Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کتاب بینی اور انسان ……………..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

(World Book and Copyright Day)
(23اپریل عالمی یوم الکتاب کے حوالے سے خصوصی تحریر)

حضرت انسان اور کتاب کا رشتہ بہت قدیم ہے، اولین معلمین انسانیت،انبیاء علیھم السلام ،نے آسمانی ہدایت کو کتب و صحاءف کے ذریعے ہی انسانوں میں متعارف کرایا اور جب ان مقدس ہستیوں نے اس دنیاسے پردہ فرمایاتواپنے ترکے میں مال و زر اورجاہ و جلال و جائداوسلطنت واقتدارکی بجائے علوم کتب کا ترکہ چھوڑ کر گئے ۔ ایک حدیث نبویﷺکے مطابق کم و بیش تین سو تیرہ کتب آسمان سے نازل کی گئیں جن میں چار کا ذکر بصراحت قرآن مجید میں موجود ہے جب کہ اس دنیا میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کے پاس حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب ایک کتاب موجود ہے جن کا شمار انسانیت کے قدیم ترین اوراولین انبیاء علیھم السلام میں ہوتاہے ۔ کتاب ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کی شناخت رہی ہے اور طالب علم کے لیے کتاب ایک زیور کی حیثیت رکھتی ہے،تنہائی کی بہترین ساتھی ہے اورپریشانی میں مسائل کامداواپیش کرتی ہے ۔ انسانیت کا سب سے پہلا استاد،خالق کائنات،ا;203;تعالی کو کتاب سے نسبت اس حد تک پسند ہے کہ اس نے اپنے نبیوں کے ماننے والوں کو اہل کتاب کے نام سے یادکیاہے خواہ وہ یہودی ہوں ،مسیحی ہوں یامسلمان ہوں اور یہ اس لیے کہ اس نے آسمان سے ہدایت کے سامان کے طور پر کتب کے نزول کو پسند فرمایا ۔ کتاب کا لفظ ذہن میں آتے ہی صفحات کی ایک مجلدشکل ذہن میں ابھرتی ہے لیکن ایک زمانے میں پتھرپر لکھی ہوئی کتب دستیاب ہواکرتی تھیں اور ظاہر ہے ان کی تدوین،حفاظت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال نہایت ہی ایک دقت طلب امرتھالیکن اس کے باوجود انبیاء علیھم السلام اور انکے مقدس پیروکاروں نے اپنی کتب کو اگلی نسلوں تک خوب خوب پہنچایا ۔

ا;203;تعالی نے قلم کا استعمال سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام کو سکھایاتھاجس کے بعد سے قبیلہ بنی نوع انسان میں کتابت کے عمل کا آغازہوا ۔ انسانی ذراءع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق انسان کا اولین فن تحریر تصویری نوعیت کاتھا اور انسان نے اپنے جذبات اوراحساسات کے اظہار کے لیے تصاویرکے وسیلے کواپنایا،آہستہ آہستہ زبان سے نکلے گئے الفاظ کو پتھروں پر ایک خاص شکل دی جانے لگی لیکن چونکہ پتھرپر نقوش کامرتب کرنا اپنی کمیت ،حجم اور وزن کے اعتبارسے ایک مشکل امرتھا اس لیے بہت جلدانسان نے اس مقصد کے لیے لکڑی کا استعمال شروع کردیاجواگرچہ پتھرکی نسبت آسان تر مراحل کی حامل تھی لیکن اپنی مدت حیات میں کسی طور بھی پتھرکامقابلہ کرنے سے قاصرتھی اوربوجوہ بہت جلداپنے انجام تک پہنچ جاتی تھی ۔ تب انسان نے مٹی کی بنی ہوئی تختیاں استعمال کرناشروع کیں جوکہ قبل از تاریخ کے ’’موسپوطینی ‘‘دورسے کم و بیش ساتویں صدی قبل مسیح تک بکثرت استعمال ہوتی رہیں ۔ ایک تکوناہتھیارکے ذریعے مٹی کی تختیوں پر حروف کندہ کیے جاتے تھے اورپھران تختیوں کوآگ کی بھٹی میں خوب پکایاجاتاتھاجس سے وہ ایک زمانے تک ناقابل تسخیردستاویزکی شکل اختیار لیتی تھیں ۔ ’’نینوا‘‘جواپنے وقت میں دنیاکاسب سے بڑا شہرتھا اورجوعراق کی قدیم تہذیب بھی سمجھی جاتی ہے 612ق م کی بنی ہوئی بائس ہزار تختیاں یہاں سے ملی ہیں جن پر اس زمانے کی تحریریں نقش ہیں ۔ جرمنی،چلی اور افریقہ کے صحرا اعظم ’’صحارا‘‘ میں مٹی کی تختیاں انیسویں صدی کے آخر تک بھی لکھی جاتی رہیں ۔

