Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماہ رمضان کی فضلیت اور اہمیت ………محمد آمین

Posted on
شیئر کریں:

ماہ رمضان کا مہینہ برکتوں اور فضیلتوں سے بھرا ہوتا ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں ٖقران مجید خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ پر نازل ہواتھا جو کہ بنی نوع انسان کے لیے قیامت تک ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ ماہ رمضان اس لیے نیہات اہمیت کا حامل ہے کہ اس مبارک مہینے میں اللہ تبارک تعالی نے مسلمانوں کو روزے رکھنے کا حکم دیا ہے نیز اس مہینے میں قران حکیم کا نزول ہواتھا۔

روزے کے مقاصد اور مقام:
روزہ عربی زبان کے لفظ صوم سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے رکنا۔روزہ مسلمانوں پر دو ہجری میں فرض ہوتھا جیسا کہ قران پاک میں ارشاد باری تعالی ہے،

،،اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے امت پر فرض کیا گیا تھا تا کہ تم پر ہیز گار بنو (سورہ بقرہ ۳۸۱)
ماہ رمضان میں روزے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم جز ہے اور ہر مسلمان پر روزہ فرض کر دیا گیاہے تاکہ انساں میں تقوی پیدا ہو اور انسان ہمیشہ اللہ پاک کی رضا اور خوشنودی کی حصول میں مصروف رہے۔جب پورے مہینے تک ایک ادمی گناہوں سے اجتناب کرتا ہے اور صبرو استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے تو ایسے ادمی میں تحمل،بربادی اور خوف خدا پیدا ہوتا ہے اس لیے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان کو شہرالصبر یعنی صبر کا مہینہ قرار دیاہے۔تقوی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ انسان باقیماندہ گیارہ مہینہ گناہوں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتاہے۔

روزے سے انسان کے شعور میں اللہ تعالی کی حاکیمیت کااقرار اور اعتراف مستحکم ہوتا ہے،یہاں تک کہ وہ احکام الہی کے سامنے اپنی آزادی اور خود مختاری سے دست بردار رہتاہے۔روزے کا وجوب انسانی تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے اگر چہ مختلیف ادیان میں تقاضون کے بدلنے سے شریعتین بدلتی رہی ہیں لیکن جو بات انسانی فطرت کے تقاضوں سے مربوط ہو وہ نیہں بدلتی۔اسی وجہ سے روزہ تمام شریعتوں پر نافذ رہا۔

روزے اطاعت امر کے فضاء کو خوشگوار بناتا ہے احساس بندگی کے علاوہ روزے کے زیر اٖثر انسان میں اطاعت امر کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس ہستی کی بندگی اختیار کی جارہی ہے اس کا حکم بھی ماناجائے ذات خداوندی کے اعتراف کے ساتھ ہی اس کی اطاعت بھی لازم ہو جاتی ہے۔روزے سے اللہ کی اطاعت کا جذبہ اس طرح پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک ادمی تیس دن تک روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے تک اسی تصور میں رہتاہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور اس کے احکام کا پیروکارہے روزے کی اصل روح یہی ہے کہ ادمی پر ہر اسی حالت میں اللہ پاک کی امر اطاعت کا احساس رہتاہے۔
روزے کا ایک اہم مقصد تعمیر سیرت ہے اور اس سیرت کی بنیاد تقوی ہے روزے کا مطلب انسان میں فسق و فجور کے رجحانات کا خاتمہ کرکے تقوی کا پرورش ہے جب ایک انسان پورے ماہ رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر بیہودہ اور فضول باتوں سے گریز کرتاہے تو اسے انسان کی کردار سازی اور فرض شناسی میں مدد ملتاہے۔روزہ انسان میں صبرو استقامت،تحمل،یکسوئی،اور دنیائی خواشات سے مقابلے کی قوت آجاتی ہے جس سے وہ رضائے الہی کے بلند نصب العین کو حاصل کرتاہے اور اس کی خاطر ایک ایسے کام کرتاہے جس کا ثمر مرنے کے بعد دوسری ذندگی میں اسے ملتاہے۔
روزہ انسان کی تین طاقتور خواہشوں پر قابو پالنیے کی ٹریننگ ہے جس کے نتیجے میں نفس ضبط کی خوبی پیدا ہوتی ہے کھانے پینے کی خواہش،جنسی خواہش اور ٓارام کی ضرورت ہی دراصل حیوانی ذندگی میں خواہشات کا منبع اور اور محرک ہیں اور یہی مطالبات انسانی ذندگی کے بھی ہیں لیکن اگر ان خواہشات کو بے لگام ہونے دیا تو انسانی ذندگی کی نشونما صیح معنوں میں نیہں ہو سکتی بلکہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نیہں رہ سکتا۔اعلی انسانیت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے نفس امرہ پر قابو پالیں اور دنیاوی لالچ اور حرص سے دور رہیں۔اور اس سلسلے میں روزہ ایک بنیادی درسگاہ ہے۔
روزہ اگرچہ نماز کی طرح ایک انفرادی فعل ہے لیکن جس طرح نماز کے ساتھ جماعت کی شرط لگاکر اس کو انفرادی سے اجتماعی عمل میں تبدیل کردیا گیاہے ٹھیک اس طرح روزے کو بھی ایک خاص انداز سے اجتماعی عمل بنادی گئی ہے مثلا ایک ہی مہینے میں روزے کا حکم دینا تا کہ پورے امت مسلمہ اسی ایک ہی مہینے میں روزے رکھ لیں تاکہ اسے امت میں اتفاق و اتحاد بین المسلمین کا جذبہ اجاگر ہو جائیں۔ماہ رمضان میں روزہ رکھنے سے جو اجتماعی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ پورے معاشرے میں تقوی کی ایک مخصوص فضاء پیدا ہو جاتی ہے رمضان کا مہینہ گویا خیرو سگالی اور تقوی و طہارت کا موسم بہار ہے اس میں برائیاں دب جاتی ہیں اور پورے معاشرے پر خوف و خدا اور نیکی کی روح چھا جاتی ہے اور ہر طرح پرہیز گاری کی ماحول پیدا ہو جاتی ہے۔جیسا کہ حدیث نبوی ْﷺ ہے

