Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سرُود ………… مزدور ………… شہزادی کوثر

Posted on
شیئر کریں:

ساری عمر بجری،ریت اور گارے سے دوستی نبھاتے نبھاتے اس کے ہاتھ پیرپرانے درخت کے تنے جیسے ہو گئے ہیں کھردرے اور بے رونق۔ جن میں محبت کی لمس نسوں میں تو ابل رہی ہے لیکن اس کی حدت کھردرے پن میں کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ لرزتے ہوئے ہاتھوں میں اب وہ طاقت نہیں رہی کہ گارے کو اچھے طریقے سے سانچے میں ڈال کر اینٹیں بنا سکے اور نہ ہی وہ نفاست رہی کہ لپائی عمدگی سے ممکن ہو، لیکن تنگد ستی فاقوں کی سرحد چھونے لگی تو لوگوں کے سامنے اپنی خدمات پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا تاکہ عمر بھر کی سفید پوشی کا بھرم نہ ٹوٹے۔ زندگی بھر دوسروں کے گھروں کی تعمیر میں حصہ لیا لیکن اپنے گھر کا خواب ایسا خواب ہی رہا جس کی تعبیر نہیں ہوا کرتی۔ اس نے انتہائی صبر و شکر اور ضبط سے مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی خود داری پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ پرانے اور بوسیدہ کپڑوں میں زندگی گزاری،لیکن اپنے بیٹے کی ہر ضرورت پوری کی کیونکہ اس کے خوابوں کی تعبیر اور تمناؤں کا حصول بیٹے کی کامیابی میں پوشیدہ ہے۔ آرام کرنے کی عمر میں اس کے کندھوں پر گھرداری کا بوجھ لدا ہے۔سارا دن تپتی دھوپ اور گرد وغبار سے اٹے ماحول میں کام کرتے کرتے اسے اپنا جسم ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے ،لیکن دیہاڑی ملنے کی امید اس میں حوصلہ پیدا کرتی، کبھی کبھی تو اسے لگتا کہ رات کبھی نہ گزرے اور اس کا ٹوٹتا وجود اپنی پوری تھکن اتار دے
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں ،ہمارے ملک میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں جو سارا دن آگ برساتے سورج کے نیچے اپنے کتنے ارمانوں کو دفن کرتے ہیں۔ دوسروں کے محلات تعمیر کرنے والے یہ عظیم لوگ خود چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنی جنت بسا لیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو دولت مند بھی جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہو جاتے۔ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھنا دولت مندوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتا کیونکہ یہ سماج میں ڈبکی لگانا نہیں جانتےاور سطح پر تیرنے والوں کے ہاتھ کبھی موتی نہیں لگا کرتا۔ ۔ کسی بھی معاشرے کا سب سے اہم اور کار آمد طبقہ مزدور طبقہ ہے،بد قسمتی سے اسے کوئی اہمیت نہیں ملتی،ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم اجرت پر انہیں کام پہ راضی کیا جائے،حالانکہ ملازمت پیشہ افراد میں ایسے لوگوںکی بھر مار ہے جو صرف ایک دستخط کرنے کے لیے مہینے میں لاکھوں کماتے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچیں کہ انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے یہ ان کا حق بنتا ہے تو جواب یہی ہو گا کیا مزدور نے یہ مہارت مفت میں حاصل کی ہو گی؟ اپنے خوابوں کو ریت اور سمنٹ میں گھول کر دوسروں کے لیے محلات تعمیر کرنے والوں کا سودا سستا نہیں ہوتا ۔زندگی بھر مشقت کی بھٹی میں تپنے کے باوجود غریب ہی رہتے ہین اور دولت امیر کی تجوری میں بھر جاتا ہے آج بھی سپرا اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
اسلام میں مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دینے کا حکم ہے۔اس حکم کے ساتھ انہیں عزت کا درجہ بھی ملنا چاہیے۔ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا رتبہ اس طبقہ کو حاصل ہے۔جو افرادی قوت کے طور پرملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔یکم مئی پوری دنیا میں یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کی چھٹی ہوتی ہے لیکن جنکا دن منایا جا رہا ہوتا ہے وہ کبھی چھٹی نہیں کر سکتا۔کیونکہ وہ انسان تصور ہی نہیں ہوتا وہ مشین کی طرح کام کرنے پر مجبور ہے۔ اسے بیمار پڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ وہ آرام نہیں کر سکتا کیونکہ آرام کرنے کے لیے تعلیم یافتہ افراد اور سرکاری ملازمین وافر مقدار میں موجود ہیں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
21684