قدیم مصر کی تہذیب تدوین کتب میں بہت عمدہ اور ترقی یافتہ تھی،وہ لوگ ایک خاص قسم کے درخت ’’نرسل‘‘(papyrus )کی شاخوں سے کسی طرح کامحلول کشید کرتے تھے جو سیاہی یاروشنائی کاکام دیتاتھا اور پھر پرندوں کے پروں کوایک خاص انداز سے کاٹ کر ان سے قلم کاکام لیتے تھے ۔ اسی طرح درخت کے پتوں کوایک خاص اندازسے تیارکرکے تواس پر مقدس کتب کے احکامات یا بادشاہوں کے فرامین نقل کر لیاکرتے تھے ۔ پیپرس کے درخت کی بنی کتابوں کے ورق ایک دوسرے پررکھ کرانہیں اکٹھاکرکے گول گول موڑ لیاجاتاتھا اور بعض اوقات ان کی لمبائی دس میٹر سے بھی زائدہو جاتی تھی ۔ اس طرح کی کتب فراعین مصرکے اہراموں سے ملی ہے،رامسیس سوئم کی لکھی گئی تاریخ چالیس میٹر طویل کتاب پر لکھی گئی ہے،ایک ایک صفحے پرکئی کئی کالم بنائے ئے ہیں اور کتاب کے اوراق کو بڑی نفاست سے محفوظ کیاگیاہے ۔ کھال اور ہڈیوں پر لکھنے کا آغازقدیم چین کی تہذیب سے ہوا اور انسانی وسائل بتاتے ہیں کہ تاریخ میں سب سے پہلے کاغذکی ایجادچین کے اندر پہلی صدی عیسوی میں ہی ہو چکی تھی ۔ اگرچہ یہ کاغذ ابتدائی طرزکے گتے کی مانند تھا تاہم کتاب کی تاریخ میں ایک عہدساز پیش رفت تھی جس کا سہرا چینیوں کے سر جاتاہے ۔ ابتدائی کے طرز کے اس کاغذپر برش نما کسی قلم سے جس کی دم میں بہت سے بال ہوتے تھے،لکھاجاتاتھے ۔ چینیوں کی اس میدان میں ایک اور اہم اور نمایاں کامیابی طباعت کاعمل ہے جس کا آغاز بھی چینیوں کے ہاں سے ہوا اور ابتدائی طور پر طبع کی ہوئی کتب میں بدھ مت کے احکامات لکھے گئے ۔

امت مسلمہ کی تاسیس نوسے کتب نویسی کے گھوڑے کوگویا ایک ایڑھ سی لگ گئی ۔ مکی دور میں جب پڑھنالکھنا ایک اضافی اور بے فائدہ امرسمجھاجاتاتھامحسن انسانیت ﷺ نے لکڑی پر،اونٹ کے شانے کی ہڈی پر،کھال پر،ابتدائی طرز کے گتے پر،بوسیدہ کپڑوں پر،پتھروں پر اور کھجورکی چھال پر قرآن مجید کی کتابت کا اہتمام کیا ۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی ا;203;تعالی عنہ نے قرآن مجید کی سات نقول تیارکروائیں جن میں ایک نسخہ آج بھی مصحف عثمانی کے نام سے ترکی میں موجود ہے ۔ کتابت حدیث کے زمانے میں اور اس کے بعد تو مسلمانوں نے گویا کتاب کی ایک عظیم الشان تاریخی تہذیب کو جنم دیا اورایک ہزاسالوں تک اس کی پرورش کی ۔ خاص طورپراندلس میں کتب خانے عموماًً دوقسم کے ہوتے تھے،اےک خاص اور دوسرے عام،خلفا،امرا،علما اور اہل ثروت کی طرف سے عام قسم کے کتب خانے قائم کیے جاتے،ان کےلیے مستقل اور پختہ عمارتیں ہوتےں اور بعض اوقات یہ بڑی مساجد اور مدارس سے ملحق ہوتے ۔ شاہی کتب خانے،درس گاہی کتب خانے،ذاتی کتب خانے اور عوامی کتب خانے،کتب خانوں کی مزےد اقسام تھیں ،شہر غرناطہ میں صرف عوامی کتب خانوں کی تعداد ساٹھ ےا ستر تھی اور قرطبہ میں بھی ستر لائبرےریاں تھیں نیز ہر بڑے شہر میں کم از کم اےک بڑا کتب خانہ ضرور ہوتا تھا جس کی المارےاں بلا تخصےص و بلا امتیاز ہر شخص کےلیے کھلی رہتی تھیں اور ہر کتب خانے میں فہرست کتب بھی مہےا رہتی ۔ ان کتب خانوں کے مالک روسا ہوتے جو خود تو عالم نہ تھے لیکن اپنے قائم کیے ہوئے کتب خانوں پر باہم فخر کرتے تھے،حتی کہ غےر مسلموں کے بھی کتب خانے ہوا کرتے تھے ۔ کتب خانے کا قےام رےاست کی شان سمجھا جاتا تھا،چنانچہ ہر بڑ ے شہر میں کم از کم اےک سرکاری کتب خانہ ضرور تھا،اسی سرکاری سرپرستی کا نتےجہ تھا کہ ہر ہر گھر میں بھی عورتوں مردوں کے ذاتی کتب خانے قائم ہو گئے تھے،یہ کتب خانے ان کتب سے بھرے رہتے جو پچھلے زمانے کے علمائے ےونان سے اور فلاسفہ اسکندرےہ کی کتب سے انہوں نے نقل و ترجمہ کی تھیں ۔

اسلامی ادوار میں کتب خانوں کی الگ اور مستقل عمارتیں ہوتیں ،جن میں متعدد کمرے ہوتے ، کمروں کے درمیان بڑے بڑے ہال ہوتے جو ;200;پس میں ملے ہوتے‘کتابیں دےواروں پر لگے کارنسوں پر چنی جاتےں ،ہر کمرہ علم کے خاص شعبے کےلیے مخصوص ہوتا،مطالعہ کرنے والوں اور کاتبوں کےلیے الگ الگ کمرے ہوتے،بعض کتب خانوں میں اےک کمرہ موسےقی کےلیے مخصوص ہوتا جہاں ذہنی تھکاوٹ دور کی جاتی،بعض کمروں میں قالین بچھے رہتے اور بعض میں بہترےن فرنیچر اور باہر سے ;200;نے والوں کےلیے قےام و طعام کا عمدہ انتظام ہوتا،بعض کمروں میں علمی مباحثے ہوتے،اس دوران طلبہ نوٹس لیتے اور انہیں کاغذ و قلم مفت فراہم کےا جاتا ۔ مہتمم کتب خانے کا عہدہ قصر شاہی میں سب سے بڑا عہدہ تصور کےا جاتا،جس پر کسی خاص ;200;دمی کو تعےنات کیا جاتا جو کتب خانے میں کتابیں تےار کرانے،جمع کرنے اور انکی محافظت کا ذمہ دار ہوتا ۔ لائبرےری کو ُ ُخزانۃ الکتب‘‘ کہتے تھے جس کا ڈائرکٹر ُ ُ وکیل ‘‘ کہلاتا تھا،اسکی معاونت کےلیے ُ ُخازن‘‘ ہوتا ،ان کے ساتھ اےک انسپکٹر ہوتا جسے ُ ُ مشرف‘‘ کہا جاتا،مشرف نچلے عملے کا نگران ہوتا ۔ صوبائی دارالحکومتوں میں قائم صوبائی کتب خانوں کے مہتمم اعلی گھرانوں کے افراد ہوتے اور شاہی کتب خانے کا انچارج عموماًً شاہی خاندان کا فرد ہوتا،اندلس میں عبدالعزیز بن عبدالرحمن ثالث جو امیرالمومنین حکم ثانی کا بھائی تھا اس عہدہ پر فائز رہا ۔