؛جب ماہ رمضان اتاہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دورزخ کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین بند دیے جاتے ہیں،،
ماہ رمضان میں مسلمانوں میں آخوت و مساوات کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے جب ایک امیر ادمی روزے کے دوران بھوک اور پیاس سے رہتا ہے تو اس سے دوسروں کی غریبی اور بے کسی کا شدت سے احساس ہوتاہے اور یہی احساس اس میں دوسروں کی مدد کا جذبہ پیدا کرتاہے۔تاکہ اس سے پتہ چلتاہے کہ خالی پیٹ ذندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔روزے کی اجتماعی عبادت ایک قسم کی عملی مساوات پیدا کر دیتی ہے اور وقتی طور پر سہی تمام لوگوں کو ایک ہی سطح پر لا کھڑا کر دیتی ہے اگر چہ امیر امیر ہوتا ہے لیکن وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے غریب کی سطح پر ہوتا ہے روزے سے جو کیفیت ایک غریب پہ طاری ہوتی ہے ایک امیر بھی اسے پوری محسوس کردیتی ہے لھذا اس کے اندر ہمدردی اور غریبوں کے ساتھ مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہواتھا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے

ِِ،،بیشک ہم نے اس سے (قرآن پاک) کو شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جا نیں کہ شب قدر کیاہے ۔شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس میں فرشتے اور جبریل خدا کے حکم سے تمام اُمور کو لے کر نازل ہوتے ہیں۔یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے
(سورۃ القدر)،،۔

۔۔رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو لوگون کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہیں جو ہدایت اور (حق و باطل)کا امتیاز کرنے والے ہیں۔لہذا تم میں سے جو شحص اس مہینے کو پائے وہ روزے رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کریں۔اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نیہں چاہتا ہے اور وہ چا ہتاہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازاہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شاید تم شکر گزار بن جاو (سورہ بقرہ ۵۸۱)

جوں جوں انسان کا اپنے اور کاینات کے بارے میں معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا روزے کے فوائد اُن پر زیادہ سے زیادہ عیان ہوتے ریہں گے جیسا کہ پہلے کے نسبت آ ج کا انسان روزے کے طبعی،نفسیاتی اور دیگر فوائد کو بہتر سمجھ سکتاہے کہ روزے میں قوت ارادی کی تربیت،صبرو تحمل کی مشق،ایثارو قربانی کا درس ہے اور روزہ خلوص و محبت کا نمونہ ہے جیسا کی امام جعفر الصادق سے روایت ہے اللہ تعالی فرماتاہے روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔

.محمد آمین گرم چشمہ:


شیئر کریں: