Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سوری۔۔۔میاں نواز شریف صاحب….. تحریر: شمس الحق نوازش غذری

Posted on
شیئر کریں:

ان کی تصویر آج بھی ہماری جیب میں نہ ہو تو اماں جی پیار سے دیکھتی ہیں اور نہ ہی ابا جی محبت اور شفقت سے بات کرنا گوارا فرماتے ہیں۔ ان کی تصویر سے محروم لوگوں کی اپنوں میں کوئی آؤ بھگت ہے اور نہ ہی غیروں میں کوئی قدر و منزلت، ان کی تصویر سے خالی انسانوں کا سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ ہی خاندان میں کوئی وقعت، قصہ مختصر۔۔۔۔! جس کی پاکٹ میں ان کی تصویر موجود نہیں اس کے ہاتھ میں دنیاوی ٹھاٹھ باٹ کی لکیر کا وجود نہیں۔ دنیا اس ہستی کو محمد علی جناحؒ کے نام سے جانتی ہے جبکہ ہماری تاریخ میں ان کا نام “قائد اعظم”کے نام سے محفوظ ہے۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔ہم نے ان کی لخت جگر مادر ملت فاطمہ جناح کو الیکشن میں شکست و ریخت سے دو چار کر دیا اور وہی ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی ملک کے وزیر اعظم تھے ان کے بد ترین مخالفین ان سے لاکھ اختلاف کے باوجود جوہری پروگرام کی بنیاد کا کریڈٹ انہیں ہی دیتے ہیں انہیں اس جرم کی پاداش میں ہم نے تختہ دار تک پہنچا دیا، ڈاکٹر اے۔کیو۔خان کے نام سے عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے مایہ ناز سائنس دان بھی اس ملک کے باسی ہیں جن سے ایٹم بم کے خالق ہونے کا کریڈٹ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی سائنس اور کوئی ٹیکنالوجی نہیں چھین سکتی۔ جس طرح شاعرِ مشرق کے خاکہ پاکستان پیش کرنے اور بانی پاکستان کا اس خاکے میں رنگ بھرنے میں کوئی شک نہیں بالکل اسی طرح ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایٹم بم کا خالق ہونے میں کوئی احتمال نہیں۔ ہماری اعلیٰ ظرفی کی انتہا دیکھئے اُن کی اِن خدمات کے عوض ہم نے پہلے انہیں “محسن پاکستان”کے خطاب سے نوازا اور اس خطاب کا سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی ا نہیں جوہری ہتھیاروں کا “بیوپاری”بھی قرار دیا۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں آپ نے موٹر وے کو سات سو کلومیٹر سے 3100کلومیٹر تک بڑھا دیا آپ نے عالمی طاقتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یکے بعد دیگرے چھ دھماکے کر کے قائد اعظم کے پاکستان کے گردا گرد جوہری تاروں کا باڑ بھی لگا دیاآپ نے پاکستان کا مستقبل، سلامتی اور دفاع ناقابل تسخیر بھی بنا دیا، آپ نے وطن عزیز کو ہر طرح سے محفوظ کرکے خود قید تنہائی کاٹنے پسِ زندان بھی چلے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جو عادات ہماری جسم کی طرح جسیم بنی ہوئی ہے اور اس عادتِ شریفہ کا علاج دنیا کی کسی سائنس نے آج تک دریافت نہیں کر سکی اس عادت اور خصلتِ سبھاؤ کے طفیل ہمارے محسنوں کے تمام احسانات ہمارے دل و دماغ سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لیکن صرف آپ کے وہ دو بول ہمیں آج تک کلمے کی طرح یاد ہیں جنہیں آپ جیل جاتے جاتے ہمیں سنا گئے تھے۔
اے میرے دل کہیں اور چل
غم کی دنیا سے جی بھر گیا

 

میاں صاحب۔۔۔۔آپ کے احسانات کے عوض ہم نے آپ کو جیل میں ٹیلی ویژن، بستر، کمبل ہیٹر، کرسی اور میز بھی تو رکھوا دی ہیں، ہماری طرف سے ان ایوارڈز اور ریوارڈ ز کا بھی تو کوئی نہ کوئی صلہ ملنا چاہئے۔ آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ہم نے ایٹمی پروگرام کے بانی بھٹو سے وہ “نوار”والا چارپائی بھی اٹھا لیا تھا، بھٹو صاحب کو تو بجلی کی روشنی والے بٹن(Switches)بھی “آن””آف” کرنے کی اجازت نہیں تھی یہ ان کے سیل کے باہر دالان(Corridor) میں منتقل کئے تھے۔اور ان کو باہر سے ہی جلایا اور بجھایاجاتا تھا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہ تھی کہ بھٹو صاحب اپنا “اکلوتا بلب”کب جلانا اور بجھانا پسند کرتے تھے۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔شاید آپ کو ہماری قانون کی سختی کا اندازہ نہیں جب یہ حرکت میں آجاتا ہے تو بھٹو جیسے لوگوں کو بھی اپنے سیل کا بلب آن آف کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور جب یہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے تو پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے، قانون اور آئین کی دھجیاں اڑانے والے سرکش آمروں کی طرف بے بسی کی نظروں سے بے بس ہو کر دیکھتا ہے۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔آپ کی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں میں سے ایک بہت بڑی کمزوری اور خامی یہ بھی ہے کہ آپ کبھی ہماری دکھتی رگ پہ پاتھ ہی نہیں رکھتے ہیں اس وجہ سے ہر بار آپ کی تخت کا تختہ ہو جاتا ہے اور آپ مسندِ اقتدار سے اٹھ کر سیدھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ آپ نے ان فوجی آمروں کی کُلیوں (Formulas) پر کبھی غور نہیں کیا جن کو جنہوں نے پوری زندگی اپنے پلو کے ساتھ باندھ کے پلوا دی۔

 

جنرل ضیاء کو ہی لیجئے جنہوں نے ہمیں شریعت نافذ کرنے کا جھانسہ دیکر ایک درجن برس تک اقتدار کے ساتھ چیونگم کی طرح چمٹا رہا۔خیر۔۔۔ان کادور زمانہ بعید میں شمار ہوتا ہے شاید ان کی کارستانیاں آپ کی ذہن سے سہو نسیاں بھی ہو گئے ہوں لیکن کم از کم ماضی قریب کی تاریخ پر ہی اُچٹتی ہوئی نظر کرم فرماتے تو اصل حقائق اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آپ پر وا ہو جاتے، ہماری تاریخ میں ایک ایسا ڈکٹیٹر بھی گزرا ہے ایک دفعہ شب باشی کے لئے وہ اپنی خواب گاہ میں استراحت فرمانے چلے گئے جب صبح ان کی آنکھ کھلی تو وہ خواب گاہ سے باہر قدم رکھتے ہی خواب آلود لہجے میں کہنے لگے “آج سے میں سید پرویز مشرف ہوں “ان کے ایک مدح خواں وزیر جو نہ صرف چڑھتے سورج کے مستقل پجاری ہیں بلکہ ہر فرمان روا کی ساز پر ڈھول بجانے کے بھی ماہر ہیں انہوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ایک دن اعلان کر دیا کہ “میں مجاہد ختم نبوت ہوں ”

 

اب یہ راز سر بستہ ہی ہے کہ وہ اپنے کسی نوکر یا گارڈ کے خوف سے خود کو مجاہدین ختم نبوت کی صف میں شامل کر دیا یا خود ان کے اندر ایمان کی حرارت ے ایمانی جذبہ جگا دیا یا انہوں نے بھی اپنے پیش رو کی طرح پاکستان کے سادہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا خیر باطن کی کیفیت اور اصلیت سے تو صرف اللہ کی ذات واقف ہے البتہ قارئین کی نجاتِ تجسس کے لئے عرض ہے کہ دنیا اس رنگیلا کو شیخ رشید کے نام سے جانتی ہے۔ ویسے تو ختم نبوت کے معاملے میں ہمارا ہر آقا دوسرے سے بڑھ کر ہے یہ کل کی بات ہے اسی طرح کا ہی ایک اور وزیر نے گستاخ رسولؐ کو خود گولی مارنے کا عہد کیا تھا جب کہ ان کے علوم اسلامیہ سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ مسلسل تین بار کی انتھک کوشش کے باوجود بھی “قل ہو اللہ”ان کی زبان پر چل نہ پایا۔

 

میاں صاحب۔۔۔ یہ بات روز روشن کی طرح ساری دنیا پر عیاں ہے کہ کہ اس وقت ملک کی باگ ڈور جس کپتان کے ہاتھ آئی ہے ان کی اپنی اولاد یہودیوں کے رحم و کرم پر ہیں وہ خود اپنے گھر میں “آزواجِ محترمات “کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے باالفاظ دیگر وہ اب تک ایک گھر نہ چلا سکے مگر نکلے ہیں ایٹمی ملک چلانے۔۔ ان کے فیصلوں کی طرح ان کا مزاج بھی تقریباً معکوس ہے۔ جب کوئی خاتون ان کی منکوحہ بن کے گھر بسانے کی خاطر گھر آتی ہے تو اس کے ساتھ ان کی کبھی بنتی ہی نہیں اور وہی خاتون جب مطلقہ بن کر گھر سے نکلتی ہے تو پھر اس کا ان سے کبھی جان چھوٹتی ہی نہیں۔ کبھی اولاد کے بہانے سے کبھی سالے کی الیکشن کمپین کی غرض سے ان کی گلیوں کے چکر لگتا ہی رہتا ہے، ثبوت کے لئے دلیل عرض خدمت ہے۔انگلینڈ کے میئر صادق مسلمان بھی تھے اور پاکستانی بھی لیکن الیکشن کمپین گولڈ سمتھ کے فرزند ارجمند کی، جن سے اسلام کا رشتہ جڑتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا!

 

میاں صاحب۔۔۔۔وہ صاحب آج اپنے اقتدار کی عمر کو دوام بخشنے کے لئے ہمیں ہر صبح شام ریاست مدینہ کی لوری سنا رہے ہیں اور ہم میں سے ایک گروہ ریاست مدینہ کا نعرہ سن کر خوشی سے پھولے نہیں سمار رہا ہے تو دوسرا گروہ اس کی بھر پور مخالفت میں اپنا وقت برباد کر رہا ہے۔ حقیقت میں “حقیقت”سے دونوں نا آشنا ہیں۔وہ ایسے کہ ریاست مدینہ دو طرح کے تھے سرکار دو عالمؐ کے بعثت سے پہلے اور سرکار دو عالم ؐ کی بعثت کے بعد۔۔۔

 

غور وفکر اور سوچ بچار کی توفیق ملے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ اس وقت نئے پاکستان میں سرکار دو عالم ؐ کی بعثت سے پہلے والی ریاست کا نقشہ نظر آتا ہے یا بعد کا۔۔۔کیونکہ نئے پاکستان والی مدینہ کی ریاست کے لئے جو تحریک چلی تھی اس اختلاطی گڈ مڈ تحریک میں شامل مردو زن ڈھول کی تھاپ میں بیک وقت ناچتے بھی تھے اور گاتے بھی۔۔۔لیکن دورود و سلام اور اللہ اکبر کی صدا اس پوری تحریک بلکہ پاکستانی تاریخ کے طویل ترین دھرنے میں کسی پاکستانی نے نہیں سنی۔۔ لہٰذا بات واضح اور جواب بڑا آسان ہے جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق جیسی تحریک ویسی حکومت۔۔۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔ ان فنکاروں کا کمال فن دیکھئے، تحریک کا پس منظر اور پیش منظر کچھ اور ہونے کے باوجود ان کے “ناچ مارچ اور ڈانس دھرنے “کے بطن سے جو حکومت وجود میں آئی ہے اس کے متوالے اپنے اس نعرہ مستانہ میں ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم ہی اس ملک کو دنیا کے لئے ریاست مدینہ کا ماڈل بنا کر پیش کریں گے جبکہ ان کے تین نکاتی ایجنڈے میں شامل سیاست آج بھی دشنام طرازی، معیشت آج بھی کاسہ گدائی اور حکومت آج بھی جادوگری کے گرد گھومتی ہے۔

 

میاں صاحب۔۔۔۔ ہم نہ صرف ایسے لوگوں کے دامِ فریب میں آجاتے ہیں بلکہ انہیں کم از کم ایک درجن برس تک حکمرانی کا موقع بھی دیتے ہیں چاہے انہوں نے شریعت نافذ کرنے کے نام سے ہمیں بہلایا ہو یا خود کو راتوں رات “شاہ صاحب”بنا کر ہمیں الو بنایا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم جنرل ضیاء جیسے امیر المومنوں، مشرف جیسے شاہ جیوں، شیخ رشید جیسے مجاہدوں اور کپتان جیسے والیوں سے فوراً اثر قبول کر لیتے ہیں یہ سوچ و فکر تو ہماری ڈی این اے میں شامل ہی نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کامحسن کون ہے اور مجرم کون۔۔۔۔۔

 

ہمیں یہ سوچنے کی تو کبھی توفیق اور فرصت ہی نہیں ملی کہ کس نے کس وقت اور کس طرح کی سختیاں جھیل کر ہمارے اورپر احسان کیا ہے اور ہماری گردن پر کن لوگوں کی احسانات کا بوجھ ہے۔

میاں صاحب۔۔۔۔ ہم اپنے محسنوں کو مادرِ ملت کی طرح شکست، بھٹو کی طرح پھانسی، ڈاکٹر اے کیوخان کی طرح رسوا اور میاں نواز شریف کی طرح سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ہم اس قابل ہی نہیں کہ کوئی ہمارے اوپر احسان کرے کیونکہ ہم انتہائی محسن کش قوم ہیں جو ہمارے اوپر احسان کرتا ہے وہ ہماری شر سے نہیں بچتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
22937