Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ……….. سر سید کے مخا لفین کی بصیرت …….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

بھارتی انتخا بات کے تا زہ ترین نتا ئج نے دو قو می نظر یے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے سر سید احمد خان نے 1886ء میں دو قو می نظر یہ پیش کیا تو مخا لفین نے اس کو بے بنیاد قرار دیا نواب محسن الملک، نواب وقار الملک اور آغا خان سوم نے 1906ء میں دو قو می نظریے کے دفاع کے لئے مسلما نوکی الگ سیا سی جما عت آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو مخا لفین نے اس کو دیوا نے کا خواب قرار دیا 1931ء میں علامہ اقبال نے بر صغیر میں مسلما نوں کے لئے الگ وطن اور ملک کا مطا لبہ کیا تو مخا لفین نے اس کو ہندو ستان کی تقسیم کا ایجنڈا قرار دے کر مسترد کیا 1940میں با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے پا کستان کے قیام کا مطا لبہ کیا تو مخا لفین نے اس مطا لبے کے جواب میں کہا کہ اس طرح مسلما نوں کو کمزور کر نے کی سازش ہو رہی ہے جب کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان طا قت حا صل کرینگے مئی 2019ء میں بھارتی انتخا بات میں بھارتی لوک سبھا کی 540سیٹوں والی اسمبلی میں صرف 22مسلمان کامیاب ہوئے ہیں جن میں 20مر د اور 2خوا تین ارا کین ہیں دو نوں خوا تین کا تعلق مغر بی بنگا ل سے ہے اس صو بے مین مسلما نوں کی سیٹوں میں 50%کمی ہو ئی ہے اسطرح پنجا ب، کشمیر،اتر پر دیش،اندھرا پر دیش میں بھی مسلما نوں کی سیٹیں گزشتہ انتخا بات کے مقا بلے میں کم ہو ئی ہیں آزا دی کے بعد پہلی اسمبلی میں مسلما نوں کو 11سیٹیں ملی تھیں اس کے بعد ہر انتخا بات میں مسلمان ارا کین کی تعداد 22سے اوپر ہی ہو تی تھی سب سے زیا دہ تعداد 1980ء مین کامیاب ہوئی تھی جب 49مسلم اراکین لوک سبھا میں آئے تھے یہ دوسری بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی کامیا بی کا گراف نیچے گرا ہے کامیاب ہونے والے مسلمان بی جے پی، سماج وادی پارٹی، یو نائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ، کانگرس، نیشنل کانفرنس اور مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹوں پر کامیاب ہوئے ہیں کامیاب ہونے والے نما یاں اراکین میں کشمیر سے فاروقی عبد اللہ، تلنگا نہ سے اعظم خان، مغر بی بنگا ل سے نصرت جہاں، آسام سے بدر الدین اجمل،تلنگا نہ سے اسد الدین اویسی پنجاب اور مہا راشٹر سے محمد صادق اور امتیاز جلیل شامل ہیں بھارتی لوگ سبھا کے گنے چنے 22 اراکین کا مقابلہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد سے کر یں تو سر سید ا حمد خان کے موقف اور ان کی بصیر ت کی تا ئید ہو تی ہے مخالفین کے تمام دلا ئل مسترد ہو تے ہیں آج پاکستان کی 342 سیٹوں والی قومی اسمبلی میں 97 فیصد مسلما ن اراکین منتخب ہو کر آتے ہیں بھارتی پارلیمان میں یہ شرح صرف 4 فیصد رہ گئی ہے سر سید احمد خان نے ڈیڑھ سو سال پہلے اس کا اند ازہ لگا لیا تھا اُن کے مخالفین اس بات کو سمجھنے اور اس کا ادراک کر نے