Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“تاریخی چور” ……….تحریر:‌میرسیماآمان

شیئر کریں:

مورخ لکھے گا تاریخ میں ایک ایسا چور بھی گزرا ہے جو جب حکومت میں آتا ہے ۶ارب ڈالر کی اوپننگ بیلنس سے حکومت شروع کرتا ہے اور ۱۸ ارب ڈالر کی فارن ریزورز کے ساتھ اپنی مدت پوری کرتا ہے،تقریبا ۲۰ہزار پواءنٹس سے اسٹاک مارکیٹ کو چلانا شروع کرتا ہے اور ۵۳ ہزار تک پہنچا دیتا ہے۔۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ کے درمیان کل ۴۲ ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیتا ہے اور اسی مدت میں ۷۰ ارب ڈالر کے قرضے واپس بھی کردیتا ہےجو سی پیک کے ذریعے ۶۰ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لاتا ہے ،جو ملک میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی پروجیکٹس شروع کرتا ہے۔

یہ ایسا چور تھا جو کئی سالوں سے بنجر پڑے ہوئے لواری ٹنل کو ۲۸ ارب کی لاگت سے محدود مدت میں فوری تیار کروادیتا ہے۔۔یہ ایسا چور تھا جو کئی سالوں سے “‘ شب دیجور “‘ بنے ملک کو روشنیوں میں نہلا دیتا ہے.

مورخ یقینا لکھے گا کہ اس ملک میں ایسا چور گزرا ہے جو ۵۰۰ کلومیٹر کی موٹر ویز کو قلیل مُدت میں ۲۵۰۰ کلومیٹر تک بڑھا دیتا ہے۔جو ۱۸ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ اور ۱۲ گھنٹے کی گیس لوڈ شیڈنگ والے ملک کو سر پلس بجلی و گیس دے جاتا ہے،، یہ ایسا چور تھا جو ٹیکس کلیکشن کو ۲۸۰۰ ارب سے بڑھا کر ۴۵۰۰ ارب تک بڑھا دیتا ہے۔ جو دفاعی بجٹ ۸۵۰ ارب روپیے سے ۱۱۰۰ارب روپیے تک بڑھاتا ہے۔ جو ڈالر کو ۱۰۸ سے ۹۸ کی کمی تک لاتا ہے۔۔

تا ریخ یا د رکھے گی کہ ہمارے درمیان ایک ایسا انوکھا چور گزرا جو پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل کمی کرتا تھا جو ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور مفت ادویات فراہم کرتا تھا،جو پورے ملک میں کارپیٹدڈ سڑکیں بچھانے کی خواہاں تھا جو تعلمی اداروں میں مفت کتابوں کی فراہمی کرتا تھا،جو ذہین طلبہ کے لئے سکالرشپ ۔وضائف اور لیپ ٹاپ سکیم کو یقینی بناتا تھا،جو بیروذگاروں کے لئے گرین کیپ جیسے مختلف سکیم شروع کرتاتھا یہ ایسا چور تھا۔جو عام ادمی کی سہولت کا سوچتے ہوئے میٹروذ کی تعمیر کرتا تھا،، یہ ایسا چور تھا جو ہر قدم عام ادمی کی زندگی اسان کرنے کاسوچتا ، اشیا ء ضرورت پر سبسڈی ۔حج و عمرے پہ سبسڈی ،حتیِ کہ کھاد ،خوراک اور بجلی پر سبسڈی۔۔

یہاں تک کہ یہ ایسا چور تھا جو غریب ادمیکے لئےموبائل لوڈ کے ٹیکس تک ہٹا دیتا ہے۔ کال اور میسج پیکجز کے ٹیکسزز تک ختم کردیتا تھا،یہ پہلا ایسا چور تھا جو نوجوانوں کو ڈگری کے دھوکے میں نہیں رکھتا تھا بلکہ یہ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے پر فکر مند رہتا تھا،اور پورے ملک میں ٹیکنکل کالجز میں مفت وضائف دے کر نوجوانوں کو ٹیکنکل ہونے کے راستے پہ ڈالتا تھا،اور مخالفین سے پٹواری ہونے کے طعنے سنتا تھا۔

یہ ایسا چور تھا جو جانتا تھا کہ مہنگائی بڑھے گی بیروزگاری زیادہ ہوگی تو ملک جرائم کا آماجگاہ بن جاتا ہے وہ عجب چور تھا جو ملک کو جرائم کا گھر نہیں بننے دیتا تھا۔مورخ لکھے گا یہ ایسا چور تھا جس کے دور حکومت میں توانائی اور انفراسٹکچر کے بڑے بڑے منصوبے مکمل ہوئے۔ یہاں تک کہ وراثت میں ملنے والے بد امن بھتہ خور اور دہشت میں مبتلا ملک کو” پُرامن ” بنا کر چلا جاتا ہے ۔۔

مجھے لگتا ہے مورخ لکھتے ہوئے ہزار بار نہ سہی ایک بار تو ضرور سوچے گا کہ “”” کیسا چور تھا یہ؟؟؟؟ جسکی ساری چوری ہی عوام کی مُفادات کے لئے تھیں ؟؟؟ “” مورخ سوچے گا اور یقینا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس چور کے دور حکومت میں اگر دس روپیے کا بیرونی قرضہ لیا جاتا تھا اور اس میں سے اگر ایک روپیے کی کرپشن ہو بھی جاتی تھی تو باقی کے ۹ روپیے عوام پر ہی خرچ ہوتے تھے۔۔۔

پھر یوں ہوا کہ چور پکڑا گیا،، ۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ ہر چور اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ جاتا ہے۔۔ یہ ایسا چور تھا جو اپنے کریڈت پر ہزاروں نشانیاں چھوڑ گیا،اور یہ ایسی نشانیاں ہیں جو ایک وقت آئیگا کہ انھی کی کریڈٹ پر عوام اس چور کی عزت کرنے پر مجبور ہو جا ئیں گے،،،،،

مورخ لکھے گا کہ پھر جب مدینے کی ریاست کا قیام عمل میں آ یا تو عوام کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ امریکہ میں جا کر پاکستاں کا جھنڈا لہرانے سے وہ پاکستان نہیں بن جاتا۔۔بالکل اسی طرح ریاست کا نام مدینہ رکھنے سے حکمران حضرت عمر نہیں بن جاتے۔۔۔ ریاست کی وہ عوام جنکو یہ نہیں پتہ کہ جو ٹیکسزز وہ ادا کرتے ہیں وہ رقوم کدھر جاتی ہیں،،جنکو ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کی سائڈ ایفکٹس کا نہیں پتہ جو نہیں جانتے کہ اسٹاک مارکیٹ کیا چیز ہے۔جنکو بیرونی قرضوں سے کوئی سروکار نہیں ،جنھیں کارپیٹیڈ سڑکوں سے مطلب نہیں۔جو مفت تعلیم مفت ادویا ت سے کوئی غرض نہیں رکھتے جو سکالشپ اور ٹیکنکل سکیم سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے مورخ لکھے گا کہ اس عوام کو ریاست کے ایمان دار حکمرانوں سے تب خوف آیا جب اُنھیں لیموں “سونے کے بھاو میں ملنے لگا۔۔

ہاں لیموں وہی لیموں ۔۔رمضان کے مہینے میں جو لوگ ٹینگ جیسی مشروبات نہیں پی سکتے تھے وہ افطاری میں لیموں کے مشروب پی کر جس سے پیاس بجھایا کرتے تھے،،مدینے کی ریاست میں تو عوام لیموں پانی کو بھی ترس گئے،،،مورخ لکھے گا کہ اگر لیموں کی قیمت میں اضافہ نہ ہوتا تو شائد اس قوم کی اکثریت کو اُنکے حکمرانوں کی ایمانداری کا کبھی پتہ ہی نہ چلتا۔۔

مجھے یقین ہے کہ مورخ لکھے گا کہ ریاست مدینہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا۔جب ریاست کے بڑے بڑے ایمانداروں کی ما ٔوں نے چُھپ چُھپ کر سجدوں میں جا کر اُس “” چور “” کی رہائی اور واپسی کی دُعا ئیں مانگیں،،،،،، مجھے یقین ہے کہ مورخ جب قلم اُٹھا ئے گا تو یہ ساری بکواس ضرور لکھے گا اوراس سارے قصے میں مورخ قوم کے اُس طبقے کو بھی ضرور یاد کرےگاجسکی وجہ سے یہ ریاست وجود میں آیا۔

مورخ کے قلم سے یہ ضرور تحریر ہوگی کہ اس دور میں ایک قوم ایسی بھی تھی جس نے اپنے جذ باتی پن اور اندھے پن سے اپنا نام “یوتھیا ” رکھوادیا،،سیانے کہتے ہیں محبت یا تو روشنی ہوتی ہے یا اندھیرا،،اس وقت یہ طبقہ اُسی محبت کا شکار ہے جو محض اندھیرا ہے۔۔جس میں انکو کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔۔لیکن جوں ہی اس اندھیرے سے نکلیں گے انھیں سب صاف نظر آ یئگا،،لیکن کہیں تب تک بہت دیر نہ ہوجائے۔ ۔

پتہ نہیں کیوں مجھے یہ لگتا ہے کہ مورخ لکھتے لکھتے کنفیوز ضرور ہوگا کہ ایک طرف وہ شخص تھا جسے پوری دُنیا میں چور کہہ کر ذلیل کیا گیا اور اسکے کریڈٹ پر بے تحاشہ کام ہیں اور ایک طرف ریاست مدینہ کے وہ حکمران جو اپنے ماتھوں پر حضرت عمرؓ کا ٹیگ لگائے پھر تے ہیں۔لیکن اُن کے کریڈٹ پر تباہ شدہ معشیت ،بیروزگاری ملکی تاریخ کی بد ترین مہنگائی ،ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت ،فلاپ منصو بے اور دُہائیاں دیتی ہوئی کھودے ہوئے سڑکوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔۔۔

اب فکر کی بات یہ نہیں ہے کہ “اصل چور “کون ہے۔فکر کی بات یہ ہے کہ قوم مزید “پٹواری یا یوتھیا “” بن کر ہی رہیں گے یا “”پاکستانی بن کر سوچیں گے؟؟؟؟ کیو نکہ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاست وہ حمام ہے جسمیں سب ننگے ہیں۔اسلئے قوم کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ابھی بھی وہ محض اپنے اپنے “”لیڈروں ” کو بچائیں گے یا “” پا کستا ن “” کو ؟؟؟ اس سے پہلے کے ہم تاریخ کا حصہ بن جا ئیں مورخ ہم پر قلم اُٹھائِں۔پاکستان کی ۲۲ کڑوڑ عوام کے پاس ابھی بھی وقت ہے ۔ کہ ہمیں شخصیات اور وطن میں سے کسی ایک کو چُننا ہوگا۔۔۔۔۔
(نوٹ=غیر سیاسی جائزہ)


شیئر کریں: