعد حکومتی انتظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نیز افغانستا ن میں مختلف شدت پسند گروپوں کے حوالے سے بھی متفقہ حکمت عملی پر غور وفکر کیا جائے گا۔

افغان طالبان کے سامنے اس وقت مملکت کا نظام اور مخالفین کے ساتھ مسلح مزاحمت کا چیلنج موجود ہے۔ افغانستان میں صدارتی نظام کے تحت بار بار انتخابات اسی وجہ سے موخر کئے جارہے ہیں کیونکہ امریکا نئے سیکورٹی معاہدے کے تحت افغانستان کی بند گلی سے خود باہر نکال سکے۔ افغانستان میں انتخابات بار بار موخر ہونے کے بعد صدارتی امیدواروں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ22مئی کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی آئینی مدت ختم ہوچکی تھی تاہم سپریم کورٹ نے صدر اشرف غنی کے مدت صدارت میں توسیع کردی۔ صدارتی امیدواروں نے عبوری حکومت کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر 22مئی کے بعد افغان صدر اپنے عہدے کو نہیں چھوڑتے تو وہ متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ تاہم صدر اشرف غنی صدارتی امیدواروں کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دے چکے ہیں کہ آئین میں عبوری حکومت کی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ نے انہیں جو تو سیع دی ہے وہ قانون کے مطابق ہے۔ آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرسکتی ہے۔ صدارتی امیدوار نہیں۔اشرف غنی کی جب اپنی صدارتی حیثیت متنازعہ ہے تو ان حالات میں ممکن ہی نہیں کہ افغان طالبان اپنے کسی مطالبے میں لچک دکھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی کا سخت ردعمل سامنے آتا ہے۔ عالمی ہنماؤں کو افغان طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں پر کابل انتظامیہ کا اعتراض شنگھائی تعاون کانفرنس میں سامنے آچکا ہے۔افغان طالبان، افغان سیکورٹی فورسز اور غیر ملکی افواج کے خلاف مسلسل گوریلا جنگ میں مصروف ہیں۔

امریکی افواج کے مکمل انخلاکے بعد ہی افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کردیں گے۔ اور اپنے زیر اثر علاقوں سے اُن علاقوں میں پیش رفت کریں گے جہاں ان کی عمل درآری نہیں ہے تاہم امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کی مزاحمت بھی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت سیز فائر کرنے سے افغان طالبان کو سیاسی و دفاعی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس لئے جنگ بندی کے لئے افغان طالبان امریکی افواج کے انخلا تک تیار نہیں۔اسی طرح افغان سیکورٹی فورسز بھی افغان طالبان کے خلاف امریکی تعاون سے آپریشن کررہی ہے لیکن اس میں کابل انتظامیہ کو ممکنہ کامیابی نہیں مل رہی بلکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔

قطر میں امریکا اور طالبان نمائندوں کی بار بار ملاقاتیں بھی اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ امریکا عسکری لحاظ سے مکمل شکست کھا چکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا پر اعتماد کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ کیونکہ ابھی تک امریکا نے فوجی انخلا کے حوالے سے واضح موقف کو نہیں اپنایا۔امریکا کی جانب سے مصدقہ اطلاعات کی فراہمی میں سست روئی یا خاموشی کی وجہ سے افغان طالبان کا خبر رسانی کا شعبہ بھی برتری اختیار کرچکا ہے۔ افغان طالبان مسلسل عوام سے رابطے میں بھی ہیں اور ماضی کے مقابلے میں جدید میڈیا ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ اس کا اندازہ افغان جنگ میں شریک ایک امریکی جنرل تھامس جانسن کی کتاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو انہوں نے افغان طالبان کے میڈیا اور مزاحمت کاروں کی کامیابی و اثر رسوخ کے بارے میں ‘طالبان کی داستان اور افغان جنگ میں طاقت کے استعمال کی کہانیاں ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ امریکی جنرل تھامس جانسن نے افغان جنگ میں امریکی شکست کے اسباب اور عوامل بیان کیا ہیں۔

امریکا کے ایک مشہور میڈیاstars and stripesنے مذکورہ بالا عنوان کے ساتھ اس کتاب بارے ایک مضمون شائع کیا ہے۔اس میں افغان طالبان کی حکمت عملی کے اثرات اور اثر و رسوخ کے موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔بحری فوج کے ایک اسکول میں ٹیچر کی خدمات انجام دینے والے جنرل تھامس نے لکھا ہے”افغانستان میں امریکا اپنی تاریخ کی طویل جنگ ان فوجیوں کی طاقت سے نہیں جیت سکتا، جن کے سامنے جو کچھ بھی آتا ہے، وہ صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جنگ میں پیشرفت پروپیگنڈا مہم میں کامیابی سے منسلک ہے۔ جو بھی اچھا پروپیگنڈا کرے، وہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔طالبان نے فائدہ اٹھایا ہے اور افغان لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی حملہ آور ہیں۔ جب کہ امریکا افغان عوام کو سمجھانے میں ناکام ہوگیا ہے کہ اس ملک میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کتنی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی سستی اور سادہ تکنیکوں کے مقابلے میں امریکا کا اعلی سطحی پروپیگنڈا افغان عوام کے دل جیتنے میں ناکام رہا ہے“۔اس کتاب کو سی ہورسٹ پبلشر نے بھی لندن سے شائع کیا تھا۔ ایکسچ اسٹریک اور فلیکس کوہن، جو افغان طالبان کی تحریک اور مہمات پر تحقیق کرتے ہیں۔ سیاسی امور کے دونوں ماہر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغان طالبان کو اچھی طرح جاننے کے لیے عالمی برادری اور خاص طور پر مغربی دنیا کے لیے ضروری ہے وہ ان کے ادب، شعر اور نظموں کو بھی سمجھیں۔

‘انسانی حقوق’ کا وہ نظریہ ہے، جس کے تمام انسان یکساں طور پر حق دار ہیں۔ انسانی حقوق کا جدید تصور دوسری جنگ عظیم کے بعد ترتیب دیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ بڑے پیمانے پر قتلِ عام بنا۔ اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں ترتیب دیا۔ اس میں زندگی کے حقوق، آزادی کے حقوق، جائیداد کے حقوق، بحث و مباحثہ کے حقوق، ووٹ کا حق، الیکشن کا حق، پبلک افیئرز کے حقوق اور سیاسی افیئرز کے حقوق شامل ہیں۔۔ ڈیٹا تربیت دینے والے امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹریکشن کے مطابق کابل انتظامیہ کے اضلاع پر کنٹرول میں اشاریہ سات فیصد کمی آئی ہے۔ 132 اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان مقابلہ ہے۔ امریکی ماہر بل روگیو کے مطابق افغانستان میں سکیورٹی صورتحال کی بہتری ممکن نظر نہیں آرہی۔ امریکی ادارے کے مطابق اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کے مطابق افغان سکیورٹی فوج کو بھاری نقصان ہوا ہے۔افغانستان میں امریکی فوج کے اعلی کمانڈر اسکاٹ میلر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ”ہم طالبان کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس لیے ہم نے مذاکرات کا راستہ اپنایا اور طالبان بھی اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ لہذا انہیں چاہیے وہ مذاکرات کے لیے سنجیدگی اختیار کریں۔

ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا“۔ گزشتہ ایک سال کے دوران امریکی فوج نے افغانستان میں 6 ہزار سے زائد بم برسائے اور طالبان کو شکست دینے کے لیے مختلف صوبوں میں فوجی آپریشن کیا۔ اس جنگ میں افغان سکیورٹی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ افغان تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں ہے۔افغانستان میں روسی صدر کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف کا کہنا ہے ”کہ امریکا کی ناکامی کے بعد روس نے امن کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ امریکا کو افغانستان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہم نے 17 سال انتظار کیا، لیکن وہ ناکام رہا۔ اب طالبان ملک کے 60 فیصد رقبے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ یہ امریکی اور نیٹو فوج کی 17 سالہ جنگ کا نتیجہ ہے“۔اشرف غنی نے امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”گزشتہ چار سال کے دوران افغان سکیورٹی فوج کے 28 ہزار سے اہل کار ہلاک ہوئے“۔ افغان تجزیہ کاروں کے مطابق ہر روز کم از کم سو کے لگ بھگ افغان اہل کار اس جنگ میں لقمہ اجل بنتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنگ طالبان اور افغان فوج کے درمیان ہے یا یہ جنگ طالبان اور امریکی فوج کے درمیان ہے۔

امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈنفوررڈ بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ ‘افغانستان میں طالبان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔’ جب امریکی جنرل میکنزی نے امریکی سینیٹ میں آرمڈ فورسز کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ‘افغان جنگ میں پیشرفت نہیں ہورہی، افغان فوجیوں کی بڑی تعداد میں اموات ناقابل برداشت ہیں۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری کیا جائے۔ اس دوران سابق امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہ افغانستان کے لیے سترہ سالہ جنگ بہت زیادہ وقت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔اسی لیے امریکی وزارت خارجہ نے اپنے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کو افغان تنازع کے حل کی خاطر امارت اسلامیہ کے نمائندوں سے بات چیت کے لیے منتخب کیا ہے۔افغان طالبان کے ساتھ امریکا کا بامقصد مذاکراتی دور کا تادم تحریر اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت جاری ہے۔ افغانستان کی سیاسی صورتحال موافق نہیں ہے۔ داعش افغانستان میں مضبوط کرنے کی کوششوں میں ہے۔

داعش نے پاکستان اور بھارت میں ولایت پاکستان و ہند کا اعلان کرکے مستقبل میں اپنے عزائم سے عالمی قوتوں کو خبر دار کردیا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا جیسے بہر صورت افغانستان سے نکلنا ہے، انخلا میں سست روئی کا مظاہرہ نہ کرے۔ ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں افغانستان کی سرزمین امریکا کے لئے موافق بھی ثابت نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان ماضی کی غلطی کو دوبارہ دوہرانا نہیں چاہتا۔ لہذا جو کچھ کرنا ہے امریکا کو ہی کرنا ہے اور جلد ازجلد کرنا ہوگا۔کیونکہ افغانستان کی صورتحال اب سیاسی اعتبار سے بھی کابل انتظامیہ کے لئے مشکلات کا سبب بنتی جارہی ہے۔ عسکری مشکلات و شکست کے بعد اگر افغانستان سیاسی حل بھی نکالنے میں تاخیر سے کام لیا گیا تو عالمی برادری کی ناکامی ہوگی۔کابل انتظامیہ اس حوالے دور اندیشی و تدبر کا مظاہرہ کرے اور قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے بجائے جنگ کے خاتمے کے لئے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان بامقصد مذاکرات کے حتمی نتائج کا انتظار کرے۔

پاکستان کے ساتھ افغانستان اپنے تعلقات میں بہتری پیدا کرے۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے سب سے زیادہ سنجیدگی و برداشت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی طویل ترین میزبانی کے بعد پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے احسانات کو فروعی مقاصد کے لئے ضایع نہ کرایا جائے۔ پاکستان میں اس وقت افغان مہاجرین کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ جس میں یقینی طور پر لاکھوں ایسے افغان مہاجرین ہیں جو اپنے آبائی وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں منفی پروپیگنڈوں سے خوف زدہ کیا جارہا ہے کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد ان کے انسانی حقوق متاثر ہونگے۔ تاہم ماضی کے مقابلے میں افغان طالبان نے اپنے رویوں میں کافی لچک پیدا کی ہے۔ خواتین کے حقوق سمیت بچیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق کے ساتھ پروسی ممالک اور عالمی تعلقات پر افغان طالبان نے اپنا ٹھوس موقف سامنے رکھا ہے کہ کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونگے اور قیام امن کے بعد افغانستان میں انفرا اسٹرکچر کی بحالی سمیت ترقی کے لئے تیزی سے کام کیا جائے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی کے شدید دشمن روس، ایران ا ور افغان طالبان اب ایک صفحے پر ہیں اس لئے مستقبل میں افغانستان کے دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی بھی ملک کی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جس کا مکمل فائدہ پڑوسی ممالک سمیت افغانستان کی عوام کو پہنچے گا۔افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لئے پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی، ایران، جرمنی، چین، بھارت خاص کر روس و وسطی ایشیا ئی ممالک کا کردار مستقبل میں بھی اہم رہے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
23182