Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھرتی پر بوجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرسیماآمان

شیئر کریں:

چینی کہاوت ہے کہ اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہوتو بجائے اسکو مچھلی دینے کے اسکو مچھلی پکڑنا سکھادو۔ چینی عوام کو تو اس بات کی سمجھ اَگئی۔لیکن پاکستانی عوام آج بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ ہماری ناکامیوں کی اصل وجہ کیا ہے۔یا ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے تو مجھے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہم نے اذل سے انسانوں کی عزت کی بجائے ”عہدوں“ کی عزت کی۔یہی وجہ ہے کہ ہم نسل در نسل محض ”ڈگریوں“ کے پیچھے خوار ہوتے رہے۔۔چند سال پہلے جہاں ڈگری نوکریوں کی بھی ضمانت تھی آج وہ بھی نہیں۔ہماری معاشرتی سوچ اور تعلیمی نظام نوجوانوں کو یہ تو باور کراتی ہے کہ ڈگری لینی ہے لیکن کاغذ کا یہ ٹکرا انھیں کیا دے گی یہ اب سوالیہ نشان بن چکاہے۔اب وقت آچکا ہے کہ ہم ایمانداری سے یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے یہ MA.M.Com,BA BS,MS,BBA. حتیٰ کہ میڈیکل اورانجنیئرئنگ کے مختلف شعبہ جات کے تمام ڈگری یافتہ نوجوان اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟؟؟ان میں سے بیشتر نوکریوں کے انتظار میں وقت برباد کر رہے ہیں۔۔سچ تو یہ ہے کہ یہ تما م ڈگری ہولڈرز بھی اس دھرتی پر اُسی طرح بوجھ ہیں جسطرح کے بے تعلیم یا ذہنی اور جسمانی مفلوج افراد۔۔

ہاں یہ تمام ڈگری یافتہ افراد جو اپنی ذہانت سے ملک کو ایک ماچس کی ڈبی جتنی پروڈکٹ بھی بنا کر نہیں دے سکتے۔جنھوں نے اپنی ساری ذہانت محض کاغذ کے حصول میں ضائع کردی۔اور بقیہ زندگی اس کاغذ (ڈگری) کو کیش کرانے میں ضائع کررہے ہیں،،سوچنے کی بات ہے یہ ملک کو کیا ”فائدہ“ دے رہے ہیں؟؟ہم ڈگری یافتہ اس دھرتی پر یقینا بوجھ ہیں جو اس ملک کو ایک روپے کا پروڈکٹ نہیں دے سکتے۔آج ہماری حکومت کے پاس نوجوانوں کے لئے روزگار نہیں تو بڑی سہولت سے اعلان کرتے ہیں کہ جی ”کاروبار کرلیں“یہ نوجوانوں کے ساتھ مذاق ہے۔کوئی ان حکمرانوں سے جاکر پوچھیں پاکستان کے لاکھوں سکولوں کالجوں میں کوئی ایک ایسا ادارہ تھا جس نے ان بچوں کو کاروباری وژن دیا ہو؟؟ 18 سال سکولوں کالجوں میں کیمسٹری کے فالتو فارمولے رٹنے والے۔مینڈک کے اپریشن پر وقت ضائع کرنے والے،پودوں پر ریسرچ کرنے والے یا الجبرے اسٹیٹس پر اپنا دماغ خراب کرنے والے نوجوان اب آکر انڈوں یا کپڑوں کا کاروبار کریں گے؟؟ یا وہ والدین جو اپنا سارا سرمایہ داو پر لگاکر بچوں کو میڈیکل یا انجنئرئنگ کی تعلیم دیتے رہے اب وہ بچوں کے کاروبار کے لئے بھی سرمایے لگائیں گے؟یہ عوام کے ساتھ کس قدر نا انصافی ہے۔

ایک بات جس کا مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ ہمارے سکولوں میں کلاس کے کم ازکم ۰۶بچوں میں سے محض ۳ یا ۴ بچے ذہین ہوتے ہیں جن کے بارے میں توقع ہوتی ہے کہ کچھ بن جائیں گے۔ اور اُن میں سے بھی بمشکل ۱یک یا دو لوگ کچھ اچیومنٹ کرلیتے ہیں۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے اُساتذہ محض ان دو لوگوں کی کامیابی کو لیکر نہال ہوتے رہتے ہیں۔کلاس کے اُن باقی بچوں کا مستقبل کیا ہوگا۔یہ نہیں سوچتے۔۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم پاکستانی قوم نصاب ِ تعلیم کا رونا روئیں یا نظام ِ تعلیم کا؟؟

کس قدر افسوس کا مُقام ہے کہ پورے ملک میں اس وقت لاکھوں سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی ادارے ہیں۔کروڑ کی تعداد میں اُساتذہ۔لیکچررز پروفیسرز پتہ نہیں کس کس نام سے معلم موجود ہیں۔لیکن کسی ایک سکول کے ایک معلم نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میرے کلاس کا ایک بچہ اگر (بڑا آدمی) بن جاتا ہے تو میرے باقی ۰۴،۰۷،۰۰۱،۰۰۰۱ طلبہ کا مستقبل کیا ہوگا؟؟کیسے کسی ایک اُستاد نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میرے سینکروں طلبہ کو جب سرکاری و غیرسرکاری نوکریاں نہیں ملیں گی تو ” ا ِن کا مُستقبل“ کیا ہوگا؟؟

میرا یہ سوال اُن تمام افراد سے ہے جو پچھلے 70 سالوں سے بلیک بورڈذ پر ”ا ب ت“ لکھ کر 80 ہزار سے ڈیرھ لاکھ کی ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں جن کی محض سالا نہ جی پی فنڈ ہی لاکھوں میں ہوتی ہے۔اُستاد کو تو روحانی والدین کہا گیا ہے یہ کیسے والدین ہیں جنھوں نے اک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ نوکریاں نہ ملنے پرانکے یہ طلبہ دو وقت کی روٹی کے لئے کن مُمالک میں جا کر جھاڑو لگانے پر مجبور ہونگے۔۔کیا طلبہ پر محض نصاب جھاڑنے کا نام ہی ”معلمی“ ہے؟؟؟؟افسوس کہ شائد ہمارے مُلک میں ”احساس“ نام کا بھی کوئی بل پاس ہونا چاہیے۔۔

