Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

موسمیاتی تبدیلی اور کچھ باتیں ………..شاہ عالم علیمی

شیئر کریں:

اہل خرد کے حلقوں میں طنز و مزاح سے بھر پور ایک لطیفہ بڑا مشہور ہے، جسے میرے جیسے لائق بھی سمجھ سکتے ہیں، کہ جب کوئی انسان یا دوسرا کوئی مخلوق بہت زیادہ زہین ہوجاتا ہے اور اس کی تہذیب انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ خود بخود تباہی پر اتر اتا ہے اج انسان بھی ازہان و تہذیب کے انتہا کو چھو رہا ہے اور جو کرنا باقی ہے وہ ہے اپنی تباہی___یہی وجہ ہے کہ خلائی مخلوق Aliens زمین پر ہم انسانوں کے پاس انے سے کتراتے ہیں۔

روئے زمین پر حضرت انسان نے اتنی ترقی کی ہے کہ اب مزید کوئی جگہ رہنے کے لیے باقی بچی ہے نہ استعمال کرنے کے لیے۔ کولمبس کے نئی دنیا کو دریافت کرنے سے پہلے دنیا کا آدھا حصہ ‘خالی’ پڑا تھا۔ انسان کا پہیہ ایجاد کرنے سے پہلے انسانی ابادی میں اتنی تیزی سے اضافہ نہیں ہورہا تھا۔ پچھلے دو سو سالوں میں زمین پر انسانی ابادی میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے جتنا پچھلے ڈھائی ہزار سال میں نہیں ہوا تھا۔ بے شک یہ ترقی ہے، لیکن اس ترقی کے ساتھ اب انسان کے پاس وسائل کی کمی ہوتی جارہی ہے اور مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف زمین ہمارے لیے چھوٹی ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف انسان نے اپنے ہاتھوں سے اس زمین کو موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، درجہ حرارت میں اضافہ، قطبین میں موجود برف کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریخ کٹائی، اور جانوروں کی نسل کشی جیسے تحائف سے نوازا ہے۔

ان سارے مسائل کا ایک حل تو یہ ہے کہ ہم سب یعنی ادم کی ساری اولاد یہاں زمین سے ہجرت کرکے پروکزیما بی پر پہنچ جائے جو کہ اج تک دریافت شدہ زمینوں میں سے ہماری مادر ارتھ سے بہت ملتی جلتی ہے، شاید کہ وہ ہمارا بوجھ برداشت کرسکے۔ لیکن مسلۂ یہ ہے کہ وہ جس گلیکسی میں موجود ہے وہاں تک کا فاصلہ چار اشاریہ سات نوری سال کا ہے؛ اگر ہم خلائی جہاز وائجر کی موجودہ رفتار یعنی گیارہ کلومیٹر فی سیکنڈ یا چھ سو ساٹھ کلو میٹر فی منٹ کی رفتار سے چلنے والے جہاز میں سوار ہوکر پروکزیما کی طرف چلنا شروع کرے تو وہاں پہنچنے تک ستر ہزار سال لگ جائیں گے۔ زمین پر ہماری موجودہ تہذیب کو شروع سے اج تک بمشکل سات سال گزر چکے ہیں ستر ہزار سال میں جانے کیا کیا ہوگا۔ حضرت انسان کی ایک ہزار نسلیں تو اس سفر کے دوران ہی پیدا ہوکر پروان چڑھ کر مر بھی جائیں گی، لہذا ہم اس سفر کو ملتوی کردیتے ہیں۔
دوسرا اپشن ہمارے پاس مریخ اور ہماری زمین کا اکلوتا چاند ہے، دونوں زمین سے قریب ہے لیکن مسلۂ یہ درپیش ہے کہ دونوں میں پانی ہے نہ آکسیجن، اج تک یک خلوی جاندار کا بھی کوئی ثبوت وہاں دونوں میں نہیں ملا، ابھی ہم نے اتنی بھی ترقی نہیں کی ہے کہ وہاں زندگی کے لیے اہم اجزا کا بندوبست کرسکے لہذا یہ اپشن بھی ممکن نہیں ہے۔

