Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ……… روپیہ آگے آگے ……… ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

آج کل اخبارات میں ڈالر بے قا بو،ڈالر کی اڑان اور روپیہ 151والی خبریں بار بار آرہی ہیں خبر نگاروں کی تخلیقی صلا حیت خبر کو دلچسپ بنا دیتی ہے اور دلچسپ خبر لو گوں کی توجہ اپنی طرف متوجہ کر تی ہے ایسی خبروں سے عوام میں بے چینی پھیلتی ہے ما یو سی پیدا ہو تی ہے خبر کا ایک اور زاویہ بھی ہو سکتا ہے اگر ہم سر خی جمائیں کہ ”روپیہ آگے آگے اور ڈالر پیچھے پیچھے“ تو عوام میں خو شی کی لہر دوڑ جائیگی چلو ہم امریکہ سے آگے نہ سکے تو کیا ہو ا ہمارا روپیہ ڈالر سے آگے نکل گیا اور 150کی حد کو عبور کر گیا بہت جلد 200کی حد کو بھی عبور کر جائے گا تجزیہ نگار وں کا ایک گروہ جا پا ن اور انڈو نیشیا کی مثالیں دیکر کہتاہے کہ ڈالر کے مقا بلے میں روپے کی قدر میں کمی سے کوئی نقصان نہیں ہو گا ان تجزیہ نگا روں نے جا پا ن اور انڈو نیشیا کی ما رکیٹوں کا جا ئزہ نہیں لیا ان کی بین لاقوامی تجا رت ڈالر سے وابستہ نہیں ان کے در آمد ات اور برآمدات پر ڈالر کے نرخ سے کوئی اثر نہیں پڑ تا ایسے مما لک اور بھی ہیں ہم ان کی مثال دے کر اپنا جی نہیں بہلا سکتے ہماری پوری مار کیٹ ڈالر کے ریٹ پر انحصار کر تی ہے ڈالر کے مقا بلے میں روپیہ اگر ایک عدد کو عبور کرے 150روپے سے 151روپیہ ہو جا ئے تو ہم پر بیرونی قر ضوں کے بوجھ میں 100ارب یعنی ایک کھر ب کا اضا فہ ہو جا تا ہے افراط زر میں اسی حساب سے اضا فہ ہو جا تا ہے مار کیٹ میں قائد اعظم کی تصویر والے نوٹ اس طرح گر تے ہیں جس طرح پت جھڑ کے زر د پتے گر تے ہیں جو لائی 2008ء میں افراط زر کی شرح 2.3تھی ڈالر 60روپے کا تھا مئی 2019ء میں افراط زر کی شرح 9.2ہے ڈالر 151روپے کا ہو گیا ہے ڈالر کے مقا بلے میں ملکی کرنسی کی قیمت کم ہو نے سے معیشت کے حجم میں کمی آتی ہے ایک سال پہلے مئی 2018ء میں پا کستانی معیشت کا حجم 313بلین تھا ایک سال سے کم عر صے میں 280بلین رہ گیا ہے اس کا تعلق ملکی پیدا وار سے ہے اور اس حساب سے جی ڈی پی کے ساتھ ساتھ فی کس آمدنی کی شرح بھی گر تی ہے ایک سال پہلے ہمارے معا شی اہداف ایران اور تر کی کا پیچھا کر رہے تھے آج ہمارے معاشی اشارئیے ایتھو پیا اور میا نمر کے ساتھ موازنہ کرنے کے قا بل ہو ئے ہیں ہمارا سٹاک ایکسچینج تیزی سے گر رہا ہے ڈالر مہنگا ہو نے کی وجہ سے کر نٹ اکا ونٹ کا خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے تجارتی خسارہ میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ در آمدات مہنگی ہو رہی ہیں مثلا ً تیل کے مہنگا ہو نے سے بجلی سے ٹرانسپورٹ تک ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے لیموں اور ٹما ٹر کا بھاؤ بھی متا ثر ہو تا ہے 1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر مہنگا ئی لانے کا الزام لگنا شروع ہوا ایک سادہ لو ح دیہا تی اپنی پارٹی کی حکومت کا دفاع کر رہا تھا مخا لف پارٹی والے نے کہا ٹشو پیپر 20روپے کا ہو گیا سادہ لو ح دیہا تی نے غیر ت کا مظا ہرہ کرتے ہوئے جواب دیا اگر ٹشو پیپر 20روپے کا ہو گیا تو کیا ہو ا، ہم ٹشو پیپر نہیں لینگے باجرہ کی روٹی کھائینگے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ باجرہ کی روٹی بھی ڈالر کے بھا ؤ آرہی ہے ہم باجرہ کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے اخبارات میں ڈالر کے مہنگا ہونے کا رونا اسی لئے رویا جا تا ہے اخبارات کی سر خیوں میں ”ڈالر بے قابو“ کا ذکر اس لئے ہو تا ہے گو یا ہمارا میڈیا سنسنی پھیلا رہا ہے ہیجان پیدا کر رہا ہے حا لانکہ ڈالر کی مہنگا ئی کا دوسرا پہلو بھی ہے جو نظر آنے والے پہلو سے زیا دہ دلچسپ اور با عث فخر ہے ٹھیک 30سال پہلے مئی 1989ء میں دو افغا نی دوستوں کے ساتھ جلا ل آباد کے سفر پر جا نے کا مو قع ملا اُن کی گفتگو سن کر ہمارے منہ میں پا نی بھر آتا تھا باتوں باتوں میں وہ کہتے تھے کہ 8لاکھ کا کھانا کھا یا 2لاکھ 33ہزار کی ایک پیا لی چائے پی لی 80 لاکھ میں کپڑے خریدے 45لاکھ میں بوٹ خریدے ہم اُن کی دولت اور امارت کے قائل ہو نے والے تھے کہ جلا ل آباد پہنچ کر مارکیٹ سے واقفیت ہو گئی یہ افغا نی کرنسی تھی پاکستانی کرنسی کا ایک روپیہ 33ہزار افغانی کے برابر تھا اور ہمارا روپیہ کھلدار کہلا تاتھا اگر کھلداراسی طرح آگے کا سفر کر تا رہا تو ایک دن ہم بھی امیر ہو جائینگے مہنگائی نہیں ہو گی ہماری جیبیں بھاری ہو جائینگی 80لاکھ میں کپڑ ا اور 45لاکھ میں بوٹ خرید سکینگے آپ بھی چیزوں کو ہماری عینک لگا کر دیکھیں تو آپ کو ٹینشن نہیں ہو گی اُس وقت کا انتظار کریں جب آپ میں سے ہر ایک کھر ب پتی بن جائے گا پھر تنور سے 20روپے والی روٹی لینے کے لئے لکھ پتی لو گوں کی طرح 6لاکھ روپے ادا کرکے کندھے اچکا تے ہوئے گھر آئے گا اور شیخی بگھارے گا کہ دیکھو! 6لاکھ کی روٹی لیکر آیا ہو ں ڈالر بھی کیا یاد رکھے گا اور روپیہ بھی کیا کہے گا کہ کس سخی سے پالا پڑا ہے


شیئر کریں: