Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ترش و شیرین…..پیشہ ور گداگر اور امداد کے مستحق سفید پوش ضرورت مند …. نثار احمد

Posted on
شیئر کریں:

چترال ٹاون اور آس پاس کے علاقوں میں باہر سے آئے ہوئے پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ارباب بست و کشاد نے اگر گداگروں کی بڑھتی تعداد کو روکنے کی کوئی سبیل نہیں نکالی تو آنے والے دنوں میں یہ پیشہ ور گداگر پورے چترال میں پنجے گاڑ کر دوسرے شہروں کی طرح اِسے بھی “گداگرستان” بنا سکتے ہیں.

ایک وقت وہ بھی تھا جب چترال میں پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں تھی پھر پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی کہ اب آئے روز ان کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے. زیادہ نہیں، سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ مذہبی اسکالر ، دانشور اور کالم نگار خورشید ندیم چترال گھومنے آیا تھا واپسی پر اپنے کالم میں یہاں کی گداگر نامی مخلوق کی فقدانیت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ چترال کے کسی کوچے، گلی کے نکڑ یا چوراہے میں آپ کو جھولی پھیلائے کوئی بھیگ مانگتا نظر نہیں آئے گا. اسی طرح بقول شخصے ایک دفعہ طارق عزیز شو میں سوال پوچھا گیا کہ پاکستان کا وہ کونسا علاقہ ہے جہاں جنس گداگر نہیں پایا جاتا. درست جواب کے طور پر عرض ہوا کہ “چترال”.
ظاہر ہے کہ ایسی تگڑی گواہیاں نہ صرف کسی بھی علاقے کے خوبصورت امیج کو باقی دنیا تک پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں بلکہ اُس کے باسیوں کے متعلق انتہائی خودار و معزز ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہیں.

گداگری کوئی اچھا پیشہ نہیں ہے. یہ اپنی ذاتی نوعیت میں نہ صرف شرف ِ انسانیت سے متصادم ہے بلکہ شرع میں بھی جا بجا اس کی سخت مذمت آئی ہے. حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ نے اس سے پوچھا ” تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟” وہ کہنے لگا۔ ”ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔” آپ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔” وہ لے آیا تو آپ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا : ” میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔” آپ نے فرمایا : ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟” اور آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا : ” میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔” آپ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں. اب آپ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا : اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا : جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔”

پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ نے فرمایا : یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔” (نسائی کتاب الزکوٰۃ) باب فضل من لایسئل الناس شیأ)
ایک اور حدیث کے مفہوم کے مطابق ”بلا ضرورت لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا قیامت والے دن ایسے حاضر ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا”

معاشی اور معاشرتی طور پر ” گداگری” کی وجوہات کا انکار ہے اور نہ ہی کسی بھکاری کے ساتھ انسانی ہمدردی کی مخالفت. بس اس حقیقت کا مذاکرہ مقصود ہے کہ گداگری ایک ناسور اور لعنت ہے جو معاشرے کو پستی و ذلت کی طرف ہی دھکیلتی ہے۔ جس سے حضرتِ انسان کی عزت نفس اور محنت کی عظمت کے تمام خیالات و نظریات بری طرح متاثر و منہدم ہوتے ہیں. جس انسان کو مانگنے کی “لت” ایک دفعہ پڑ جائے پھر وہ پوری زندگی بس مانگنے پر ہی اکتفا کرتا ہے. مانگنے کی یہ “لت” تب تک اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتی جب تک وہ زمین کے سینے سے اس کے پیٹ پر نہیں اُترتا. سماج کے بہی خواہ ہونے کے ناتے ہم سب کی اجتماعی زمہ داری ہے کہ بھکاریوں پر رحم کھا کر اُنہیں داد و اعطاء سے نوازنے کی بجائے اِس قبیح فعل کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ شکنی کریں. یہ ہماری سادہ لوحی ہی ہے کہ ہم ان پیشہ وروں پر ترس کھا کر اِنہیں “کچھ” نہ کچھ دے دینے کو مستحسن خیال کرتے ہیں. نتیجتاً گداگری کی نشوونما و پروان چڑھانے میں ہمارا حصہ بھی حتی المقدور ڈَلتا رہتا ہے.