عام لائبرےرےوں میں موجود ملازمین کے بڑے افسر کو ُ ُ خازن مکتبہ‘‘ کہا جاتا،اس عہدے پر وقت کے مشہور علما میں سے کسی کو متعےن کیا جاتا،کچھ افراد مطالعہ کرنے والوں کو فراہمی کتب پر متعین ہوتے انہیں ُ ُ متناول‘‘ کہا جاتا،کچھ لوگ دےگر زبانوں سے تراجم کا کام کرتے،وراق اور نقل نوےس مختصر وقت میں کتب کی نقول تےار کرتے اور جلد ساز ان کی پختہ اور مضبوط جلد بندی کرتے ۔ ہر چھوٹے بڑے کتب خانے کے باہراےک فہرست ;200;وےزاں ہوتی جس کی مدد سے مطالعہ کنندگان کتب خانے سے استفادہ کرتے،الماری کے ہر خانے کے باہر، اندر کی موجود کتب کے نام لکھے لٹکتے رہتے اس فہرست میں ےہ تفصیل بھی درج ہوتی کہ کونسی کتاب مکمل ہے اور کس کتاب کا کتنا حصہ غائب ہے،ےہ فہرست مختلف علوم کے لحاط سے مرتب کی گئی ہوتی ۔ مطالعہ کی خاطر استعارہ کتب کا رواج بھی تھا،عام لوگ ضمانت پر کتب لے جاتے لیکن علما کو بغےر

ضمانت کے بھی کتابےں مل جاتےں ،اور بعض اوقات کچھ علما تو اےک اےک سو کی تعداد تک کتب کا اجرا کروا لےتے تھے ۔ کتاب لینے والے سے پرزور درخواست کی جاتی کہ;58;

ا ۔ کتاب کو حفاظت سے رکھے ۔

۲ ۔ مالک کی اجازت کے بغےر اصلاح نہ کرے ۔

۳ ۔ حاشےہ پر کچھ نہ لکھے،کتاب کے اول و ;200;خر تمام اوراق سادہ رہیں ۔

۴ ۔ مالک کی اجازت کے بغےر خلاصہ تحرےر نہ کیا جائے ۔

۵ ۔ کتاب مزےد مستعار نہ دی جا سکتی تھی ۔

۶ ۔ مالک کے تقاضے پر فوراًً واپس کر دی جاتی ۔

۷ ۔ کتاب کے الفاط مٹائے نہ جاتے اورکتاب خراب نہ کی جاتی ۔

اکثر کتابیں مطلا و مذھب ہوتےں ، قےمتی کتب کی جلدےں خوشبودار لکڑی اور پھول دار چمڑے سے باندھی جاتےں ،بعض پر سونا بھی چڑھا ہوتا،اکثر کتب خانوں میں کتابوں کے صندوق عود و عنبر،;200;بنوس اور صندل سے بنے ہوتے ۔ کتب خانوں کے لحاظ سے قرطبہ کو سب شہروں پر برتری حاصل تھی،دنےا کے کسی شہر میں اس قدر علمی کتب موجود نہ تھیں جتنی کہ قرطبہ میں ۔ اشبیلیہ میں جب کوئی عالم فوت ہو جاتا تو اسکی کتب بکنے کےلیے قرطبہ لائی جاتےں ،ےہاں کے امرا کتب خانوں کے قےام پر باہم فخوررہتے،اندلس کے اےک وزےر ابو جعفر احمد بن عباس نے کئی لاکھ کتب جمع کی تھےں ،طلےطلہ کے اےک فرد ابراہےم بن محمد کا بہت بڑا کتب خانہ تھا،قرطبہ کے ہی اےک باسی احمد بن محمد المعافری جنکی کنیت ابو عمر تھی کے پاس اےک بہت بڑا ذخےرہ کتب موجودتھا ، اشبیلیہ،غرناطہ،مرسےہ اور طلیطلہ میں بہت بڑے بڑے کتب خانے موجود تھے اور غرناطہ میں تو کتب خانوں کی تعداد ستر تک بھی بتائی جاتی ہے ،پس مسلمانوں کی اسلامی تہذےب دراصل ’’کتاب‘‘ کی تہذےب تھی ۔

اندلس کا امیرالمومنین حکم ثانی علوم کا جامع تھا اور ان سے محبت کرتا تھا،علوم و فنون کا شیدائی اور اہل علم و فضل کا قدردان تھا،یہ خلیفہ اپنے علوم، مطالعہ،اخبار،معرفۃ النسب اور تقید الآ ثار میں یگانہ روزگار تھا ۔ خلیفہ نے حکم دے رکھاتھا کہ جس قدر ناےاب کتب دستےاب ہوں زرکثیر خرچ کر کے انہیں خرید لیا جائے اور جو کتاب قیمتا نہ مل سکتی ہو اسے نقل کروا لیا جائے ۔ حکم ثانی کے دور میں اندلس علوم و معارف کا گہوارہ بن گےا ،علم و ہنر کا یہاں تک چلن ہوا کہ عورتیں بھی فضل و کمال میں کسی سے پےچھے نہ رہیں ۔ قرطبہ ایک ایسی علمی مارکیٹ میں تبدیل ہو گےا تھا جس میں ہر ملک کی علمی و ادبی تخلیقات دستےاب تھیں ،بیس ہزار دکانیں تو صرف کتابوں کی تھیں اور بےشتر کتب فروش تواپنے اہتمام سے کتابوں کی نقول تک تےار کرتے تھے ۔ محکمہ تعلیم کے استحکام اور اسکے رعب کو قائم رکھنے کےلیے حکم ثانی نے اپنے بھائی منذر کو اس محکمے کا افسر اعلی مقرر کیا ۔ خلیفہ حکم ثانی نے اس قدر کتابیں جمع کیں کہ اس سے قبل کسی بادشاہ نے نہ کی تھی حکم اور اسکے بھائی عبدا;203; نے اپنے باپ کے ہی زمانے سے اپنے کتب خانے قائم کرلیے تھے،چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد حکم ثانی نے ان سب کتب خانوں کو شاہی کتب خانے میں ضم کر دےا،یہ کتب خانہ ےورپ کا پہلا عوامی کتب خانہ تھا ۔ خلےفہ حکم ثانی کے کتب خانے کی عمارت اپنی شان و شوکت میں قصر شاہی سے کم نہ تھی،اس کا فرش نہاےت قےمتی سنگ مر مر کا تھا،دےواریں اور چھتےں سنگ خام کی تھیں جن پر سنگ سبز اور سنگ سرخ کی نگاری کی گئی تھی،ہر کمرہ کسی خاص فن کی کتب کےلیے مخصوص تھا،المارےاں نہاےت قیمتی اور صاف و شفاف لکڑےوں کی تھیں ،ہر الماری پر ;200;وےزاں سونے کی پتری اس الماری میں موجود کتب کی تفصیل بردار تھی، اور دےواروں پر جگہ جگہ مشہور لوگوں کے قےمتی اقوال سنہری حروف میں لکھے تھے ۔ دارالکتابت میں اےک کثےر تعداد کاتبوں ، جلد سازوں اور جلد بندوں کی مقرر تھی بہترےن کتابوں پر سونا بھی چڑھاےا جاتا اور انہیں نقش و نگار سے مزےن کےا جاتا ۔ ےہ مشہور ہو گےا تھا کہ الحکم کےلیے کتابوں سے قیمتی کچھ نہیں چنانچہ لوگ خلیفہ کو ھدےہ اور تحفہ میں کتابیں ہی بھیجتے تھے یہاں تک کہ قرطبہ کے مسیحیوں نے بھی حکم ثانی کو ;34;اندلسی عیسائیوں کی عیدیں ;34; کے نام سے اےک کتاب پےش کی ۔ بغداد،بصرہ اور دور دراز کے شہروں کے مصنفین اپنی کتابیں خلیفہ کے نام منسوب کر کے قرطبہ بھیج دےتے اور خلیفہ سے انعام میں بھاری رقوم وصول کرتے،جو بھی خلیفہ کا قرب اور رسوخ چاہتا کوئی قیمتی کتاب لے کر حاضر ہو جاتا ۔

ہر بڑے شہر میں خلیفہ کی طرف سے اےسے لوگ بھی موجود ہوتے جو صرف نقل کتب کا کام کرتے اور کتب کی نقول تےار کر کے قرطبہ روانہ کر دےتے، ۔ خلیفہ کے ان اقدامات سے اندلس میں اس قدر کتابیں جمع ہو گئیں کہ اس سے قبل نہ ہوئی تھیں ۔ دےگر زبانوں کی کتب سے ;200;شنائی کےلیے خلےفہ نے اپنے کتب خانے میں یونانی و عبرانی زبانوں سے تراجم کا اےک محکمہ بھی بناےاجس عمارت میں الحکم کی لائبرےری تھی وہ ناکافی ہو گئی تو الماریوں میں کتابیں اےک دوسرے کے اوپر رکھ دی گئیں یہاں تک کہ مزےد گنجائش نہ رہی، چنانچہ کتب خانہ دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا جس میں لاتعداد لوگ شرےک کار ہوئے لیکن اس کے باوجود کتابوں کی کثےر تعداد کے باعث انتقال کے اس عمل میں چھ ماہ لگ گئے ۔ الحکم کے زمانے میں اندلس کے اندرصوبائی اور ضلعی لائبرےرےاں بھی کثرت سے تھیں ےہ لائبرےرےاں مشہور لوگوں کی تھیں اور ان میں خواتین کے کتب خانے بھی شامل تھے ۔ تمام بڑے بڑے شہروں میں پبلک لائبرےرےاں تھیں جن کے اخراجات حکومت برداشت کرتی تھی صرف قرطبہ شہر میں ایسی لائبرےریوں کی تعداد ستر(70) تھی ۔ اس عہد میں علما و فضلا کا بازار گرم رہا اور خلیفہ نے بہت سی مجالس علمیہ قائم کیں چنانچہ مذاہب کی تعلیم اور کتاب بینی عام رواج بن گئی اور کوئی ان پڑھ باقی نہ رہا ۔

حجاز،بغداد،قاہرہ،سمرقندوبخارا،ترمذ،دہلی غرض جہاں جہاں مسلمانوں نے حکومت کی وہاں کتاب کی تہذیب کی بنارکھی،انگریزجب ہندوستان میں وارد ہوئے تو ان کے سروے کے مطابق یہاں کی شرح خواندگی 87%تک پہنچ چکی تھی ۔ اندلس میں جاہل ،اجڈ،گنواراوربدتمیزیورپی افواج نے فرڈی ننڈکی قیادت میں اورمشرق میں ہلاکوخان کی جانگلی سپاہ نے کتب خانوں کو نذرآتش کیا اور کتابیں اٹھا اٹھاکر دریابرد کردیں یہاں تک کہ دریاؤں کا رنگ سیاہ ہو گیا اور علماء کرام کو تہہ تیغ کیاجس سے مسلمان اس قدر زوال کا شکار ہوئے کہ ان پر کاتب تقدیر نے غلامی مسلط کر دی اور مشرق و مغرب میں انسانوں کے شکاری اور سیکولرفکر کے حامل مرقع جہالت اقوام و افراد کتاب کی تہذیب کو ڈبوتے ہوئے اپنی تلوار کے زور پرلڑاوَاور حکومت کروکے اصول کے مطابق دنیا کے شرق و غرب پر حکمران بن گئے ۔ مسلمانوں کے دور میں سائنس نے بے پناہ ترقی کی تھی ،بغداد میں ایک ،مسلمان سائنسدان اندھیری راتوں میں چاندنکالتاتھاجوایک طرف سے شہر بھر میں طلوع ہوتا اور دوسری طرف غروب کردیاجاتا اور روشنی اس قدر ہوتی تھی کہ آنکھ کے قریب کرکے کوئی تحریر بھی پڑھی جاسکتی تھی لیکن سائنس کی اس ترقی نے انسانوں کو کتاب سے دور نہیں کیاتھا ۔

گزشتہ چار سوسالوں سے سیکولر مغربی تہذیب انسانوں کی گردنوں پر مسلط ہے اور انسانوں کا جم غفیر رفتہ رفتہ کتاب سے دور ہٹتاچلارہاہے،خاص طورپر سائنس کی ایجادات نے عام انسان کو کتاب سے دور سے دور تر کر دیاہے ۔ مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ پرامن دور میں خاص طور پر اوراس سے پہلے عام طورپر کتاب کابہت بڑاکردار مخلوق کو خالق سے ملانا تھا،لیکن سیکولرمغربی تہذیب نے جہاں انسانوں کو کتاب سے دور کردیاہے وہاں مخلوق کو خالق سے بھی دورکردیاہے اوراب کتاب بینی ادراک معرفت اور خودبینی و خدا شناسی کی بجائے محض چندسکوں کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے،گویا اس سیکولر ازم نے کتاب بینی جیسے مقدس شغل کو بھی ’’کمرشلائز‘‘کر دیاہے اور خاص طور پر جہاں جہاں مغربی استعمار اپنی غلامی کے مکروہ کانٹے بوکر گیاہے وہاں سے تو کتاب کی صنعت بالکل ہی بیٹھ گئی ہے ۔ طالب علم جب ایک درجہ سے آگے بڑھ جاتاہے توگزشتہ درجہ کی کتب اس کے لیے ’’ردی‘‘سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انسانوں کو بام عروج تک پہنچانی والی ’’کتاب‘‘ آج جمعہ بازار کے فٹ پاتھوں پر اپنے گاہک کی تلاش میں مہینوں تک گردآلود ہوتی رہتی ہے ۔ سیکولرازم کے اس کتاب دشمن کردار نے دنیا میں جہل عام کردیاہے اور چندفنون کی کتابیں ازبرکرلینے کوہی حصول علم سمجھاجانے لگاہے جس کے باعث اعلی اسلامی اخلاق تو کجا انسانی بستیوں سے تو بنیادی انسانی تمدن بھی عنقا نظرآتاہے ۔ قدرت کایہ قانون ہے کہ خلاکو پر کرنے لیے بہت دور سے زوردارگھٹائیں امڈتی چلی آتی ہیں اور سیکولرازم کے اس خلاکو صرف اسلامی تہذیب کتاب بینی ہی پر کر سکتی ہے جس کے سورج کی شفق آج بآسانی دیکھی جاسکتی ہے اور جس کے طلوع کے ساتھ ہی سیکولرازم کے اندھیرے اپنے چمگادڑوں کے ساتھ ہی انسانیت سے دورکسی آسیبی غار میں ہمیشہ کے لیے پناہ گزیں ہو جائیں گے،انشاء ا;203; تعالی ۔
drsajidkhakwani@gmail;46;com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
21498