اب آتے ہم واپس کائنات کی واحد منفرد خوبصورت زندگی سے بھر پور سیارے یعنی اپنی زمین کی طرف۔ جیسا کہ ہم نے اوپر زکر کیا ہے کہ اج تک ماں زمین نے ہم انسانوں کو بڑی محبت اور بڑے پیار سے پال رکھا لیکن ہم ہی ہیں جنھوں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اربوں ٹن پلاسٹک سالانہ دریاؤں سمندروں میں ڈالا جاتا ہے، کروڑوں ٹن زہریلی گیسیں ہوا میں شامل کیا جاتا ہے جنگلات اور درختوں کی بے دریغ کٹائی عروج پر ہے، ایسے صورتحال میں زمین پر انسان کے مستقبل کے حوالے سے بڑے تشویشناک سوالات اٹھنا شروع ہوچکے ہیں۔ تمام بڑے ازہان ایک ہی بات دھرا رہے ہیں کہ زمین اور زمین پر موجود ہر زی جان کے لیے موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے بعد جوہری ہتھیار۔

لہذا اج زمین اور انسانیت کے لیے اس سب سے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ حلقے اپنی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان گریٹا تھنبرج ہے،ہم نے اس سے پہلے اپنے ایک مضمون میں گریتا تھنبرج Greta Thunberg کا زکر کیا تھا اور موسمیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینچ کے حوالے سے ان کی کوششوں اور جد و جہد کا بھی زکر کیا تھا۔ ایک بار پھر مختصراً ہم گریتا کی تعارف انھی الفاظ میں کرتے ہیں؛ گریتا تھنبرج سویڈن کی رہنے والی ہے، وہ اج موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے، بلکہ وہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کام کرنے والوں کی آواز بن گئی ہے۔

سولہ سال کی گریتا ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی پر کام کررہی ہیں۔ اگست 2018 میں گریتا نے سکول جانے کے بجائے سویڈش پارلیمنٹ کے باہر احتجاج پر بیٹھ گئی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ سویڈن کی حکومت موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے لیں اور اس پر کام شروع کردیں۔ گریتا کا یہ ‘سکول دھرنا’ موسمیاتی تبدیلی کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے کافی مشہور ہوا۔وہ سکول جانے کے بجائے سویڈش پارلیمنٹ کے باہر بیٹھ جاتی اور سویڈش راہنماوں سے مطالبہ کرتی کہ وہ کاربن کے زیادہ مقدار میں اخراج کی روک تھام کے لیے کوششیں تیز کردیں جس کی وجہ سے سویڈن میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے اور جنگلات میں آگ لگنے لگی ہے۔
گریتا سے متاثر ہوکر دنیا کے متعدد ممالک میں سکول کے طالب علم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے لیں اور اس پر کام شروع کردیں۔

گریتا کی ان کوششوں کو سراہتے ہوئے نوبیل پیس کمیٹی نے ان کو اس سال نوبیل پیس پرائز کے لیے نامزد کیا ہے اور ٹائم میگزین نے ان کو دنیا کی سو بااثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔ گریتا کی کال پر پندرہ مارچ 2019 میں دنیا بھر میں اسکول کے طلبا و طالبات کلائمٹ چینچ کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے سڑکوں پر نکل ائے، اور یہ سلسلہ جاری ہے، اج ہر جمعے کے دن دنیا بھر میں سٹوڈنٹس احجاجی ریلیاں نکالتے ہیں اور انٹرنیٹ پر #FridayForFuture کا ہیش ٹیگ چلاتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان جیسے ملک میں جو کہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے چند ممالک میں شامل ہے منسٹر فار کلائمٹ چینچ بارشوں کا سبب اپنے وزیر اعظم کی نیکی کو قرار دے رہی ہیں۔ محترمہ زرتاج گل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بارشیں اس لیے ہوئیں کیونکہ ملک کا وزیر اعظم نیک ہے۔ اب مشکل یہ پیدا ہوئی ہے کہ حالیہ بارشوں سے جو ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن گندم کی فصلیں تباہ ہوئیں اور سندھ میں ہزاروں ٹن ام کی پیداوار تباہ ہوئی ہے وہ کس کا نتیجہ ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کو سب سے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ نیکیوں خواہشات تعویز گنڈے پھونک جھاڑ کے بجائے اس میدان میں فوری اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سندھ حکومت نے ایک احسن کام پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگاکر کیا ہے۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کی انتظامیہ بھی خراج تحسین کی مستحق ہے جنھوں نے ہنزہ بھر میں ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کا اعلان کیا ہے اور پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد ہے جس کا اطلاق اس تحریر کو لکھتے وقت سے شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان بھر میں پلاسٹک کے استعمال کو ختم کرنے یا کم سے کم کرنے کی اشد ضرورت ہے، گلگت بلتستان کی حکومت کو خاص کردوسرے اضلاع کی انتظامیہ کو ہنزہ انتظامیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پلاسٹک خاص کر شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کرنا چاہئے۔ یہ اسی لیے بھی ضروری ہے چونکہ گلگت بلتستان اب سیاحت کا اہم مرکز بنتا جارہا ہے، وہاں پر کچرا گندگی پھیلنے کے امکانات پہلے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