میں اس مضموں کے ذریعے عوام سے گز ارش کرتی ہوں کہ حکومت سے فنی تعلیم کو بُنیادی تعلیم کا لاذمی حصہ بنانے کا پُر ذور مُطالبہ کریں۔لیکن دوسری طرف جس چیز کی وقت کو ضرورت ہو اُس کے لئے اس انتظار میں بیٹھنا کہ بل پاس ہوگا قانون بنے گا تب ہی کچھ کریں گے،یہ سوچ نہایت مُضحکہ خیز ہے۔عوام کو اپنی طرف سے بھی کچھ فرائض ادا کرنی چاہیے،گھروں سے لیکر کالجز میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے پر توجہ دی جائے۔سکول کالجز میں کم ازکم ایک پونہ گھنٹہ کی اضافی کلاسزز کا آغاز کیا جائے جس میں بچوں کو مختلف شارٹ کورسزز کروائیں جائیں۔اُنھیں ایسے ہنر سکھائے جائیں جنھیں کام میں لاکر کل کو وہ خود کو اس دھرتی پر بوجھ بننے سے بچاسکیں۔۔ اور سب سے اہم بات ہمیں کنویں کی مینڈک والی اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ محض اعلیٰ عہدہ یا اعلیٰ ڈگری ہی معاشرے میں عزت کا باعث ہیں۔۔خدارا عزت کا معیار شرافت اور انسانیت پر ہی رکھیں ڈگری اور عہدوں کی بنیاد پر نہیں۔اولاد کو تعلیم محض علم کی حصول کے لئے دیں تعصبانہ سوچ سے اسکے مستقبل کو مفلوج نہ بنائیں۔۔یاد رکھیں خالی ڈگریوں سے بے ذار قوم کا گلیوں میں اوارہ گردی،نشے کی لت میں پڑنے یا جرائم کی راہ میں نکلنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔
محنت کی عزت کریں بچوں میں خود داری کے جذبات پیدا کریں انھیں سیلف میڈ بنائیں بھکاری مت بنائیں۔گو کہ اج کل چند ایک پرائیوٹ ٹیکنکل کالجز کا آغاز ہوگیا ہے ورکشاپس بھی ہو رہے ہیں لیکن یہ نا کافی ہیں۔ہمیں ایسے ٹیکنکل اکیڈمیز چاہیے جہاں اول تو بچوں کو واقعی ٹیکنکل کرنے کی گارنٹی ہو۔دوم ان میں بچوں بچیوں دونوں کے لئے اعلیٰ سطح کے کورسزز کروائیں جائیں،بچیوں کو محض ٹیلرنگ یا لڑکوں کو محض ٹیکنشن پر محدود نہ کی جائے،وقت کی ضرورت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے مینجمنٹ مارکیٹنگ اور ہاسپٹلٹی کو شعبہ جات کو وسعت دی جائیں،اور آج کل جو فیمنزم کا بڑا شور اُ ٹھا ہے تو اُن خواتین کے لئے ہمارا یہ یہی کہنا ہے کہ فیمنزم محض سڑکوں پہ آنا سائیکلنگ یا نشہ کرنا ہی کیوں؟؟اگر گھر کی صفائی کپڑے و برتن دھونا کھانے پکانے جیسے کام مردوں میں بانٹے جاسکتے ہیں تو خواتیں بھی اُن تمام محنت مزدوری کے کاموں جنھیں آج تک مردوں کے لیے مخصوص کیا جاتا رہا اِن میں حصہ لیں۔

آئیں مزدوری کریں۔سیمنٹ کی بوریاں اُٹھائیں،بلک تیار کریں،رنگ سازی سیکھیں،بڑھئی کا کام سنبھالیں۔حقیقی معنوں میں فیمنزم کا حق ادا کریں. بحرحال آجکل ایک بات تو ثا بت ہو چکی ہے کہ ”’نیا پاکستان “ وجود میں آچُکا ہے۔اور اس موجودہ صورت حال سے ”تبدیلی اور نئے پاکستان“ کے خواہاں عوام اب تک تو خواب ِ خرگوش سے یقینا بیدار ہوچکی ہوگی۔۔

دوسری تمام امور ایک طرف رکھ کر اپنی تباہ شدہ معیشت کو قبول کرتے ہوئے عوام کو اس بات پر کم ازکم اکتفا کرنا ہوگا کہ اس نئے پاکستان میں بھی خوشحالی کے کوئی من سلو یٰ نہیں اُترنے والے ہیں،اب وقت اگیا ہے کہ مذید غیر ممالک سے بھیک مانگتے رہنے کے بجائے ہمیں جاپان،فن لینڈ ہنگری جیسے اُن ممالک کی پیروی کرنی ہوگی جنھوں نے ”ڈگری کے ذریعے نہیں بلکہ ”ہُنر“ کے ذریعے ترقی کی ہے۔۔ہاں اب وقت اگیا ہے کہ ہنر کے نام پر محض پکوڑے تلنے،ڈھابے کھولنے یا پنکچرز لگانے یا الماریوں میں ڈگریاں سجاکر سرکاری نوکریوں کے خواب دیکھنے والی قوم اب اپنی سوچ بدل لیں مُلکی معیشت کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔

ہمیں اُن ممالک کی پیروی کرنی چاہیے کہ جنھوں نے ڈگری کے زریعے نہیں بلکہ ہنر کے زریعے ترقی کی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
22243