میں نا کام ہو ئے تھے آج بھارت میں کانگر یس کے ٹکٹ پر محمد صادق اگر چہ ایک بار پھر لوک سبھا میں پہنچے ہیں مگر بی جے پی کی اکثر یت کے سامنے ان کی آواز نقا رخانے میں طو طے کی آواز بن کر رہے گی جمعیتہ العلما ئے ہند، مجلس احرار اور خاکسار تحر یک کے ٹکٹ پر کوئی مسلما ن رکن پارلیمنٹ میں نہیں آتا مجلس اتحاد المسلمین کا نام پارلیمنٹ میں مو جو د ہے تاہم نئے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر مسلما نوں کے مختلف فرقوں کے باہمی اتحاد کی ایسی صورت ہے جیسی ہمارے ہا ں کھبی کھبار متحد ہ مجلس عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دارالعلوم دیو بند کے جید علما ئے کرام بھارت میں سیکولر زم کی حمایت کر تے ہیں آپ بڑے بڑے جلسوں میں علما ء کی تقا ریر اور قر ار دادیں سُن لیں تو آپ کو یہ جا ن کر حیرت ہو تی ہے کہ علما ئے کرام کا جو ہراول دستہ پاکستان میں سیکو لرزم کا شد ید مخالف ہے وہی طبقہ سرحد کے اُس پار بھارت میں سیکولر زم کی شد ومد کے ساتھ حمایت کر تا ہے اگر سر سید احمد خان کا دو قومی نظر یہ نا کام ہو جاتا اور پاکستان نہ بنتا تو کیا صورت حال ہو تی؟ مغر بی بنگال سے لیکر خیبر پختونخوا ہ، بلوچستان اور سندھ، پنجاب تک سارے علما ئے کرام سیکو لرزم کی حمایت میں جان، من، تن او ردھن کی بازی لگا رہے ہو تے بھارتی لوک سبھاکے ہر انتخا بات میں سر سید احمد خان کے مخالفین کے لئے ایک سبق ہوتا ہے جو ہتھو ڑا بن کر اُن کے سر وں پر مسلسل برستا ہے تا زہ ترین انتخا بات میں بہت بڑا سبق ہے جب ہندو ذہنیت پو ری طرح آشکار ہو کر سامنے آگئی ہے سر سید احمد خان،علامہ اقبال، محمد علی جناح، ابو لکلام آزاد، علا مہ عنا یت اللہ مشرقی، خان عبدالغفار خان، سید عطا ء اللہ شاہ بخا ری اور دیگر مسلمان زعما ء کو ہندوں کی ذہنیت کا اندا زہ یکساں طور پر ہونا چاہئے تھا سب ایک ہی ما حول کے لو گ تھے پھر کیا وجہ ہے کہ سر سید احمد خان نے ہندوں کی ذہنیت کا اندا زہ لگا لیا اُن کی بصیرت نے ہندو اکثریت والے ملک میں مسلما نوں کے مستقبل کی تصویر اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لی علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے دیکھ لی جبکہ مو لا نا ابو الکلام آزاد اور اُن کے ہمنوا دیکھنے میں نا کام رہے آج ہمیں نئی نسل کو یہ بات ذہن نشین کر انے کی ضرورت ہے کہ پا کستان نہ بنتا تو پشاور، پنڈی، گوجرانوالہ، سانگھڑ اور کوئٹہ سے بھی ہندو انتہا پسند جما عت بی جے پی کا میاب ہو تی اور چاروں صو بوں سے مسلما نوں کو تانگے مانگے کی 22سیٹیں ہی مل جا تیں ہمارا وزیر اعلیٰ کوئی پنڈت ہوتا اور ہمارا وزیر اعظم بھی کوئی ہندو ہوتا پاکستان کی ا س مملکت کو اللہ تعا لیٰ کی نعمت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنا چا ہئیے سر سید احمد خان، علا مہ اقبال اور محمد علی جناح کو دعا ئیں دینی چا ہئیے ؎

ہم لائیں ہیں طو فان سے کشتی نکا ل کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھا ل کے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22453