باہر سے چترال میں وارد ہونے والے بھکاریوں کا ٹولہ بلچ میں باقاعدہ خیمہ لگا کر منظم انداز میں مال بنانے کی مہم میں منہمک ہے . اسی خیمے سے یہ غول کے غول جھتے بناکر بازاروں میں یا پھر انفرادی طور پر مساجد کے دروازوں کے باہر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں. یہاں انتظامیہ کی بڑی زمہ داری بنتی ہے کہ اس مسئلے کو دیکھے اور قانون کے گنجائشی دائرے میں اِن خانہ بدوش بھکاریوں کو یہاں مستحکم ہونے اور مزید پَر نکالنے سے روکنے کے لئے کوئی اقدام کرے. ورنہ یہ پورے چترال میں پھیل سکتے ہیں.

بھکاریوں کو نواز کر دوسرے مزید لوگوں کے لئے “پیشہ ء گداگری” کو پُرکشش و منافع بخش بنانے سے بہتر یہ نہیں ہے؟ کہ اپنے اردگرد کے سفید پوش مستحقین کی مدد اس انداز میں کی جائے کہ اُن کی خود داری مجروح ہو اور نہ ہی اُن کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے. اردگرد نظر دوڑائی جائے تو بہت سارے سفید پوش ضرورت مند ایسے ہوتے ہیں، جو اپنی ضرورت صرف اپنے رب کے سامنے بیان کرتے ہیں. اپنی مخصوص معاشرتی افتاد ِ طبع کی وجہ سے کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانا اُن کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ خاموشی سے تعاون کرنا جہاں ثواب کا کام ہے وہاں یہ ایک بڑی معاشرتی زمہ داری کی احسن طریقے سے ادائی بھی ہے. ہر علاقے میں ضرورت مندوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہوتی ہے ، جو بھرپور تگ ودو اور خون پسینہ ایک کرکے محنت مزدوری کرنے کے باوجود بھی اپنی فیملی کی ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرپاتے۔ ان کے بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضرورت سے بھی بہرہ ور نہیں ہو پاتے۔ محدود تر وسائل ِ زندگی کی وجہ سے ان مستقبل کے حوالے سے اِن کے بہت سارے خواب شرمندہ ء تعبیر ہونے سے پہلے ہی کرچی کرچی ہوتے ہیں.
پھر ان بچوں کے تعلیم و ہنر سے محروم رہنے کے اثرات صرف اُن تک محدود نہیں رہتے بلکہ غُربت و عسرت اور جہالت کی اگلی نسل تک منتقلی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں.

ایک اور حقیقت، جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں ہوتی، یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سفید پوش افراد کی زندگی غریبوں سے بھی زیادہ مشکل میں ہے۔ اس طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ بظاہر یہ غریب نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی خودداری اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اپنی مشکل ظاہر کرنے کی اجاذت دیتی ہے۔ اس وجہ سے یہ طبقہ غریب سے بھی زیادہ رُل رہا ہوتا ہے. کیونکہ غریبوں کی مدد کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی کر ہی رہا ہوتا ہے۔ نہ صرف خوشحال لوگ انفرادی طور پر حتی المقدور ان کی مدد کرتے ہیں بلکہ اس مقصد کے لیے قائم فلاحی ادارے بھی آفات کے دنوں میں اِن کی مدد میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

یہ بات بھی زہن میں رہنی چاہیے کہ زکوٰۃ کی رقم سے کسی سفید پوش کی مدد کرتے وقت اس بات کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی کہ زکوٰۃ کی صراحت کی جائے.

گزارش یہی ہے کہ آج سے اس کارِ خیر کا آغاز کیا جائے. رمضان جیسے بابرکت مہینے میں کسی کے ساتھ “مالی تعاون” ثواب ہی دوگنا کرکے نہیں دے گا ، کسی کی عید کی خوشیاں بڑھانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا..
اللہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22687