Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہنزہ اور غذر میں خیرات، مجھے اعتراض ہے!………عبدالکریم کریمی

Posted on
شیئر کریں:

کل سے سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات میں ہنزہ اور غذر کے حوالے سے کافی تصاویر وائر ہوئی ہیں جس میں سعودی شہزادہ سلمان کی طرف سے غریبوں کو بھیجی گئی خیرات کی تقسیم کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر دیا گیا ہے۔ زیر نظر تصویر اس بے غیرتی کی ایک جھلک ہے۔ مجھے ان تصاویر کو دیکھ کر شک ہوا کہ یہ واقعی ہنزہ کی تصاویر ہیں یا ہنزہ اور غذر کو بدنام کرنے کی ایک سازش۔۔۔۔۔۔ لائین میں خواتین کو بیٹھا کر ایک ایک تھیلا آٹا ان کے سامنے رکھ کر تصاویر کی شوٹنگ کرنا کہاں کا صدقہ اور خیرات ہے؟ یہ تو نیچ درجے کی ریاکاری ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’میں ریاکاری کی عبادت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

Hunza ramzan package distribution

مقامی اخبارات میں ہنزہ کے ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کی طرف سے خیرات کی تقسیم پر سعودی حکومت اور خصوصا شہزادہ سلمان کا شکریہ ادا کرنا جہاں ان تصاویر کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرتا ہے وہاں ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے مشکوک ہونے اور ایک خاص مقصد کے لیے ہنزہ اور غذر جو گلگت بلتستان میں ہر لحاظ سے باقی اضلاع کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، کو بدنام کرنے کی ایک سازش لگتی ہے۔ بہت ممکن ہے سعودی شہزادہ نے غریبیوں کے لیے رمضان کا تحفہ بھیجا ہو لیکن پہلی بات دیگر اضلاع اس خیرات اور صدقہ کے زیادہ مستحق تھے لیکن پھر بھی آپ کو ہنزہ اور غذر میں ہی یہ خیرات تقسیم کرنی تھی تو جناب اس حوالے سے ادارہ جات موجود ہیں آپ ان اضلاع کے مختلف مکاتب فکر کے ادارہ جات کے ذریعے یہ خیرات مستحقین تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک تھیلا آٹا کے لیے با عزت اور شریف گھرانوں کی خواتین کو لائن میں بٹھا کر فوٹو سیشن کروایا جائے اور اس کو سوشل میڈیا پر وائر بھی کریں۔ یہ انداز بتاتا ہے کہ اس خیرات کے پیچھے ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور کچھ مخصوص لوگوں کے مذموم مقاصد ہیں۔
خیرات دینا بہت اچھی بات کہ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں پوری زندگی دو بندوں کو تلاش کرنے پے بھی تلاش نہ کر سکا، ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر دیا اور غریب ہو گیا ہو، اور دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو۔

اسی طرح دیگر ادیانِ عالم میں بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے کسی نے سرگنگا رام سے پوچھا کہ آپ کو اپنے کاروبار کے اندر اتنی کامیابی کیسے ملی۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کچھ عرصہ پہلے میرا سارا کاروبار دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو میں نے کسی سے پارٹنرشپ کرلی اس کے بعد میرے سارے مسائل حل ہوگئے اور باقی آپ سب کے سامنے ہے۔ تو اُس شخص نے دوسرے حصہ دار کا نام پوچھا تو سر گنگارام نے کہا کہ بھگوان کے ساتھ حصہ داری کی۔ میں جو کماتا ہوں وہ آدھا میرا اور آدھا بھگوان کا۔

تمام مذاہب میں چندہ اور خیرات کا تصور ایک دم واضح ہے۔ امیر لوگ مختلف طریقوں سے غریب عوام کو چندہ دیتے آئے ہیں۔
مجھے بخدا! خیرات دینے پر اعتراض نہیں لیکن نیچ درجے کی ریاکاری کے اس انداز پر بہت اعتراض ہے جو ہنزہ اور غذر میں اپنائی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق صدقہ یا خیرات ایسا دیا جائے کہ ایک ہاتھ سے دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ لگ جائے۔ لیکن یہ کیا تماشا ہے کہ ایک تھیلا آٹا کی خیرات دے کر ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزت کو یوں سبوتاژ کریں۔ اس اجتماعی بے حسی پر ہنزہ و غذر کی سیاسی لیڈرشپ کو بھی ڈوب مرنے کی ضرورت ہے۔ اہالیانِ ہنزہ اور غذر کو بھی ڈوب مرنا چاہئیے کہ معمولی خیرات کے لیے اپنی ماؤں اور بہنوں کو یوں لائین میں کھڑا کرنے اور ان بے غیرتوں کو فوٹو سیشن کرنے کا موقع دینا بجائے خود ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
21925