غذر میں سماجی میدان میں کام کرنے والے الفا برینز کے کارکنوں کے مطابق پچھلے سال غذر کے اہم سیاحتی مراکز خاص کر شندور، شونجی، غذر خاص، پھنڈر اور خلتی کو ماحولیاتی آلودگی سب سے زیادہ پھیلی، ان کے مطابق سیاح خاص کر پاکستانی مقامی سیاح جو ان علاقوں میں سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں وہ اپنے پیچھے گندگی کچرے اور کوڑے کا ڈھیر لگا کر جاتے ہیں جس سے ماحول کو سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے۔ علاقے میں گندگی کا مستقل ڈھیر جمع ہوتا رہتا ہے جو کہ بدنمائی کے علاوہ ماحولیات کے لئے خطرہ ہے۔ ان کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئرز بڑی تیزی سے پگلتے ہیں جس سے ایک طرف تو پینے کے پانی کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے دوسری طرف دریاؤں کے بہاؤں میں اضافے کی وجہ سے دریاؤں کے کنارے موجود گھاس کے اہم اور تاریخی میدان سیلاب کی زد میں آکر تباہ ہورہے ہیں جن کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اخری اور اہم بات ایک بار پھر گلوبل وارمنگ کے حوالے سے طلبا و طالبات کی کرتے ہیں؛ اج اساتذہ سمیت طلبا و طالبات موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا اہم کردار نبھا سکتے ہیں، سکولوں کالجوں اور مدرسوں میں اس موضوع پر کام ہونا چاہئے
اج کے دور کے طالب علم کو اس حوالے سے بنیادی حقائق کا علم ہونا چاہئے جیسے کہ سیارہ زمین کائنات کا واحد سیارہ ہے جو زندگی کو سپورٹ کرتا ہے۔ باقی اج تک کسی سیارے میں زندگی کے اثار نہیں ملے۔مگر اج انسانوں کے ہاتھوں زمین کو موسمیاتی تبدیلی جیسے خطرناک چیلنچ کا سامنا ہے۔ زمین پر موجود ہر انسان کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی زندگی اس طرح گزاریں کہ اس چیلنچ کا مقابلہ کیا جاسکے؛ جہاں تک ہوسکتا ہے پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں،پانی کا غیر ضروری استعمال ہرگز نہ کریں، بجلی کا فالتو استعمال نہ کریں، ممکن ہوسکے تو سکول کالج یا افس کے لیے جاتے ہوئے زاتی موٹر گاڑی کے بجائے پپلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں، اپنے بچوں، شاگردوں اور قریبی لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اگاہ کریں، یہ بات یاد رکھیں کہ موسمیاتی تبدیلی جوہری ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک مسلۂ ہے یہ بات ۱۹۵۵ میں برٹرینڈ رسل اور آئین سٹائن نے اپنے ایک مشترکہ خط میں کہا تھا اور یہ بات اج بھی نوم چومسکی اور ہاکنگ جیسے سائنسدان/مفکر کررہے ہیں، جتنا ہوسکے درخت لگائیں اور درختوں کی حفاظت کریں، اپنی حکومت اور سیاسی راہنماوں پر اس حوالے دباو ڈالیں۔ ایک سنجیدہ اور مہذب معاشرے میں موسمیاتی تبدیلی قومی انتخابات کا اہم اور بنیادی موضوع ہونا چاہئے خاص کر پاکستان جیسا ملک جس کے بارے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ پانچ ممالک میں شامل ہے وہاں حکومتی اور قومی سطح پر اس موضوع پر گفتگو ہونا چاہئے۔
(یہ مضمون دو مہینے پہلے تحریر کی گئی تھی)


شیئر کریں: