Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فضائلِ شبِ برأت……..تحریر: علامہ پیرمحمدغفران محمود سیالوی

Posted on
شیئر کریں:

شب برأت کامطلب:
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شب برات کہا جاتا ہے۔شب کے معنی ہیں رات اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق ہونے کے ہیں۔چونکہ اس رات مسلمان توبہ کر کے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ کی رحمت سے بے شمارمسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں۔اس رات کو لیلۃ المبارکہ( برکتوں والی رات)،لیلۃ البراۃ (دوزخ سے نجات پانے کی رات)،لیلۃ الرحمۃ( نزول رحمت کی رات)،لیلۃ الصک( تفویض امور کی رات ) بھی کہاجاتاہے۔

نزولِ رحمت کی رات:
حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات میں خدائے ذوالجلال آسما نِ دنیا پرجلوہ افروزہوتا ہے اور کارکنان غیبی اللہ تعالیٰ کے سامنے سال بھر کے اعمال نامے پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد احکم الحاکمین اپنی شفقت سے بندوں کو خطاب فرماتا ہے :’’خبردار ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں،خبردار ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، خبردار ہے کوئی مصیبت میں گرفتار کہ میں اس کو معافی عطا کردوں،یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔

رحمت خداوندی سے محروم اشخاص:
اس رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے چندلوگوں کے ۔مختلف احادیث کی رو سے مشرک ،والدین کے نافرمان ،کاہن،نجومی ،جادوگر، فال نکالنے والے،سنت رسولﷺکیخلاف عمل کرنے والے،جلاد،قرابت داروں سے قطع تعلق کرنیوالے،کینہ پر ور،عادی سود خود،ناچ گانے والے،زنا کار،شراب کے عادی مردوخواتین کی بخشش نہیں ہوتی ۔

تقسیم امورکی رات:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’فیھا یفرق کل امر حکیم‘ ’’اس رات ہر حکمت والے کا م کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ ‘‘(سورۃ دخان )
سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اکثر مفسرین کے نزدیک اس رات سے مراد شب برأت ہے ۔(غنیۃ الطالبین )
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی پندرہویں شعبان کو کیا ہوتا ہے ۔ عرض کیا ! اے اللہ کے رسول اس میں کیا ہوتا ہے ؟فرمایا !’’اس سال میں جس بچے نے پیدا ہونا ہے اس رات وہ لکھا جاتا ہے اور اس سال میں جس نے وفات پانی ہے اس رات اسے لکھا جاتا ہے اور اس رات (سال بھر کے )اعمال اُٹھائے جاتے ہیں اور(سال بھر کا ) رزق نازل کیا جا تا ہے ۔‘‘(رواہ البیہقی )

یہی بات ایک اور حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے حضرت عثمان بن محمد فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ زمین والوں کی عمر یں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لکھ دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں ۔حالانکہ اس کا نام مردوں میں داخل ہو چکا ہوتا ہے ۔(ابن کثیر)

حضرت راشد بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ،شعبان کی پندرھویں شب کو اللہ تعالیٰ سال بھر میں قبض کی جانے والی روحوں کی فہرست ملک الموت کے حوالے کر دیتا ہے ۔(روح المعانی)

مغفرت و بخشش کی رات:
اس رات کی فضیلت کی ایک اور وجہ بخشش اور مغفرت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات میں بے پناہ لوگوں کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور بے شمار لوگوں کی مغفرت کر دیتا ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا کی طر ف نزول فرماتا ہے اور اس شب میں مشرک اور دل میں بغض رکھنے والوں کے سوا ہر کسی کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔(بیہقی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺکو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی جستجو میں نکلی ۔کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تمہیں یہ خیال آیا کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارا خیال نہ رکھیں گے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔(ترمذی)

قبولیت و شفاعت کی رات:
اس رات کی فضیلت کی ایک اور وجہ قبول شفاعت ہے یعنی جو مسلمان اس رات میں عبادت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گا تو اسے روز قیامت حضور ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی ۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:اور مجھے کچھ ایسے فضائل ملے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملے اور مجھے شفاعت دی گئی ۔(بخاری ،مسلم، نسائی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک ’’دعا ئے خاص‘‘ اللہ تعالیٰ کی جناب سے ملتی ہے کہ جو چاہو مانگ لو اوروہ ضرور دیا جائے گا ۔تمام انبیاء آدم سے عیسیٰ (علیہم السلام)تک سب اپنی اپنی دعا دنیا میں کر چکے ہیں اور میں نے دعا آخرت کے لئے اٹھا رکھی ہے ۔ وہ ’’دعا ئے خاص‘‘ قیامت کے دن میری امت کے لئے میری ’’شفاعت ‘‘ ہے ۔میں نے اسے ساری امت کے لئے بچارکھا ہے جو دنیا سے ایمان پر اٹھے گی۔(احمد ،بخاری، مسلم)

شب برأت کے معمولات :
ویسے تو تمام عبادات اور تمام کلمات طیبات برکت و رحمت اور ثواب کا ذریعہ ہیں لیکن اس مبارک رات میں درج ذیل معمولات نبی اکرم ﷺصحابہ کرام اور بزرگان دین سے ثابت ہیں ۔

شب بیداری:
حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ شب زندہ دار ہیں وہ اپنی رات میں اس سے کہیں زیادہ لذت پاتے ہیں جو لہو و لعب میں مشغول رہ کر لذت پاتے ہیں ۔حدیث شریف میں وارد ہے ۔علیکم بقیام اللیل فانہ مرضاۃ لربکم الخ ۔رات کو اُٹھ کر عبادت کرو کیونکہ اس میں تمہارے رب کی رضا مندی ہے ۔شب برأت کی مبارک ساعتوں میں حضور ﷺ نے بذات خود عبادت میں کثرت کی ہے ،اس لئے حضور ﷺ کی اتباع میں اس رات کو نوافل پڑھنا اور شب بیدار رہنا عین سنت ہے۔

پندرہویں شعبان کا روزہ سنت ہے :
پندرہویں شعبان کے روزے کے بارے میں حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں تاریخ آئے تو رات کو شب بیداری اختیار کرو اور دن کو روزہ رکھو بیشک اللہ تعالیٰ یعنی اس کی رحمت غروب آفتاب کے وقت نیچے والے آسمان پر نزول فرماتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق مانگنے والا اسے رزق دوں ، ہے کوئی عافیت و سلامتی مانگنے والا کہ اسے عافیت و سلامتی دوں ،ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا حتیٰ کہ صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے ۔ (ابن ماجہ ، بیہقی )

شب برأت کو قبر ستان جا نا سنت ہے:
پندرہویں شعبان کی شب نبی اکرم ﷺ جنت البقیع قبر ستان میں تشریف لے گئے جیسا کہ حدیث اُ م المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا میں اس کا واضح ذکر موجود ہے لہٰذا شب برأت پر قبر ستان جا نا بھی سنت نبوی ہے ۔ نیز دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر سال شہدأاحد کی قبروں پر تشریف لے جاتے اہل قبور کو سلام فرماتے اور دعا فرماتے نیزمسلمانوں کو حکم دیا کہ اہل قبور کو سلام کہو بلکہ سنن بیہقی میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی قبر پرکھڑے ہو کر فرمایا !جو بھی انہیں سلام کہے گا یہ قیامت تک اس کا جواب دیں گے ۔ اے مسلمانوں ! تم انہیں سلام کہو اور انکی زیارت کرو۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ! ’’کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فانھا تذکر الاخرۃ‘‘’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ عمل آخرت کی یاد دلاتا ہے ۔

شب برأت کو غیر شرعی رسوم کا رواج:
اس رات برصغیر کے مسلمانوں میں آتش بازی کی بری رسم را ئج ہے۔ شیخ المحققین حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آتش بازی بدعت سۂ ہے ۔ مفتی اعظم حضرت سیدابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آتش بازی سخت حرام ہے اور مسلمان کو چاہئے کہ یہ پیسہ صدقہ و خیرات کی صورت میں غرباء ومساکین پر خرچ کریں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
21278