Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سرُود ………..رحمتوں کا مہینہ……….. شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

ابن آدم پر اپنی رحمت کی بارش برسانے کے لیےخالق کائنات کی قدرت ہر لمحے سر گرم عمل رہتی ہے۔چاہے موسموں کے تغیرات ہوں یا مبارک ساعتیں،خوشگوار دن ہوں یا بابرکت راتیں،کسی نہ کسی ذریعے سے وہ اپنے بندوں کومالامال کرتا رہتا ہے۔ رمضان کا مہینہ برکتوں رحمتوں اور ثواب دارین کی لذتوں سے فیضیاب ہونے کاعمدہ موقع ہے،جس کا ہر لمحہ جہنم کی آگ سے رہائی کی نوید سناتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے،دوسروں کی مدد کرنے اور زبان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے تا کہ زمین و آسمان کے درمیان بکھری ہوئی رحمتوں سے اپنی جھولی کو بھر سکیں،خالق ارض وسما سے اپنا رشتہ نئے سرے سے استوارکر سکیں جو ہم نے اپنی غفلت کی وجہ سے کمزور کر دیا ہے۔ اگرچہ وہ ہم سے غافل نہیں ہے لیکن دنیا داری کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم نے اپنے اور رب کے درمیان دیوار اٹھائی ہے۔ ہمیں اللہ کی یاد اس وقت آتی ہے جب بیماری ہمیں دبوچ لیتی ہے یا کوئی بڑا کام سامنے آتا ہے، معاشی طور پر بے بس ہو جاتے ہیں یا کسی امتحان میں پھنس جاتے ہیں، یعنی اللہ کو یاد کرنا مذکورہ چیزوں کے ساتھ مشروط ہو کر رہ گیا ہے۔ہمارا ہاتھ دعا کے لیے اس وقت اٹھتا ہے جب ضرورت نوچنا شروع کر دیتی ہے۔بغیر حاجت کے بھی اس کے سامنے حاضری ضروری ہے۔بہت کم خوش نصیب بے لوث اور بے غرض حاضری دیتے ہیں۔ معاشرے میں جہاں کہیں برکت کے آثار پائے جاتے ہیں وہ انہی انفاس مقدسہ کےدم قدم سے ہے۔ ہم مانگتے وقت بے حدحساب مانگتے ہیں لیکن دینے کی باری آیے توپانچ یا دس روپے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بیشک دینے کی صفت اللہ کی ہے اور ان کی جھلک بندوں میں بھی رکھی گئی ہے ،جنہیں اپنانے سے قلب روح اور ضمیر کو عجیب قسم کا ہلکا پن محسوس ہوتا ہے۔ ان صفات کو اپنا کر اپنے دین ودنیا کو سنوارنے کے لیے رمضان کا پر نور مہینہ کسی نعمت سے کم نہیں ۔سارا دن بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کرنے سے دل میں ان معصوموں کی یاد بھی انگڑائی لینے لگتی ہے جنہیں دو وقت کی روٹی اور صاف پانی نصیب نہیں ہوتا۔ افطاری کے وقت ہر طرح کی نعمتیں سامنے دیکھ کروہ گھرانے بھی یاد رہنا چاہیے جہاں کئی دن سے چولہا نہ جلنے کی وجہ سے اللہ کا نادر شاہکار بھوک سے مرجھا رہا ہے اور زمانے کی بے رحمی کی وجہ سے جس کے ہونٹوں پر خاموش فریاد لرز رہی ہے، وہ اس دست غیب کا منتظر ہے جو چند نوالے کھلا کر اس کے وجود میں زندگی کی حرارت پیدا کر سکے۔ یہ ماہ مبارک نفس کو پاک کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔گویا پاکیزگی حاصل کرنے کی مہلت مل گئی ہے تاکہ ہم اپنی روح کی گندگی دور کر سکیں ۔جس کے لیے صرف منہ کا ہی روزہ نہ ہو بلکہ آنکھ ،کان خاص کر زبان کا روزہ اہم ہے جو ہر کسی کا نہیں ہوتا۔غلط کام ،غلط بات اور غلط نگاہ سے خود کو روکنا مقصود ہے۔اگر یہ عمل تیس دن تک تواتر سے ہوتا رہے تو ہماری کامیابی یقینی ہو گی اور ہم میں ضبط کا حوصلہ پیدا ہوگا وگرنہ یہ روزے بھوکا رہ کراپنی جان ہلکان کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اکثر لوگ روزوں کے دوران بڑے نیک اور عابد وذاہد بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جتنا ہو سکے اس مہینے ثواب کماو قرآن مجید کی تلاوت زوروشور سے کرو،نوافل پڑھو غریبوں کی مدد کرواور ہمسائوں کے حقوق کا خیال رکھو۔اور باقی مہینوں میں نمازوں کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر ،قرآن کو خوبصورت غلاف میں لپیٹ کراونچی جگہ رکھ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔گویا کہ باقی مہینوں میں ان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا داروں کا ذوق وشوق وقتی ابال ہے جو روزوں میں اپنا دیدار کرا کے غائب ہو جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس مہینے کے بعد ایک سال تک رحمت کے دروازے بند ہونے والے ہوں شاید ہم میں عقیدے سے زیادہ عقیدت موجود ہے۔بلا شبہ رمضان کی فضیلتیں بےشمار ہیں اللہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف کر کےانہیں پاک ہونے کا موقع دیتا ہےبشرط یہ کہ بندے بھی اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں۔۔۔رمضان کے آتے ہی منافع خوروں کی ٹولی اپنے مذمون مقاصد کی تکمیل میں لگ جاتی ہے۔اشیا خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں ۔دس روپے کی چیز پچاس میں بکنے لگتی ہےاور پچاس والی سو میں ۔کوئی پوچھنے والا نہیں،جس کا جو دل چا ھے اپنی من مانی کرتا ہے۔یہ لوگ چیزوں کی بھاری قیمت نہیں لیتے بلکہ اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں ۔شیطان قید میں بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے چیلے اپنے فرضِ منصبی کی ادائگی عمدگی سے کرتے ہیں۔اسلام میں عبادات سے زیادہ معاملات نازک ہوتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔قرآن مجید میں بھی معاملات پر زور دیا گیا ہے۔اس معاملے میں کوتاہی کرنے والوں کی عبادات بھی انہیں کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی۔حضرت علی کرم اللہ وجہ کے پاس ایک آدمی نے آکر دوسرے شخص کی تعریف کی کہ فلاں عبادات کا بہت پابند ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا تم یہ بتاو کہ وہ معاملات میں کیسا ہے ؟اگر معاملات میں کوتاہی برت رہا ہے تو اس کی عبادات اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔کیونکہ عبادات اور معاملات کے مجموعے کا نا م دین ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم دین اسلام کی تعلیمات سے غفلت برت کر گھاٹے کا سودا کریں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
22150